ڈاکٹر غلام شبیررانا
تحریف نگاری کے ذریعے کسی ادیب کے اسلوب کی کسی صنف سخن میں مبالغہ آرائی
پر مبنی انداز میں ایسی نقالی کی جاتی ہے جس سے مزاح کو تحریک ملے ۔محمد
داؤد خان اختر شیرانی ( 1905-1948) کی رومانی شاعری سے فطرت نگاری کی مظہر
سراپا نگاری ایک ایسی نادر مثال پیش کی جاتی ہے جس کے بیان میں ماضی
استمراری کے استعمال سے وادی ٔ خیال کی ایک رومان پرور حسینہ کے محو خرام
رہنے کی لفظی مرقع نگاری سے شاعری کو ساحری میں بدل دیا گیاہے ۔ رومانی
،جذباتی اور عہدِ شباب کی ہنگامہ پرور زندگی کے نشیب و فراز کی مظہر یہ نظم
قاری کو وادیٔ خیال میں مستانہ وارگھومنے والے اس شاعرکے مزاج سے آ شناکرتی
ہے۔جوانی کے زمانے اور حسن و رومان کے فسانے کی مرقع نگاری پر مبنی یہ
رومانی نظم ہر کینہ پرور ،محسن کش اور پیمان شکن ا فعی بیگانے کے لیے عبرت
کے تازیانے کی حیثیت ر کھتی ہے ۔
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پُھول تھی ،سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے دُور، مِثل ِ نِکہت ِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
انہی صحراؤ ں میں وہ اپنے گلّے کو چراتی تھی
انہی چشموں پہ وہ ہرروز، منھ دھونے کو آ تی تھی
اِنہی ٹیلوں کے دامن میں وہ آزادانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
تباہی کی ہوا اس خاکِ رنگیں تک نہ آئی تھی
یہ وہ خِطّہ تھا ،جس میں نو بہاروں کی خدائی تھی
وہ اِس خطّے میں مِثلِ سبزہ ٔ بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
اِسی ویرانے میں اِک دِن بہشتیں لہلہاتی تھیں
گھٹائیں گِھر کے آ تی تھیں، ہوائیں مسکراتی تھیں
کہ وہ بن کر بہارِ جنتِ ویرانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِ س ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گِیت گاتی تھی
پرانے سورماؤں کے فسانے گنگناتی تھی
یہیں پر ، منتظر میری وہ بے باکانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ گیسوئے پریشاں، یا گھٹائیں رقص کرتی تھیں
فضائیں وجد کرتی تھیں، ہوائیں رقص کرتی تھیں
وہ اس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے شگوفے کھلکھلاتے تھے
فضائیں منتشر اک نکہت ِمستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
شمیمِ زُلف سے اُس کی، مہک جاتی تھی کُل وادی
نگاہِ مست سے اُس کی، بہک جاتی تھی کُل وادی
ہوامیں پر فشاں روحِ مے و مے خانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں ہم رنگِ گُل ہائے حسیں، رہتی تھی ریحانہ
مثالِ حورِ فردوسِ بریں، رہتی تھی ریحانہ
یہیں رہتی تھی ریحانہ ،یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
پیامِ ِ دردِ دِل اختر ؔ دیے جاتاہوں وادی کو
سلامِ رخصتِ غمگیں ، کیے جاتاہوں وادی کو
سلام اے وادیٔ ویراں ، جہاں ریحانہ رہتی تھی
(اختر شیرانی )
اردوزبان کے ممتاز مزاح نگار سرفراز شاہد نے اختر شیرانی کی محولہ بالا نظم
کے منتخب اشعار کی تحریف کی ہے ۔ معاشرتی زندگی کے تضادات،بے اعتدالیوں
،ناہمواریوں اور بے ہنگم کیفیات کے پر خلوص اور ہمدردانہ شعورسے لبریز یہ
تحریف تخلیق کار کی فنی مہارت اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا منھ
بولتا ثبوت ہے ۔ اختر شیرانی نے’ ریحانہ ‘ اور سرفراز شاہد نے ’ سلطانہ ‘
