پروفیسر احمد عقیل روبی
(ہمہ جہت ادیب ٗ ممتاز خاکہ نگار ڈرامہ نگار ‘ مترجم اور شاعر)
انٹرویو:عمران نقوی انتخاب و پسند: محمد اسلم لودھی
پاکستان کے ممتاز ادیب و شاعر اور پروفیسر احمد عقیل روبی اب اس دنیا میں
نہیں رہے ۔وہ 6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور23نومبر2014ء کو
اس دنیا سے رخصت ہوئے۔درج ذیل انٹرویو جناب عمران نقوی نے روز نامہ پاکستان
کے ہفت روزہ میگزین "زندگی"کے لئے لیا تھا جو وہاں شائع ہوچکا ہے ۔یہ
انٹرویو جناب عمران نقوی سے شکریے کے ساتھ مارگلہ نیوز میں اس لئے شائع کیا
جا رہاہے تاکہ پاکستانی ادب کے اس عظیم ادیب کی یادوں کو تازہ کیا
جائے۔پروفیسر احمد عقیل روبی مرحوم کے ساتھ میرا بھی گہرا تعلق رہا ۔ میرا
شمار بھی ان کے لکھے ہوئے خاکوں پسند کرنے والوں میں تھا بلکہ چند ایک بار
وہ ملاقات کا شرف بخشنے کے لیے بنک آف پنجاب کے ہیڈ آفس بھی تشریف لائیں
اور کئی کئی گھنٹے ان سے ملاقا ت رہی۔اس لئے یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ میرے
پسندیدہ ترین مصنفین میں شامل تھے ۔ لیجئے آپ بھی اس انٹرویو سے لطف اندوز
ہوں۔
****************
احمد عقل روبی بحیثیت قلم کار کئی حیثیتوں سے جانے اور مانے جاتے ہیں۔
شاعری‘ ناول نگاری‘ ترجمہ‘ سوانح نگاری‘ تنقید‘ ڈرامہ نویسی…… ان تمام
حوالوں سے وہ منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ ان کی اب تک 30 کے لگ بھگ تصانیف
شائع ہو چکی ہیں جن میں سوکھے پتے‘ بکھرے پھول‘ ملی جلی آوازیں‘ا ٓخری شام‘
سورج قید سے چھوٹ گیا‘ کہانی ایک شہر کی‘ بلائی ٹس‘ دوسرا جنم‘ آدمی صدی کا
خواب‘ چوتھی دنیا‘ بنجر دریا‘ جنگل کتھا‘ فاہیان‘ ساڑھے تین دن کی زندگی‘
کھرے کھوٹے‘ جناور کتھا‘ نصرت فتح علی خان‘ کرنیں تارے پھول‘ علم ودانش کے
معمار‘ ایڈی پس ریکس‘ میڈیا‘ دوسرا جنم‘ تیسواں پارہ‘ نماز‘ یونان کا ادبی
ورثہ‘ دو یونانی کلاسک ڈرامے‘ باقر صاحب‘ مجھے تو حیران کر گیا وہ‘ بولڈ
اینڈ بیوٹی فل‘ قتیل کہانی‘ علی پور کا مفتی اور معزز فاحشہ شامل ہیں۔
2001ء میں صدر شعبہ اردو ایف سی کالج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ حکومت
پاکستان نے ان کی وسیع تر خدمات پر 14 اگست2012 کو انہیں تمغہ امتیاز
دیاگیا۔ اس حوالے سے ادبی حلقوں کا متفقہ طور پر یہ کہنا ہے کہ عقل روبی کو
یہ اعزاز بہت دیر سے ملا ہے جبکہ روبی صاحب کا کہنا ہے کہ قدرت کی طرف سے
ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ یہ اعزاز جس مقررہ وقت پر مجھے ملنا تھا ٗ مل
گیا۔ احمد عقیل روبی وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اور یونانی ادب ان کا مرغوب
موضوع ہے۔ اس کے علاوہ روسی‘ فرانسیسی‘ امریکی‘ انگریزی ادب پر ان کی بہت
