پاکستان کو اس وقت بدترین معاشی صورتحال کا سامنا
ہے ۔ کرونا وائرس نے ملک کے اقتصادی نظام کو بُری طرح زِک پہنچائی ۔ مملکت
پہلے ہی معاشی بحرانوں سے نکل نہیں پائی تھی کہ کرونا وَبا نے پاکستان کے
اقتصادی نظام کو مزیدمفلوج کرکے رکھ دیا ۔ موجودہ حکومت کی جانب سے معاشی
پالیسیوں کو مربوط انداز میں مرتب کرکے ،انہیں مستقل خطوط پراستوارکرنے لئے
کئی تجربات کئے جاچکے ، لیکن حکومتی معاشی ٹیم کو طویل عرصے سے درپیش مسائل
کو حل کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا۔کرونا وَبا نے اقتصادی طور پر مضبوط
حکومتوں کی بھی بنیادیں ہلا دی لیکن ترقی پذیر ممالک کے لئے کرونا کئی
زیادہ بھیانک ثابت ہوئی۔ جیسے جیسے کرونا کا پھیلاؤ بڑھ رہا ، مسائل میں
اُسی قدر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ گو کہ کرونا کے باعث ہلاکتوں کی تعداد
دوسروں ملکوں کی با نسبت کم ہیں ، لیکن49دنوں کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی
معیشت کو بُری طرح نقصان پہنچا ۔ معاشی پہیہ بند ہونے ، نقل و حمل پر
پابندی کی بنا پر ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ نوے لاکھ افراد اپنے روزگار
سے ہاتھ دھو چکے ۔
حکومت کی جانب سے احساس پروگرام کے تحت 144ارب روپے مختص کئے گئے جو اس خطے
میں کسی بھی حکومت کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا ریلیف پیکج ہے، 9
اپریل سے 12مئی تک 93,6515 ارب روپے ، 7,682,472 افراد میں تقسیم کئے جاچکے
۔سکیم کے حوالے سے جو ضوابط طے کئے گئے ، اس میں کئی خامیاں سامنے آنے کے
باعث ہزاروں خاندان فوری ریلیف سے محروم ہوئے ۔ پروگرام کی تین میں سے دو
کیٹگری میں اب تک 80فیصد سے زائد رقم تقسیم کی جاچکی ،بہرحال یہ معاشی
مسئلے کا مستقل حل نہیں ، تاہم یہ متحسن اقدام ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بنک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستانی کی معاشی ترقی کی
شرح کے حوالے سے جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں وہ باعث تشویش ہیں۔رپورٹ کے
مطابق 2019میں پاکستان کی معاشی شرح ترقی3.3فی صد تھی جو 2020میں کم ہو کر
2.6فیصد ہوچکی ۔ لاک ڈاؤن میں معاشی صنعت و تجارتی سرگرمیوں کے مفلوج ہونے
کی باعث ملکی معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ، خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ
لاک ڈاؤن کو طویل مدت تک برقرار رکھا جاتا تو بائیس کروڑ عوام اس کی متحمل
نہیں ہوسکتی تھی اور مملکت کو مزید اربوں روپے نقصان اٹھانا پڑتا ۔ اسٹیٹ
بنک نے بھی معاشی اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس کے مطابق ماہ فروری0 202تک
وفاقی حکومت کے اندرونی و بیرونی قرضوں کامجموعی حجم 33کھرب اور421ارب کی
بلند ترین سطح پر تھا، کرونا وبا نے تو اقتصادی طور پر مضبوط مملکتوں کے
معاشی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، جس سے باہر آنے کے لئے انہیں
طویل وقت درکار ہوگا ، سعودی عرب جیسا ملک جو تیل و قدرتی معدنی خزانوں سے
مالا مال ہے ، اس حد تک متاثر ہوا کہ اُس نے کئی مراعات واپس لے لیں
اور60ارب ڈالر کا قرضہ لینے کا اعلان کردیا، تاکہ حکومتی معاملات کو چلایا
