شیخ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد
میں موجودگی، ان کی رہائش گاہ پر امریکہ کا براہ راست حملہ ،ان کی شہادت
اور شہید کے جسد خاکی کو راتوں رات سمندر کی نذر کردینے کے بارے میں بھانت،
بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ امریکی ہیلی کاپٹرز کی آمد، موقع پر
دھماکہ، اسامہ بن لادن کی بیویوں کے زخمی ہونے،ان کی پاکستانی حکام کی
حراست میں ہونے، ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہونے اور دوسرے ہیلی کاپٹر کی بحفاظت
واپسی کی تصدیق تو ہوئی لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ جو ہیلی کاپٹر
تباہ ہوا، اس میں کتنے امریکی ہلاک ہوئے۔ امریکی حکام کے روزانہ بدلنے والے
بیانات، پاکستانی حکام کے متصادم موقف نے پوری دنیا کو ہیجانی کیفیت سے
دوچار کر رکھا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کی بعض اخبار نویسوں کو
براہ راست بریفنگ کے باوجود ابھی تک یہ واضع نہیں ہوسکا کہ اصل معاملہ کیا
ہے۔ کیا اسامہ بن لادن اس گھر میں واقعہ ہی موجود تھے، انہیں شہید کر دیا
گیا ہے۔ امریکی ہیلی کاپٹرز کی آمد اور چالیس منٹ تک آپریشن کرنے کے بعد
واپسی تک ہمارے دفاعی اداروں کو اس کی اطلاع ملی یا نہیں۔ موقعہ پر دھماکے
کے باوجود کنٹونمنٹ کے ایریا میں فوج کتنی دیر میں پہنچی اور اس نے وطن
عزیز کی سلامتی کے لیے کیا کیا اور کیا نہیں کر سکے۔ قوم کو کچھ پتہ نہیں۔
اب ایک فوجی آفیسر کے ذریعے انکوائری، قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے
زیادہ کچھ بھی نہیں۔معلوم نہیں کہ پاکستان کے حکمران اور عسکری قائدین قوم
سے حقائق کو چھپا کر آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، سب جھوٹ پر مبنی
ہے۔ اسامہ کی بیویوں کے حوالے سے جو بیانات رپورٹ کیے جارہے ہیں وہ بھی من
گھڑت ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو انہیں آزادانہ طور پر میڈیا کے سامنے کیوں
پیش نہیں کیا جا رہا۔ اگر امریکیوں نے اسامہ کو شہید کردیا ہے تو ان کی
تصاویر اور ویڈیو کیوں نشر نہیں کی گئیں، انہیں راتوں رات سمندر کی نذر
کرنے کی کیا جلدی تھی۔ پوری قوم کی طرح میری معلومات بھی بالکل ناقص اور نا
مکمل ہیں لیکن ان کی بناء پر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسامہ بن
لادن ایبٹ آباد کے گھر میں مقیم نہیں تھے، امریکی حملے میں وہ شہید نہیں
ہوئے اور نہ ہی انہیں ہیلی کاپٹر میں لے جاکر کسی سمندر میں پھینک دیا گیا
ہے۔ یہ سب جھوٹ اور ٹوپی ڈرامہ ہے۔ اگر وہ اسامہ کے جسد خاکی کو ساتھ لے
گئے تھے تو زندہ بچ جانے والے کسی دوسرے فرد کو ساتھ کیوں نہیں لے گئے۔ اب
انہیں کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ وہ اسامہ کی بیویوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے
ہیں۔ 9/11 کی طرح یہ مکمل طور پر جھوٹی کہانی ہے۔ دس ، گیارہ سال تک
افغانستان میں جھک مارنے کے باوجود امریکی نہ تو اسامہ کو تلاش کر سکے اور
نہ ملا عمر کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کر سکے۔ ان کی جدید ترین
ٹیکنالوجی انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہی اور ان کی ساری فوجی مہارتیں پیدل
چلنے والے چند ایک بھوکے پیاسے ادھیڑ عمر ”دہشت گرووں“ کے ٹھکانوں تک رسائی
حاصل نہیں کر سکیں۔ پوری دنیا سے استعماری فوجوں (نیٹو) کو جمع کرنے اور
اربوں ڈالر جھونک دینے کے باوجود وہ القاعدہ اور طالبان کی قوت کو نہ ختم
کر سکے اور نہ کمزور کر سکے۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ امریکہ اور اس کے سفاک
اتحادی دس بارہ سال مسلسل پوری قوت صرف کرنے کے باوجود ایک بھی کامیابی