گہری نظر ہے جس کا ثبوت ان کی کتاب ’’علم ودانش کے معمار‘‘ ہے جو نیشنل بک
فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے۔ یہ ان تمام زبانوں کے تفصیلی جائزہ پر مشتمل ہے
اور 2011ء میں اس کے دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی‘ گورنمنٹ کالج
لاہور‘ ایجوکیشن یونیورسٹی اور ایم اے او کالج لاہور سے ان کی شخصیت اور فن
پر ایم فل اور ایم اے کے تھیسز ہو چکے ہیں۔ احمد عقیل روبی کے ساتھ ہونے
والی نشست کی تفصیلات پیش ہیں:یہ انٹرویو جناب عمران نقوی نے روزنامہ
پاکستان کے لیے لیا ۔جو ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوا۔ جناب عمران نقوی صاحب
سے شکرے کے ساتھ یہ انٹرویو من و عن شامل کتاب کیا جارہا ہے۔ آئیے احمد
عقیل روبی صاحب سے بات کرتے ہیں-:
سوال: حرف ولفظ سے ناطہ کب جڑا؟
احمد عقیل روبی: بات بہت روایتی ہے۔ بہت سے لوگ کہہ چکے ہیں میں بھی کہنے
میں کوئی عار محسوس نہیں کر تا۔ حرف ولفظ سے ناطہ بچپن ہی میں جڑ چکا تھا
لیکن لفظ اور حرف کی قدر وقیمت بہت بعد میں سمجھ آئی۔ میٹرک‘ ایف اے تک
الٹے سیدھے شعر کہے‘ جن باتوں کا تجربہ نہیں تھا ان باتوں کو شاعری کا حصہ
بنایا۔ قتیل شفائی سے ملاقات ہوئی تو سب کچھ پھاڑ کر پھینک دیا۔ جب میں
پانچویں جماعت میں تھا تو جنرل اعظم خان کے مارشل لاء کے خلاف ایک فلمی
گانے کی دھن پر نظم لکھی۔ پولیس پکڑ کر لے گئی۔ ایک رات جیل میں رہا۔ تھوڑا
تھوڑا یقین آ گیا کہ میں نے جو کچھ لکھا اس میں کوئی بات ضرور تھی جو پولیس
کو بری لگی۔ اس کے بعد پوری ترقی پسند تحریک پڑھ ڈالی۔ اس میں بیدی‘ کرشن
چندر‘ عصمت چغتائی‘ احمد ندیم قاسمی‘ فیض‘ نٹو شامل ہیں۔ ایم اے کرنے لاہور
آیا تو سجاد باقر رضوی‘ ناصر کاظمی کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین کو دور
سے دیکھا۔ قربت دیر میں حاصل ہوئی۔ بس یہ سب لوگ میری تربیت گاہ تھے۔ انہیں
سے میں نے بات کرنے کا سلیقہ‘ نثر لکھنے کا انداز اور شاعری کے رموز جانے‘
سمجھے اور سیکھے۔
سوال: شاعری‘ ڈرامہ‘ ترجمہ‘ ناول نگاری‘ افسانہ نویسی‘ تنقید‘ سوانح
نگاری…… آپ نے یہ سب کچھ کیا‘ کیا یہ سپیشلائزیشن کا دور نہیں؟
احمد عقیل روبی: میں آپ کی بات سمجھ گیا‘ آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اتنے
دروازے کھولنے کی بجائے میں نے ایک میں ناموری حاصل کیوں نہیں کی…… اصل بات
یہ ہے کہ میں نے کہیں اطالوی شاعر ہوریس (Horace) کی یہ بات پڑھ لی تھی کہ
گویا ایک ہی سر پہ گاتا رہے تو سننے والے بور ہو جاتے ہیں۔ اسے سر بدل کر
سننے والوں کو تسکین فراہم کرنی چاہئے۔ میں نے اس بات کی تشریح یہ کی کہ
بری غزلوں کا لکھ لکھ کر ڈھیر لگانا بے ترتیب اور تھکا دینے والی نثر لکھنا
