جاہل اور مجہول دو ایسے الفاظ ہیں کہ جن کا مفہوم ایک
دوسرے سے بہت مماثل ہے۔ جاہل عام طور پر ان پڑھ، بے عقل اور غیر مہذب کے
لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح مجہول ناواقف ، کاہل اور نکھٹو کو کہا جاتا
لیکن قابل اور مقبول کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ ان الفاظ میں چونکہ ق،
ب اور ل کی آواز غالب ہے اس لیے ان کے ہم معنیٰ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
چاپلوس اہل قلم مقبول لوگوں کی کمزوریوں اور خامیوں کو نہایت خوشنما بنا کر
پیش کرتے ہیں اور تعریف و توصیف میں مبالغہ آرائی کر کے انہیں قابل ثابت
کردیتے ہیں ۔ اس لیے مذکورہ غلط فہمی یقین میں بدل جاتی ہے۔ یہ کوئی خیالی
مفروضہنہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کی بہت بڑی مثال وزیر اعظم نریندر مودی
ہیں۔ ان کی مقبولیت کو قابلیت کے ہم پلہ سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اس کے فرق
کو پندرہ ہزار کروڈ اور بیس لاکھ کروڈ کے فرق سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ۵۰ دن
قبل جب انہوں نے پہلی بار کورونا کے موضوع پر قوم سے خطاب کیا تھا تو اس سے
نمٹنے کے لیے پندرہ ہزار کروڈ کی رقم کا اعلان کیا تھا مگر پچاس دن بعد پتہ
چلا کہ اس کے لیے تو بیس لاکھ کروڈ درکار ہیں یعنی 133 گنا زیادہ ۔ وزیر
اعظم کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اس اہم ترین
فرق کو سمجھنے میں ۵۰ دن کی طویل مدت لگی ،لیکن اس کے باوجود ان کی مقبولیت
میں اضافہ جاری رہا اور اس کی رفتار دیکھ کر گمان ہوتا ہے بعید نہیں کہ وہ
100 فیصد کی چھت کو پھاڑ کر باہر نکل جائے ۔
وطن عزیز میں فی الحال دو طرح کے اعدادو شمار شانہ بشانہ اخبارات کی زینت
بنتے ہیں ۔ اول تو کورونا سے متاثرین کی تعداد اور دوسرے وزیر اعظم کے
مقبولیت کی شرح اور دونوں میں حیرت انگیز اضافہ ہورہا ہے حالانکہ اس سے
متضاد کیفیت ہونی چاہیے۔ 16 مارچ کو یہمقبولیت کی شرح 75فیصد پر تھی لیکن
10مئی کے آتے آتے یہ 93 فیصد پر پہنچ گئی ۔ وزیر خزانہ اور پارٹی کے صدر
نے اس پرانہیں مبارکباد بھی دے دی حالانکہ ۲۲ مارچ کو جب لوگوں سے پوچھا
گیا کہ تھا آپ کو یا آپ کے اہل خانہ کے کورونا سے متاثر ہونے امکان کتنا
ہے تو لوگوں نے بتایا تھا 32 فیصد اور10 مئی کو اسی سوال کا جواب تھا44
فیصد یعنی خطرہ 12 فیصد بڑھا اور مقبولیت 27 فیصد بڑھی ۔ یہ کمال کیسے
ہوگیا ؟ اس کی دو جوہات ہیں ۔ وزیراعظم کی نااہلی سے سب سے مہاجر
مزدورہوئےاور ان کے سبب مقبولیت کو کم ہونا چاہیے تھا لیکن شاید ہی انہیں
اس جائزے میں شامل کیا گیا ۔ انٹرنیٹ اور فون پر جن لوگوں سے سوالات کیے
گئے ان میں وہ بیچارے شامل نہیں تھے اور جو شریک تھے انہیں میڈیا نے باور
کرادیا تھا کہ ملک میں کورونا کی وباء حکومت کی نااہلی سے نہیں بلکہ تبلیغی
جماعت کی وجہ سے پھیل رہی ہے ۔ بس کام ہوگیا لوگ بھول گئے کہ وزیر اعظم کا
دفتر کیا کررہا ہے ؟ کیونکہ سبھی کی تو جہات کا مرکز صرف اور صرف تبلیغی
جماعت اور اس کی آڑ میں مسلمان ہوگئے ۔ جمہوری نظام حکومت میں چونکہ