حاصل نہیں کرسکے اور افغانستان میں طالبان دن بدن مستحکم ہو رہے ہیں۔ اب
امریکہ ان سے لڑنے کے بجائے ان سے مذاکرات کر کے افغانستان ان کے حوالے
کرنا چاہتا ہے۔امریکی عوام اب یہ پوچھ رہی ہے کہ تم نے کن مقاصد کے لیے
افغانستان پر لشکر کشی کی تھی ، اربوں ڈالر اور سینکڑوں فوجی مروانے کے بعد
کیا حاصل کیا ہے۔ ان کے کریڈٹ میں مسلسل اور عبرتاک ناکامی اور شکست کے
علاوہ کچھ نہیں۔ وہ اپنی شکست کو کامیابی کا نام دینے اور اپنی خفت مٹانے
کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی جھوٹی کہانی تراشتے ہیں۔9/11 ، عراق میں
کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی، سوڈان میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور اس
طرح کی ہزاروں جھوٹی کہانیاں امریکی کردار کا حصہ ہیں۔ یہ جھوٹ امریکیوں کو
دھوکہ تو دے سکتے ہیں زمینی حقائق تبدیل نہیں کرسکتے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہماری عسکری اور سول قیادت امریکی شکست کو فتح
میں بدلنے کے لیے پوری قوم کو کیوں رسوا کر رہی ہے۔ ہماری فوج جس طرح
اقتدار پر قابض کرتی رہی ہے اسی طرح وہ وطن عزیز کے دفاع کی صلاحیت بھی
رکھتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کاکول اکیڈمی کے قریب کوئی دشمن آپریشن کر کے
چلا جائے اور ہمیں اطلاع نہ ہوسکے اور ہم اس کو روک نہ سکیں، یہ سب جھوٹ
ہے۔ اسے کوئی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
ہمارا میڈیا من گھڑت کہانیاں سنا رہا ہے۔ بعض غیر ملکی اخبارات میں یہ
رپورٹ ہوا ہے کہ امریکیوں نے اس آپریشن سے پہلے ہمارے میڈیا مالکان کو بھی
رام کر دیا تھا۔ امریکی سفیر کے حالیہ انٹرویوز بھی کنفیوز ہیں۔ نہ سوال
کرنے والے نے وہ باتیں پوچھیں جو قوم کر رہی ہے اور نہ جواب دینے والے نے
وہ کہا جو مطلوب ہے، یہ سب ملی بھگت ہے۔پوری دنیا جانتی ہے کہ اگر اسامہ
زندہ یا شہید ان کے ہاتھ آجاتا تو اس کی پوری دنیا میں نمائش کرتے۔ اس کے
جسم کا ایک، ایک حصہ دکھایا جاتا، اگر مقابلے میں شہید ہوتا تو اس مقابلے
کا ایک، ایک لمحہ میڈیا کو دیکھا کر اپنی بہادری کا رعب جمایا جاتا۔
ہمارے حکمرانوں نے چند ٹکوں کی خاطر سب کچھ بیچ رکھا ہے، اس لیے ان کی
زبانیں بند ہیں۔ ان ٹکوں سے بھی قوم کو کچھ نہیں ملا، صرف حکمرانوں کے بنک
اکاؤنٹ بھرے گئے ہیں۔ اہل پاکستان اب تک کی وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہیں اور
نہ دنیا پوری کے شہری اس جھوٹ کو قبول کرنے پر تیار ہیں۔ اوباما اس جھوٹ کی
بنیاد پر شاید اپنی الیکشن مہم میں کامیاب ہو جائیں، اپنی فوج کو ہدف حاصل
کرنے کے نام پر افغانستان کی قتل گاہ سے بحفاظت واپس لے جائیں۔ ان کی قوم
شاید اس جھوٹ پر یقین کر لے لیکن عالمی رائے عامہ امریکی موقف کو مسترد کر
چکی ہے اور بہت جلد سچ دنیا کے سامنے آ جائے گا۔ ماضی میں امریکی سات بار
اسامہ کو مارنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب کی بار انہوں نے اس کے جسد خاکی کو
سمند ر میں پھینکنے کا اعلان کر کے اس کی موجودگی کا باب ختم کردیا ہے۔
امریکی حکام نے قبولیت کا جو آلہ ہمارے حکمرانوں کے دل و دماغ میں نصب کر
رکھا ہے، وہ جب تک پوری دنیا کے انسانوں کے دماغوں میں نصب نہیں ہوتا وہ اس
جھوٹ کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ یاد رکھیے جھوٹ پر قائم عمارت چند سال
نہیں بلکہ چند ماہ بھی قائم نہیں رہ سکتی۔اس واقع نے پوری دنیا میں جھوٹ کو
ننگا کردیا ہے۔ اخلاقی طور پر مردہ قوم کبھی بھی عملی میدان میں زندہ نہیں
رہ سکتی۔ یہ یوں ہی سسک سسک کر زندگی کے دن پورے کرے گی اور پھر
فرعون،ہامان، برطانیہ اور ہلاکو خان کی طرح رہتی دنیا کے لیے نشان عبرت بنی
رہے گی۔ |