اور لکھتے رہنا کیا اس سے یہ بات بہتر نہیں کہ آدمی اسے چھوڑ کر کسی دوسری
صنف میں طبع آزمائی کرے۔ آج کل شاعری کے نقارخانے میں کتنا بے ہنگم شور ہے‘
کتنا ہنگامہ ہے جو سماعت کو لہولہان کر رہا ہے لیکن شور ہے کہ بڑھتا جا رہا
ہے۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ اس نقارخانے سے نکل کر لکھنے والا کسی دوسری
صنف میں طبع آزمائی کرے…… بس یہی بات تھی جس کو سامنے رکھ کر میں نے یہ سب
کام کئے۔ غزل لکھی‘ جب دیکھا کہ بات نہیں بن رہی تو ناول لکھے‘ جب دیکھا
ناول کی ڈور ڈھیلی پڑ گئی ہے تو ترجمہ شروع کر لیا۔ ترجمے سے جی اکتایا تو
سوانح نگاری شروع کر دی۔ سوانح نگاری سے دل بھرا تو فلمی گیت لکھے۔ دیکھا
وہاں یکسانیت کا شکار ہو گیا ہوں تو افسانے لکھنے شروع کر دیئے مگر میں نے
اپنے آپ کو دہرایا نہیں…… اور پھر ایک ہی رستے پر چلتے چلتے پیر تھکنے لگتے
ہیں۔ اچھا لکھنے والا وہی ہے جب ایک راستے پر تھکن محسوس کرے‘ راستہ بدل
لے۔ شایدقارئین نئے راستے کے مناظر دیکھ کر خوش ہوں…… وہی بات سپیشلائزیشن
کی‘ میں اس پر یقین نہیں رکھتا۔ آدمی کو ہر کام کے بارے میں کچھ نہ کچھ
جاننا چاہئے۔ اس کا نام ضرور کسی نہ کسی شعبے میں جڑ ہی جاتا ہے اور اس کا
کیا لوگ ضمانت سمجھ ہی لیتے ہیں۔
سوال: آپ بنیادی طور پر اپنے آپ کو کیا کہلوانا پسند کریں گے؟
احمد عقیل روبی: میرے لئے اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ میری خاکہ نگاری‘ ناول
نگاری‘ بحیثیت سوانح نگار‘ بطور مترجم اوربطور شاعر یونیورسٹی اور کالجوں
میں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ان سب میں ہر مقالہ نگار نے یہ لکھا ہے کہ میں
نے ہر صنف میں انصاف کیا ہے۔ مجھے ان کی باتوں پر تھوڑا تھوڑا یقین بھی آیا
ہے لیکن میں ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ میں کیا کہلانا پسند کروں…… اصل
بات یہ ہے کہ میں جس صنف میں طبع آزمائی کرتا ہوں اس کا ہو کے رہ جاتا ہوں۔
سر سے لے کر پاؤں تک اس میں انوالو ہو جاتا ہوں…… ہوا یہ کہ میں نے یورپ
اور مغربی مصنّفین پر بہت کام کیا۔ ان پر لکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ
ان کا رشتہ ہر صنف سخن سے جڑا ہوا ہے۔ مثلاً گوئٹے نے شاعری بھی کی‘ ناول
بھی لکھے‘ سفر نامہ بھی لکھا‘ سائنس کے تجربے بھی کئے‘ پتھروں کی قسمیں بھی
دریافت کیں…… فرانس کے وکٹر ہیوگو نے شاعری کی‘ ناول لکھے‘ مصوری کی‘
موسیقی ترتیب دی…… بس انہیں پڑھ پڑھ کر میں گمراہ ہو گیا۔ ان جیسا تو نہ بن
سکا مگر ان کی پیروی ضرور کی…… ادب کے ایک علاقے میں میرا قیام نہیں۔ میں
نے چل پھر کر یہ سارا علاقہ دیکھنے کی کوشش کی ہے…… اس لمبی تمہید کے بعد
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایک ادیب اور مصنف کہلانا پسند کروں گا جس کی
