پاکستان واحد ایک ایسا ملک ہے جس کا سلیکٹیڈ وزیرِ
اعظم اسمبلی میں آنے سے خائف رہتا ہے۔اس کے خوف کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ
حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتاہے۔اگر ان کے اور اس کی کاردگی کے
بارے میں کوئی تنقید کرتا ہے تو موصوف کوذرا برداشت نہیں ہوتی ہے۔اسمبلی نہ
آنے ولوں کو گالیاں دینے ولا خود اسمبلی سے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔اگرچہ وزیر
اعظم وزیر صحت بھی ہے مگر اسمبلی اجلاس میں شرکت کی توفیق نہیں ہوئی۔ دوسری
جانب پی ٹی آئی کے نا اہل کہتے سنے گئے کہ شہباز شریف کمرے میں اپنے آپ کو
بند کئے ہوئے ہیں۔ ایک کینسر کا مریض اگر تکلیف کے بڑھ جانے کے پیش نظر
اسمبلی میں نہیں آتا ہے تو سارے سرکاری شطر بے محار بیماروں پر تنقید کرنا
شروع کر دیتے ہیں۔انہیں ذرا بھی خوفِ خدا نہیں ہے ۔کہ کل ان کے ساتھ بھی یہ
معاملات ہو سکتے ہیں۔اس کورونائڈ مقتدریہ کے حواری بھی شائد ان کو لاکر
پچھتا رہے ہوں ۔جنہوں نے ملک و ملت کو کورونائڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ان کی بد
عملیوں اور ڈرامے بازیوں نے اس بین الاقوامی وبا ’’کورونا‘‘کو میرے دیش میں
چار چاند لگا دیئے ہیں۔ہمارا وزیر اعظم اپنی نا اہلی کو چھپانے کیلئے اپنی
کابینہ میں سیاسی گفتگو کرتے ہوئے چند دانوں والی تسیح پر انگلیاں چلا کر
لوگوں کو اپنے متقی ہونے کا جھانسہ دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسکے
back up پر ایک مولوی صاحب ٹیڑھا ترچھا منہ بناکر اس کی بے معنی صداقت کی
گواہی بھی دینے چلاآٹا ہے۔یہ کیسا زہر بھرا دور چلا ہے؟
کورونا کے عفریت کے پاکستان میں بڑھنے پر پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول
کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ 20،مئی تک ہمیں (ایک مرتبہ پھر)لاک ڈاؤ کرنا پڑ
جائے گا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 70%ریونیو کراچی دیتا ہے اور اس عالمی
وبا کے دوران حکومت نے سندھ کو دیاکیا ہے ؟سیالکوٹ اور لاہور میں سڑکیں اسی
پیسے سے بن رہی ہیں اور کا وزیہر خارجہ بھی صوبائیت پر اتر آیا ہے ۔یہ بھی
حقیقت ہے کہ دنیا میں بار بار مختلف قسم کی وبائیں پھلتی اور تباہی مچا تی
رہی ہیں۔ ہسپانوی فلو سے قریباََ 5 کروڑ افرد اپنی جان کی بازی ہار گئے
تھے۔ یہ فلو پہلے یورپ میں پھیلا اسکے بعد امریکا اور ایشیا میں آیا۔اس فلو
سے ہندوستان بھی شدید متاثر ہوا تھا۔ جہاں تقریباََ ایک کروڑ ستر لاکھ سے
اسی لاکھ افراد اپنی جانوں کی بازی ہاربیٹھے تھے۔چھٹی صدی عیسوی کی
بازنطینہ وبا سے گزشتہ صدی کے ہسپانوی فلو تک بہت سے حکومتیں بر باد ہوگئیں
تھیں اور ان کے مضبوط ادارے کمزور ہوگئے اور جنگوں میں کمی واقع ہوئی۔ یہ
ہی وجہ تھی کہ اس وباء کی موجودگی کی وجہ سے 11 نومبر 1918 کو ایک عارضی
معاہدے کے ذریعے جنگ عظیم اول کا ختم کردی گئی تھا۔
پاکستان کا بھکاری وزیرِ اعظم عمران نیازی سے ایک صحافی نے سوال کیاپوزیشن
سے مل بیٹھکر کرونا کا مقابلہ کیو نہیں کرتے ہیں ؟تو موصوف نے سوال کے جواب
میں کہا کہ اگر میں ان (اپویشن کے رہنماؤں )کو قریب آنے دونگا تو ڈونیشن
آنا بند ہا جائے گی۔وہ لوگ یاممالک جو موصوف پر پیسہ لگا رہے ہیں ۔وہ
پاکستان کو آگے بڑھنے نہیں دیں گے۔
یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ پیدائشی فقیر کا ہمیشہ یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ
وہ ساری وفاداریاں آپ سے ترک کر جب بھی آپ کے مخالف کے بھی سامنے آئیگا
توکشکول آگے کر دے گا ۔ یہ وجہ ہے موصوف کا کہتا ہے کہ اگر میں نے اپوزیشن
سے بات کی میری فنڈنگ رک جائے گی۔گویا موسوف کا دنیا میں ٹرمپ اور اسرائیل
ساتھ چھوڑ کر کشکول توڑ دیں گے تو پھر میں کیا کریں گے؟
نیازی صاحب غریب کے نعرے کو استعمال کر کے اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے میں
مصروف رہتا۔ان کا وزیر خارجہ ملک میں صوبائی تعصبات کو ہوا دینے میں مصروف
ہو گیا ہے۔کہتا ہے کہ سندھ ہمارا ہے اور ہم سندھ میں بھی اپنا لوہا منوائیں
گے۔ کسی نے قہقہ لگا کر کہا ’’یہ منہ اوریہ مسور کی دال، کیا پدی کیا پدی
کا شوربہ‘‘تحریک انصاف پریشانی میں مبتلا ہوتی ہے تو اس کے تمام وزراء اور
وزیرِ اعظم اول فول بکنے لگ جاتے ہیں۔ان کا مسئلہ ،اپنی کارکردگی کے بارے
میں یہ ہے ’’کھلایا پلایا کچھ نہیں معیشت ٹوڑی کھربوں کا نقصان،چور چور
ڈاکو ڈاکو!‘‘
|