قابلیت کا واحد معیار مقبولیت ہے اس لیے اقبال کو کہنا پڑا؎
جمہُوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
کورونا کی وباء کو بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم سمجھ رکھا ہے۔
اس لیے جیسے وہ انتخابات میں کامیابی کے لیے نوٹنکی کرتے ہیں وہی سب وبا کے
خلاف چلائی جانے والی مہم میں بھی کررہے ہیں ۔ عوام کو شروع میں تالی ،
تھالی اور پھر دیا بتی وغیرہ سے بہلانے پھسلانے کی کوشش کی لیکن بات بنی
نہیں۔ یکے بعد دیگرے ۳ مرتبہ لاک ڈاون میں توسیع کرنا پڑا اور اب چوتھے کی
تیاری ہے۔ اس بیچ چار مرتبہ انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور وزرائے اعلیٰ کے
ساتھ بھی کئی نشستیں کیں ۔ وہاں بھی یکطرفہ معاملہ ہوتا تھا خالی خولی
مشورے دیئے جاتے تھے اس لیے بالآخر وزرائے اعلیٰ نے کہہ دیا کہ اگر مرکز
ہمارا اپنا جی ایس ٹی بھی نہیں لوٹا سکتا تو ہمیں اس میٹنگ میں کوئی دلچسپی
نہیں ہے۔ یہ نہایت جائز مطالبہ تھا۔ وزیر اعظم کا دفتر مرکزی خزانے پر سانپ
بن کر بیٹھا ہواہے ۔ عوام کا چندہ سرکاری پی ایم فنڈ کے بجائے نجی پی ایم
کیئر میں جمع ہورہا ہے جسے انکم ٹیلس میں چھوٹ مل گئی ہے جبکہ وزیراعلیٰ
فنڈ اس سہولت سے ہنوز محروم ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کرکے
حماقت خیز لفاضی سے کیا حاصل ؟ اس جارحانہ رویہ اور راہل گاندھی کی ماہرین
معاشیات کے ساتھ گفتگو نے وزیر اعظم کو سنجیدہ کیا اور انہیں ۵۰ دن کے بعد
۲۰ لاکھ کروڈ کے پیکیج کا اعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑا حالانکہ امریکہ،
جرمنی اور جاپان جیسے ممالک دو ماہ قبل یہ کام کرچکے ہیں ۔
20لاکھ کروڑ کے پیکیج کا اعلان تو ہوگیا لیکن اس کی تفصیلات پیش کرنا
وزیراعظم کے بس کا روگ نہیں تھا اس لیے وہ کام وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن
کو سونپ دیا گیا ۔ کورونا کی وباء کےخلاف وزیر اعظم نہ تو طبی اقدامات پر
گفتگو کرسکے اور نہ معاشی اصلاحات کی تفصیل بتا سکے بلکہ ’خود کفیل
ہندوستان ‘ کی نئی پُڑیا چھوڑ کر اپنے دور ِ حکمرانی کے کارنامے گنوانے میں
سارا وقت ضائع کردیا۔ وزیر اعظم نے بڑے طمطراق سے 20 لاکھ کروڈ کو کل جی ڈی
پی کا دس فیصد بتایا حالانکہ جاپان نے اپنیجی ڈی پی کا 21 اور دنیا کے مزید
۴ ممالک دس فیصد سے زیادہ جی ڈی پی اس مقصد کے مختص کرچکے ہیں لیکن فرق یہ
ہے کہ ان کے پاس واضح لائحۂ عمل اور یہاں اس کا فقدان ہے۔ اس تقریر سےعوام
کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ یہ رقم کورونا سے ہونے والے مصائب سے نجات
حاصل کرنے پر خرچ ہوگی یا ا سے قوم کو خود کفیل بنانے کی خاطر صنعتی و
انفراسٹرکچر پر صرف کیا جائے گا تاکہ بڑے پیمانہ پر معاشی اصلاحات کی جائیں
۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی بجٹ کے دیگر اخراجات پر کورونا پیکیج کا لیبل لگا
کر وزیر اعظم عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں ؟ تقریر کے دوران
ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لال قلعہ کی فصیل سے خطاب فرما رہے ہیں۔ ان کی توجہ