جیب میں مختلف اصناف سخن کے سکے موجود ہیں‘ جس سکے کو جب چاہتا ہے چلے نہ
چلے‘ مارکیٹ میں چلا لیتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ
سکہ کھوٹا ہے۔
سوال: انسان ادب تخلیق کیوں کرے؟
احمد عقیل روبی: ہر انسان ادب تخلیق نہیں کر سکتا۔ صرف وہی انسان اس میدان
میں اترتا ہے جو اپنی ذات کا اظہار کرنا چاہتا ہے‘ اپنے آپ کو نمایاں کرنا
چاہتا ہے۔ اپنی پہچان بنانا چاہتا ہے…… اسے ایسا کرنا چاہئے تاکہ اس کے
مشاہدے‘ تجربے اور فکر کی روشنی سے دوسرے انسان راستہ تلاش کر سکیں۔ میر‘
غالب‘ اقبال‘ ٹالسٹائی‘ شیکسپیئر‘ ہومر‘ اگر ادب تخلیق نہ کرتے تو ہمارے
لئے زندگی کا سفر کتنا مشکل ہو جاتا۔ بڑے ادیبوں کا تخلیق کردہ ادب…… دراصل
تاریک اور اندھی راہوں میں جلتے چراغ ہیں جن سے آنے والی نسلیں اپنی منزل
پاتی ہیں۔ اگر ادب کی تخلیق رک جائے تو نہ جانے کتنے لوگ‘ انسانوں کی کتنی
نسلیں اندھی گپھاؤں میں دم توڑ دیں۔
سوال: انسان ادب کیوں پڑھے؟
احمد عقیل روبی: سوال کا آغاز کچھ یوں ہونا چاہئے کہ آدمی ادب کیوں پڑھے……
کیونکہ آدمی اور انسان میں لاکھوں میل کا فاصلہ ہے۔ ہر وہ شخص جو دو ہاتھ‘
دو آنکھیں اور دو پاؤں لے کر دنیا میں آتا ہے وہ آدمی ہے اور وہ عام آدمیوں
کی طرح کھاتا ہے‘ پیتا ہے‘ بڑھتا ہے‘ جوانی کی بہار دیکھتا ہے اور ایک عام
زندگی گزار کر دنیا سے چلا جاتا ہے…… لیکن اگر وہ ادب سے شناسائی رکھے تو
شاید وہ اچھی زندگی گزار سکے اور آدمی سے انسان بن جائے۔ اس کائنات کی
مسرتوں اور خوبصورتیوں اور اقدار سے روشناس ہونے کے لئے ادب کا مطالعہ کرنا
ہو گا تاکہ وہ آدمی سے انسان بن جائے۔ ادب کا مطالعہ شخصیت میں نکھار پیدا
کرتا ہے اور اسے ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں وہ دنیاوی قدروں سے
ہاتھ چھڑا کر روحانی مسرت حاصل کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ادب اس روحانی مسرت
سے مالامال کرتا ہے جو دنیاوی لالچ‘ لوبھ سے آدمی کو چھٹکارا دلاتی ہے۔
سوال: آپ ایک مستند مترجم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ترجمہ اصل کا ہم پلہ
قرار دیا جائے تو یقینا اصل میں کوئی کمی ہو گی۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں
گے؟
احمد عقیل روبی: ترجمہ کرنا کرائے کے گھر میں رہنے کے برابر ہوتا ہے۔ مالک
مکان کی شرط ہوتی ہے کہ اس گھر میں ہنسی خوشی رہو مگر اسے تبدیل کرنے کا حق
تمہیں بالکل نہیں۔ چنانچہ مترجم کو اس گھر کو سجانا ہوتا ہے۔ آرائش کرنا
ہوتا ہے مگر اسے توڑپھوڑ اور تبدیلی کا کوئی حق نہیں……
انتظار حسین نے کہا تھا کہ ترجمے میں کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا ہے اوریہی
