عرب شریف میں 1922ء تک ترکی کی حکومت تهی جسے
خلافت_عثمانیہ کے نام سے جانا جاتا تھا 1922ء سے پہلے سعودی عرب کا نام
سعودی عرب نہیں بلکہ حجازِ مقدس تھا۔ خلافت عثمانیہ دنیا کے تین براعظموں
پر (1299-1922) تک قائم رہی دنیا میں کہیں بھی اگر مسلمانوں پر کوئی ظلم و
ستم ہوتا تو ترکی حکومت اس کا منہ توڑ جواب دیتی تھی۔ امریکہ، برطانیہ،
یورپ، نصرانی اور یہودیوں کو اگر سب سے زیادہ خوف تھا تو وہ خلافت عثمانیہ
حکومت کا تھا امریکہ اور یورپ جیسوں کو معلوم تھا کہ جب تک خلافت عثمانیہ
ہے ہم مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ امریکہ اور یورپ نے خلافت
عثمانیہ کو ختم کرنے کی سازش شروع کر دی 19ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ اور
روس کے درمیان بہت سی جنگیں بھی ہوئیں چونکہ مکہ اور مدینہ مسلمانوں کے
نزدیِک قابلِ احترام ہیں اسی لئیے انہوں نے سب سے پہلا فتنہ وہیں سے شروع
کروایا۔ امریکہ اور یورپ نے سب سے پہلے اک شخص کو کھڑا کیا جو کرسچیئن تھا
جو ایسی عربی زبان بولتا تھا کہ کسی کو اس پر شک تک نہیں ہوا اس نے عرب کے
لوگوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ
ہم عربی ہیں اور یہ ترک عجمی ہیں ہم عجمی کی حکومت کو کیسے برداشت کر رہے
ہیں پر لوگوں نےاسکی ایک نہ مانی اور وہ شخص رسوا ہوا وہ شخص لارنس آف
عریبیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ پهر امریکہ نے ایک اور شخص کو کھڑا کیا جس کا
نام عبدالوہاب نجدی تھا عبدالوہاب نجدی کی ملاقات عرب کے ایک سوداگر سے
ہوئی جس کا نام ابن سعود تھا اس نے ابن سعود کو عرب کا حکمران بنانے کا
لالچ دیا پھر ابن سعود نے مکہ، مدینہ اور طائف میں ترکی کے خلاف جنگ شروع
کر دی۔ مکہ، مدینہ اور طائف کے لاکھوں مسلمان ابن سعود کی ڈاکو فوج کے
ہاتھوں شہید ہوئے جب ترکی نے دیکھا کہ ابن سعود ہمیں عرب سے نکالنے اور خود
عرب پر حکومت کرنے کے لیے مکہ، مدینہ اور طائف کے بے قصور مسلمانوں کو شہید
کر رہا ہے تب ترکی نے عالمی طور پر یہ اعلان کر دیا کہ ہم اس پاک سرزمین پر
قتل و غارت پسند نہیں کرتے اس وجہ سے خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا گیا۔ جس
کی وجہ سے 40 نئے ممالک وجود میں آئے پھر عرب کے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا
حجاز مقدس کا نام 1400 سال کی تواریخ میں پہلی بار بدلا گیا ابن سعود نے
حجاز مقدس کا نام اپنے نام پر سعودیہ رکھ دیا۔ اس فتنے کا ذکر احادیث میں
بھی ملتا ہے اسی وجہ سے سرکارِ دو عالمﷺ نے سعودی عرب کے شہر نجد کے بارے
میں دعا نہیں فرمائی تھی اسی نجد میں ابن عبدالوہاب نجدی پیدا ہوا جس سے
انگریزوں نے ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈلوائی اور یہی شہر مسیلمہ کذاب کا جائے
پیدائش بھی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے
لئیے انگریزوں نے اس نجد شہر کا نام بھی تبدیل کر کے ریاض رکھ دیا جو آج کل
سعودیہ کا دار الحکومت ہے حرم شریف کے جن دروازوں کے نام صحابہ اور اہل بیت
کے نام پر تھے ان کا نام آل سعود کے نام پر رکھا گیا آپ یہ ساری معلومات
انٹرنیٹ کے علاوہ تمام تاریخ کی کتابوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ انگریزوں نے
اپنی اسی سازش کی کامیابی پر 1962ء میں ہالی وُڈ نے Lawrence of Arabia کے
نام سے فلم بھی بنائی جو بہت زیادہ بار دیکھی جا چکی ہے یہود و نصاری کو
عرب میں آنے کی اجازت مل گئی جس دن ابن سعود عرب کا بادشاہ بنا اس دن اک
جشن ہوا اس جشن میں امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ملکوں کے پرائم منسٹر ابن
سعود کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ جس عرب کے نام سے یہود و نصاری کانپتے
تبے وه سعودیہ امریکہ کے اشارے پر ناچنے لگا اور آج بھی رندوں کے ساتھ ناچ
رہا ہے یہود و نصاری کی اس ناپاک سازش کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر محمد
اقبال نے اپنے کلام میں کچھ اس طرح لکھا ہے۔ وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا
نہیں ذرا روح محمدﷺ اس کے دل سے نکال دو فکر عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز اور یمن سے نکال دو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے فتنوں سے
محفوظ فرما کر پھر سے خلافت کی دولت عطاء فرمائے اور ہمیں ماضی کے تلخ
حقائق کو سمجھنے کی عقل عطاءفرمائے۔۔۔آمین
|