جیسی عیاش لڑکیوں کی جس انداز میں تصویر کشی کی ہے قاری چشم ِ تصور سے
اُنھیں دیکھ لیتا ہے ۔یہ ایسے کردار ہیں جو عشوہ و غمزہ و ادا کے تیر چلا
کر اپنے شکار کو گھائل کر نے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔جنوبی ہند اور شمالی
ہند میں تہذیب و تمدن کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا تھاوہ آج بھی موجود ہیں
۔اگر کوئی حسینہ اپنے بارے میں تمام حقائق منظر عام پر لانے میں تامل کرے
تومعاشرتی زندگی میں جب وہ دوسروں کے روّیے پر گرفت کرے گی تو اُس کے
تاثرات پرکون دھیان دے گا؟بھاگ متی ،لال کنور ، ادھم بائی ،ریحانہ اور
سلطانہ تو محض علامتی کردارہیں ۔انھیں ایک نفساتی کُل کے روپ میں دیکھنا
چاہیے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی تاب و تواں کو متشکل کرنے میں مدد
ملتی ہے ۔اس دنیاکے آئینہ خانے میں مربع کو ہر حال میں مربع ہی پر منطبق
کرنا چاہیے نہ کہ اُسے مستطیل کے ہم پلہ قرار دے کر صداقتوں کی تکذیب اور
حقائق کی تمسیخ کی قبیح روش اپناکر اپنی ذات کو تماشا بنا دیاجائے ۔ماضی
میں اِس خطے میں جو قباحتیں نو آبادیاتی دور سے پہلے ادھم بائی ،لا ل کنور
،زہرہ کنجڑن اور بھاگ متی سے منسوب رہیں پس نو آبادیاتی دور کے معاشرے میں
شباہت،ظلی ، مسبی،قفسی، ریحانہ اور سلطانہ اُسی قبیح روایت کو نہایت ڈھٹائی
سے پروان چڑھارہی ہیں۔اس دنیا میں ایسے ننگ وجود کرداروں کی کمی نہیں ایک
کی تلا ش مقصود ہو تو راہ ایک ہزار کو ہنہناتے ہوئے دیکھ کر اہلِ دِل پر
لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔ہجر کی طویل تیرہ و تاریک راتوں میں خاطرِ بے خواب
کی زد میں آکر یاس و حُرماں کے دُکھ سہنے والے عشاق کی نا صبورنگاہیں اس
قماش کی محسن کش ،پیمان شکن اور موقع پرست حسیناؤں کے انتظار میں پتھر
اجاتی ہیں۔ اِن نظموں میں ماضی استمراری میں دو کرداروں( ریحانہ اور سلطانہ
) کے بارے میں حقیقت پسندانہ اندازمیں بیان کیے گئے حالات کا کرشمہ دامنِ
دِل کھینچتا ہے ۔
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
وہ اِ س کالج کی شہزادی تھی اور شاہانہ پڑھتی تھی
وہ بے باکانہ آتی تھی اوربے باکانہ پڑھتی تھی
بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتی تھی
وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
کلاسوں میں ہمیشہ دیر سے وہ آیا کرتی تھی
کتابوں کے تلے فلمی رسالے لایا کرتی تھی
وہ جب دوران ِ لیکچر بور سی ہو جایا کرتی تھی
تو چُپکے سے کوئی تازہ ترین افسانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
کتابیں دیکھ کر کُڑھتی تھی محو ِ یاس ہوتی تھی
بہ قول اُس کے کتابوں میں نِری بکواس ہوتی تھی
تعجب ہے کہ وہ ہر سال کیسے پاس ہوتی تھی
دھڑلے سے جو نانا جان کو جا نانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
عجب انداز کے عشاق تھے اُس ہیر کے مامے
کھڑے رہتے تھے پھاٹک پر کئی ماجھے کئی گامے
جو پیچھے اتنے فتنے تھے تو آگے کتنے ہنگامے
وہ اِس طوفان میں رہتی تھی طوفانانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
وہ سلطانہ مگر پہلی سی سلطانہ نہیں یارو
سُنا ہے اب کوئی بھی اُس کا دیوانہ نہیں یارو
کوئی اس شمع خاکستر کا پروانہ نہیں یارو
خود افسانہ بنی بیٹھی ہے جو افسانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
|