کچھ نہ کچھ اصل ہوتا ہے…… یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ ایک زبان میں کہی
بات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ واقعی کچھ نہ کچھ باقی
رہ ہی جاتا ہے لیکن بہرحال مفہوم تو آ ہی جاتا ہے…… اصل میں ترجمہ وہی کر
سکتا ہے جو دونوں زبانوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو‘ دو کلچرز سے واقفیت رکھتا
ہو۔ زبان کی باریکیوں سے آشنا ہو۔ لغت پر عبور ہو اور انسانی نفسیات کا
ادراک رکھتا ہو۔ بہرحال ترجمہ اس لئے نہیں چھوڑا جا سکتا کہ ترجمہ اصل کو
دوسری زبان مان لی جائے تو دنیا کی بڑی بڑی تحریریں اپنی اپنی زبان میں
سوتی رہیں اور دوسری زبانیں ان کی قدر وقیمت سے ناواقف رہیں…… کسی زبان کو
فکری وسعت دینے کے لئے ترجمہ بہت ضروری ہے۔ بقول ٹی ایس ایلیٹ…… ہر اچھے
ادیب کو چاہئے کہ کسی دوسری زبان کی ایک شاہکار کتاب اپنی مادری زبان میں
ترجمے کرے تاکہ اس کی زبان کو وسعت ملے…… میں نے اس بات کو مدنظر رکھتے
ہوئے کچھ ترجمے کئے ہیں…… میں اصل میں کتنی دور رہا ہوں یہ تو ترجمے پڑھ کر
ہی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سوال: یونانی کلچر سے دلچسپی کا کوئی خاص محرک؟
احمد عقیل روبی: بے شمار محرکات ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا شعور بیدار ہوا تو ہر
بڑے ادیب کو یونان کے ادب اور کلچر کی مالا جپتے دیکھا…… ورجل‘ ہوریس‘
دانتے‘’ ایذرا پاؤنڈ‘ ٹی ایس ایلیٹ‘ جیمز جوائس‘ سب کلیبوں پر ایک ہی صدا
تھی کہ جس نے یونانی ادب نہیں پڑھا اسے ادیب بننے کا کوئی حق نہیں…… چنانچہ
میں اس راستے پر چل نکلا اور اب تک چل رہا ہوں…… یونانی فلاسفرز‘ ڈرامہ
نویس‘ نقاد ذہانت کے دکاندار ہیں جن کی دکان سے دنیا کے ہر بڑے ادیب نے
سودا خریدا ہے۔ ٹالسٹائی جیسا بڑا ادیب کہتا ہے‘ یوری پیڈیز کے ڈرامے پورے
روسی ادب کے برابر ہیں…… ایذراپاؤنڈ نے کہا:
Homer is my destination
میں نے یونانی ادب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میری کتاب ’’یونان کاا دبی ورثہ‘‘
اس کا ثبوت ہے۔ سلیم الرحمن نے یونان پر بہت کام کیا ہے۔ میں نے بھی اس کی
پیروی کی ہے…… یونانی ڈراموں کے ترجمے کئے ہیں۔ کراچی میں قائم (NAPA) جو
پر فارمنگ آرٹ کی اکادمی ہے اور جسے ضیاء محی الدین چلاتے ہیں وہاں میرے
ڈرامے نصاب میں شامل کئے ہیں۔ میں نے یونانی کلچر اور ادب پڑھنے کی تحریک
دنیا کے بڑے ادیبوں سے حاصل کی جن کا یہ کہنا ہے کہ جس نے یونانی ادب نہیں
پڑھا اس نے کچھ نہیں پڑھا……
سوال: آپ یونانی ادیبوں سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں‘ کیا یونانی ادب ہی
دنیا کا اعلیٰ ترین ادب ہے؟
احمد عقیل روبی: اس میں شک نہیں کیونکہ یونانی ادب دنیا کا روہ سب سے بڑا