جاسکے ، سعودی حکومت تیل بحران کا شکار ہوئی ، اس کے ساتھ ہی حکومت کی آمدن
کا سب سے بڑا ذریعہ عمرہ و حج سیزن ، جو رمضان المبارک سے عروج پر رہتا ہے
، کرونا وبا کی وجہ سے زائرین کی آمد پر پابندی لگ گئی اور حج کے حوالے سے
بھی کوئی یقین دہانی سامنے نہیں ۔
پاکستان کے حالات کا اگر ان ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یقینی طور پر ہوش
الربا نتائج سامنے آئیں گے۔ اسٹیٹ بنک نے شرح سود کو11 سے9 فیصد تک محدود
کیا ، جب کہ جرمنی ، اسپین ، سوئیڈن اور فرانس و دیگر ممالک نے شرح سود کو
صفر کردیا ۔ یہ ترقی یافتہ ممالک کا انتہائی اقدام تھا کیونکہ اس سے سرمایہ
کاری میں اضافہ ممکن ہوجاتا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے کے
سبب معاشی دشواریوں پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے ۔ تاہم پاکستان میں شرح
سود کو اتنا کم نہیں کیا جاسکا جس سے عوام تک مثبت اثرات پہنچ پاتے۔
ایک جانب قدرتی وبا کی حشر سامانیوں نے مملکت کے معاشی مسائل میں اضافہ کیا
تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث وطن عزیز کو خوراک کے بحران کا
سامنا بھی ہے۔ گندم کی فصلوں کو بے موسم بارشوں سے نقصان کے باعث پیدوار
میں کمی کا سامنا ہے، دو برس سے بے موسمی برسات کی وجہ سے کاشت کاروں کو
نقصان کا سامنا ہے اور اس کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ، گندم کی
قیمت میں اضافے کے باعث ، عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے ۔واضح
رہے کہ پنجاب میں فی ایکڑپیداوار50سے60من ہوا کرتی تھی جو اب 30سے33من فی
ایکڑ رہ گئی۔ شاید حکومت گندم کی خریداری کا ہدف بھی پورا نہ کرسکے۔
حکومت کی ترجیحات میں اس وقت قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول کو تبدیل کرانا ہے
تاکہ دسمبر تک جو ادائیگیاں پاکستان نے کرنی ہے اس میں ریلیف مل
سکے۔وزیراعظم نے جی 20 سمیت عرب ممالک ، ایشیا ترقیاتی بنک و عالمی بنک سے
قرضوں میں مزید مہلت کی درخواست کی ، توقع ہے کہ کرونا وبا کی سنگین
صورتحال کے پیش نظر مالیاتی ادارے قرضے معاف تو نہیں ، لیکن ری شیڈول ضرور
کردیں گے ، اس سے حکومت کو ایک موقع میسر آئے گا کہ وہ اپنے بجٹ خسارے و
دیگر مالیاتی معاملات و ترقیاتی فنڈز کا درست استعمال کرسکے۔ وزرات خزانہ و
اسٹیٹ بنک اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لئے پالیساں ترتیب دے
سکتے ہیں ۔حکومت کو ترسیلات زر میں اضافے کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر کو
بڑھانے کے چیلنج کا سامنا رہے گا کیونکہ بیرون ملک اوررسیز پاکستانیوں کی
ملازمتیں ختم ہونے کے بعد زر مبادلہ میں کمی آنے کا امکان ظاہر کیا جارہا
ہے ، اگر مملکت نے برآمدات و درآمدات میں توازن برقرار نہ رکھا تومالی
مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، جس کے اثرات سے عوام براہ راست متاثرہوں گے۔
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مملکت کو زرمبادلہ میں اضافے کے لئے درپیش چیلنجز
کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کردے۔ مالیاتی اداروں سے قرضوں کی ری شیڈولنگ
اور تیل کی کم قیمتوں کا فائدہ اٹھاکر مستقبل میں درپیش دشواریوں کو کم کیا
جاسکتاہے ۔
|