کا مرکز کورونا بحران سے متاثرہ ہونے والے 75ہزار ہندوستانی اور 2000 سے
زائد اموات نہیں بلکہ اس خطاب کا مقصد اپنی مقبولیت بڑھا کر اقتدار کو
مضبوط کرنا ہے۔
وزیر اعظم پر خطاب کے دوران اچانک فلسفہ کا دورہ پڑگیا اور انہوں نے کہا کہ
وقت نے ہمیں ’سودیشی‘ کی اہمیت سکھا دی ہے۔ اس سے مضحکہ خیز بات کوئی اور
نہیں ہوسکتی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو سابرمتی آشرم میں چرکھا چلاتے وقت سودیشی کی
اہمیت سمجھ میں آگئی ہوگی ۔ سنگھ پریوار عرصۂ دراز سے ملک میں سودیشی کی
تحریک چلا رہا ہے اس نے ابھی حال میں وزیر اعظم کے ’آروگیہ سیتو ایپ‘ پر
یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ اس کے ذریعہ غیر ملکی کمپنیوں کو فروغ دینا
مقامی دوا فروشوں کی حق تلفی ہے اس کے باوجود اس ایپ کو لازمی قرار دینے
والے مودی جی سودیشی کی اہمیت نہیں جان سکے مگر کورونا سے ’خود کفالت ‘ کی
ضرورت کا پتہ چل گیا۔ مودی جی نے جس وقت سینہ ٹھونک کر کہا کہ جب کورونا
بحران شروع ہوا تو ہندوستان میں کوئی پی پی ای کٹ تیار نہیں ہوا کرتی تھی
اور محض چند N-95 ماسک دستیاب تھے( جن کو وہ برآمد کررہے تھے )۔ آج دو
لاکھ پی پی ای کٹس اور دو لاکھ N-95 ماسک ہندوستان میں روزانہ تیار کئے
جارہے ہیں۔ انہیں شاید نہیں پتہ کہ پی پی ای کٹ فراہم کرنے میں حکومت کی
مجرمانہ تاخیر کے سبب ڈاکٹروں ، نرسوں ،صفائی کرنے والوں اور پولس کے
ہزاروں جوان کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں ۔
وزیراعظمکے پانچویں خطاب سے عوام و خواص کو دو توقعات تھیں۔ مہاجر مزدور
اور غریب عوام جاننا چاہتے تھے کہ ان کی راحت رسانی کے لیے کیا اقدامات کیے
جائیں گے اور اور خواص کو اس بات کی فکر تھی کہ آخر یہ دیش بندی کب ختم
ہوگی؟ اول الذکر مزدوروں کا تو ذکر کرنا بھی وزیر اعظم نے گوارہ نہیں کیا ۔
اس سے انہیں جو مایوسی ہوئی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن ان
کی پرو کس کو ہے؟ متوسط اور امیر کبیر لوگوں کو انہوں نے بیم و رجا کی
کیفیت میں مبتلا کردیا۔ ایک طرف تو یہ کہا کہ لاک ڈاون آگے بھی جاری رہے
گا لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے خدو خال مختلف ہوں گے ۔ وزیراعظم نے
سائنسدانوں کا حوالہ دے کر کہا کہ کورونا طویل عرصہ ہماری زندگیوں کا حصہ
رہے گا لیکن ہم اپنی زندگی کو اس کی جکڑ میں محدود نہیں رکھ سکتےاس لیے 18
مئی سے قبل قوم کو لاک ڈاون 4.0 سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں گی۔ کاش
کے وزیر اعظم پہلے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ بیٹھ کر لاک ڈاون کی توسیع کے بعد
نافذ ہونے والے ضوابط طے کرتے اور اس کے بعد عوام سے خطاب کرنے کی زحمت
گوارہ فرماتے لیکن مودی جی کے طریقۂ کار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں گاڑی
ہمیشہ آگے اور گھوڑا پیچھے رہتا ہے۔ ان کا پانچواں خطاب بھی اس خامی سے
مزّین تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے جمہوریت میں اقتدار کے لیے منموہن کی
طرح قابل ہونا ضروری نہیں بلکہ مودی کی مانند مقبول ہونا کافی ہے۔ |