ادبی ڈیم ہے جس سے دنیا کے تمام ادب کی نہریں نکلی ہیں۔ آپ ساری دنیا کا
ادب پڑھ لیں اس پر آپ کو یونانی ادب کے شدید اثرات ملیں گے…… ہومر سے ورجل
متاثر ہوا‘ ورجل سے دانتے اور دانتے سے ملٹن…… یونان سے متاثر ہو کر دنیا
کا اعلیٰ ادب پیدا ہوا۔ روسی‘ فرانسیسی‘ انگریزی ادب سے انکار نہیں کیا جا
سکتا لیکن ان میں یونانی ادب جھانکتا دکھائی دیتا ہے جس طرح دنیا کے تمام
فلسفیوں کے ہاں ارسطو اور افلاطون کی جھلک دکھائی دیتی ہے اسی طرح دنیا کے
ہر بڑے ادب میں ہومر‘ سکائی لیس‘ سوفوکلیز اور یوری پیڈیز کا اثر دکھائی
دیتا ہے۔
سوال: ہمارے ہاں آج کوئی بڑا ادیب اور شاعرنظرنہیں آتا‘ کیا آپ کو اس کا
احساس ہے؟
احمد عقیل روبی: بڑے شاعر اور ادب کا تعین اس کا عہد نہیں کرتا‘ اس کے لئے
پچاس ساٹھ کا عرصہ چاہئے۔ آج کے مقبول شاعر شاید آنے والے عہد کے مقبول
شاعر نہ رہیں۔ جنہیں آج ہم مقبولیت کے دائرے میں نہیں لاتے‘ آنے والا عہد
شاید ان کا مقام اعلیٰ قرار دے…… نظیر اکبر آبادی کو غلام مصطفی شیفتہ نے
’’گلشن بے خار‘‘ میں شامل نہ کیا لیکن آج کے عہد نے اسے بڑا شاعر قرار دیا
ہے…… اطالوی شاعر دانتے کی شاعری ایک عرصہ شہرت حاصل نہ کر سکی لیکن جو
کلیچیو نے آ کر اس کی اہمیت بیان کی۔ آج دانتے بڑا شاعر ہے…… میں مایوس
نہیں صرف امید پر خوش ہوں کہ جنہیں آج آپ اہمیت نہیں دیتے شاید وہی آنے
والے دور کے بڑے کہلائیں اور جنہیں آج سب نے سر پر بٹھایا ہوا ہے انہیں آنے
والا کل زمین پر دے مارے۔ بڑا کون ہے اس کا فیصلہ بقول دوستو یوفسکی 100
سال کے بعد کا عہد کرتا ہے چنانچہ Let us sit and wait۔
سوال: چالیس برس قبل اور موجودہ ادبی فضا میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
احمد عقیل روبی: وہی جو موسم بہار اور خزاں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ پہلے
سبزیاں دیسی کھاد میں تیار ہوتی تھیں ان کے مزے اور خوشبو سے پورا ماحول
مہک اٹھتا تھا۔ اب یوریا کھاد نے سارا مزہ ختم کر دیا ہے…… اب ماحول میں
آوازیں ہیں‘ سریلا پن نہیں۔ الفاظ ہیں اثر نہیں‘ مانی کہیں گم ہو گئے ہیں……
کتابیں موجود ہیں شعر نہیں۔ مقدار ہے کوالٹی نہیں۔ مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا
ہے۔
سوال: ہمارے معاشرے میں ادب سے بے اعتنائی کا مسئلہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے‘
ایک شاع نے یہ تک کہہ دیا کہ معاشرے اور ادیب میں بول چال بند ہے۔ ایسا کیو
ں ہے؟
احمد عقیل روبی: روسی شاعر حمزہ رسول توف کی ایک نظم یاد آ گئی‘ آپ کا سوال
سن کر…… نظم کا عنوان ہے۔ (غالباً شاعر)
میرا بیٹا جب غوں غوں کرتا تھا
تو میں اس کی ہر بات سمجھ لیتی تھی
جب سے وہ شاعر ہوا ہے
مجھے اس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی
بس معاشرے کو بھی آج کے شاعر سے یہی گلہ ہے۔ شاید اسی لئے دونوں میں بول
چال بند ہے۔ محبوب ترکی زبان میں بات کرے تو اسے صرف دیکھا جا سکتا ہے‘ اس
سے بات نہیں کی جا سکتی…… یونانی ڈرامہ نویس یوری پیڈیز نے کہا تھا:
’’I write what i see in society‘‘
شاید اس کی مقبولیت کی یہی وجہ تھی…… آج کا شاعر شاید وہ باتیں کرتا ہے جو
وہ خود ہی سمجھتا ہے۔ معاشرے کو اپنی باتوں کا حصہ نہیں بناتا۔ بچے کے
سامنے فلسفے کو زیربحث لانے والا شاعر بیوقوف قرار پاتا ہے۔ معاشرے کی نبض
پر ہاتھ رکھنے والا ادیب ہی معاشرے کے قریب ہوتا ہے۔ ماورائی باتیں کرنے
والا اور پرسنل امیجری کے زیورات بنانے والا شاعر معاشرے کے لئے اجنبی ہوتا
ہے…… لوگوں کے دل کی بات کہنے والا ادیب ہی مقبولیت کی سند حاصل کرتا ہے……
ادب سے بے اعتنائی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے۔ لوگوں کو اپنی تحریروں میں شامل
کرو لوگ ساتھ چلیں گے‘ بات چیت میں شامل ہوں گے ورنہ وہ کہیں گے:
زبانِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر اپنا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
سوال: آپ کی گفتگو سنیں تو تاثر ملتا ہے کہ آپ ماضی سے جڑے دانشور ہیں جبکہ
لمحہ موجود کے تقاضے مختلف ہیں؟
احمد عقیل روبی: ہاں میں ماضی سے جڑا ہوں۔ میں نے جن لوگوں کو عبادت جان کر
پڑھا ہے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہومر‘ روسو‘ شیلے‘ بائرن‘ میر‘ غالب‘
اقبال‘ طلسم ہوشربا کا مصنف…… انتظار حسین‘ ناصر کاظمی…… سب کے سب ماضی سے
جڑے ہوئے ہیں…… لیکن یہ جو لکھ لکھ کر ماضی کی راکھ کا ڈھیر لگاتے ہیں اسی
میں عہدحاضر اور مستقبل کی چنگاری دہک رہی ہے…… میرا ایمان اور اعتقاد ہے
کہ عہد حاضر کی پشت پر پڑا ماضی کا تازیانہ ہی وقت کے گھوڑے کو روشن مستقبل
کی طرف دوڑاتا ہے۔
سوال: کیا منٹو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نویس ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو
کیوں؟
احمد عقیل روبی: جی ہاں منٹو اردو کے چند بڑے افسانہ نگاروں میں سے ایک ہے۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ منٹو نے جن موضوعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا
وہ ہر دور کے مسائل ہیں۔ منٹو نے انسان کی چھپی نفسیات کو بے نقاب کیا……
ایسے نفسیاتی مسائل پر لکھا جو ہر دور میں انسانوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔
جب تک انسان زندہ ہے اس کے اندر نفسیاتی الجھنوں کی جنگ جاری ہے۔ منٹو زندہ
رہے گا۔
سوال: آپ اردو کے استاد رہے ہیں‘ آپ کے خیال میں اردو شاعری کا بہترین دور
کون سا ہے؟
احمد عقیل روبی: اپنی اپنی رائے اور پسند ہے۔ میرے نزدیک اردو شاعری کا
بہترین دور میر‘ درد‘ سودا کا دور ہے……یہی تین بڑے استاد ہیں جن کے اسلوب
سے آنے والے شاعری کے بہترین ادوار نے جنم لیا۔
سوال: تمغہ امتیاز‘ کیا آپ کی مناسب پذیرائی ہو گئی؟
احمد عقیل روبی:
دمڑی کہیں ملے تو میں دانتوں سے لوں ٹھا
اے اشرفی زمانہ تو کنگال ہو گیا
میں خوش ہوں جتنا میں نے کیا اس کا صلہ مل گیا۔
سوال: آپ نے فلمی نغمہ نگاری بھی کی۔ اپنی اس قسم کی شاعری کو آپ کہاں
سمجھتے ہیں؟
احمد عقیل روبی: فلمی گیت لکھنا شاعری کا ایک الگ شعبہ ہے۔ فلمی گیت لکھتے
ہوئے آپ کو کسی کردار کے جذبات اور کیفیت کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ یہ بظاہر
آسان لیکن مشکل کام ہے۔ ہر شاعر یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہ عیب کرنے کے لئے
بھی ہنر کی ضرورت ہے۔ میرے اندازے کے مطابق ہر مشہور شاعر اس میدان میں اتر
چکا ہے۔ احمد ندیم قاسمی‘ شہزاد احمد‘ احمد فراز‘ فیض صاحب لیکن ان میں سے
کسی نے بھی دور تک چلنے کی کوشش نہیں کی۔ منیر نیازی‘ فراز‘ فیض صاحب کی
کتابوں سے غزلیں لے کر موسیقاروں نے دھنیں بنائیں مگر فلمی سچوایشنز پر کسی
نے گیت نہیں لکھے۔ آرزو لکھنوی‘ ساحر‘ قتیل‘ مجروح‘ شکیل بدایونی‘ سیف
الدین سیف‘ تنویر نقوی‘ حمایت علی شاعر‘ کیفی اعظمی‘ جان نثار اختر‘ راجہ
مہدی علی خان نے گیت لکھ کر بے پناہ شہرت حاصل کی…… میں نے بھی گیت لکھے
ہیں…… میں اپنی اس شاعری کو ’’ضرورت‘‘ قرار دیتا ہوں معیاری شاعری نہیں۔
اگرچہ ان گیتوں نے بے پناہ شہرت بھی حاصل کی۔
سوال: ہمارا فکشن رائٹر ناول لکھنے سے کیوں گریزاں ہے؟
احمد عقیل روبی: پہاڑ پر چڑھنے کے لئے طاقت اور حوصلہ چاہئے۔ یہ وہ راستہ
ہے جس پر چلتے چلتے سانس پھول جاتی ہے۔ قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور آدمی تھک
کر بیٹھ جاتا ہے…… شاید اس کی دوسری وجہ تجربے اور مشاہدے کی کمی‘ تاریخی
مطالعے کی کمی‘ زندگی کے نشیب وفراز سے ناواقفیت ہو۔
اردو کے چھ بڑے شاعر…… زمانی ترتیب نہیں چلے گی۔میر‘ غالب‘ اقبال‘ فیض‘
مجید امجد‘ ناصر کاظمی۔
سوال: اگر آپ ادیب نہ ہوتے تو……؟
احمد عقیل روبی: تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ میری اصل پہچان اور شناخت ادب اور
ادیب ہی ہے۔
جناب احمد عقیل روبی کی ایک نمائندہ غزل
غزل
شب کا اندھیرا ان پلکوں میں سوتا رہتا ہے
سورج اس کو دیکھ کے آنکھیں ملتا رہتا ہے
کچھ بھی نہیں ہے لیکن سب کچھ ہے اس چہرے میں
میں سنتا رہتا ہوں یہ دل کہتا رہتا ہے
دل آنگن میں درد کی کائی جمتی رہتی ہے
سانس کا بالک اس کائی پر چلتا رہتا ہے
لمحہ لمحہ سکھ کی پونجی کھلتی رہتی ہے
لمحہ لمحہ خطرہ سر سے ٹلتا رہتا ہے
سب رخصت ہو جاتے ہیں جب رات گئے روبی
غم کا ایک پرانا خادم بیٹھا رہتا ہے
|