دنیا میں القاعدہ ، طالبان و
لشکر طیبہ کا وجود یہ سب امریکن ری پبلیکن پارٹی کے سیاسی مہرے ہیں۔جن پر
ڈیموکریٹ پارٹی کے سپہ سالار بارک اوبامہ تلوار چلا رہے ہیں۔ ان مکھوٹوں کا
کوئی حقیقی وجود نہیں بلکہ امریکہ و برطانیہ ان کو اپنے میڈیا سے صرف مذہب
اسلام کو اور اس کے ماننے والوں کو بدنام کرتے ہیں۔ اس کا وجود مفاد پرستی
و سیاست پرستی پر مبنی ہوتا ہے۔ ری پبلیکن و ڈیموکریٹ کا القاعدہ ، طالبان
و لشکر طیبہ کے حوالہ سے ایک گمراہ کن سیاسی کھیل ہے۔ جو پوری دنیا میں
کھیلا جارہا ہے۔ دراصل امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت لے
جانے کی دوڑ میں سرگرم عمل ہیں۔ ایک دوسرے کو اس حوالہ سے نیچا دیکھانے
کیلئے کام کرتی ہیں۔ یہ امریکہ کی خفیہ پالسی بھی ہے کہ سیاست کے ساتھ ساتھ
امریکی مفاد کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اسی کے تحت وہ سیاست کرتی ہیں۔ اس
حوالہ سے ان کا ایک اہم مقصد ہے۔ جس سے یورپی ممالک کو چھوڑ کر دیگر ملکوں
میں انتشار ، بدامنی ، خون ریزی و تشدد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ امن کو تباہ
کرنا ان کے مفاد کا خاص حصہ ہوتا ہے۔
امریکن ری پبلیکن پارٹی کی سیاست کا اصل محور پاکستان ہے کہ یہ یہاں
القاعدہ کو سامنے رکھ کراس کے مصنوعی لیڈروں کے ساتھ سانپ اور سیڑھی کا
کھیل گزشتہ پندرہ سالوں سے کھیلتے آرہے ہیں۔ جس میں ان کو کامیابی بھی کافی
ملی ہے۔ جس اوسامہ کو ڈیموکریٹ کے سپہ سالار بارک اوبامہ نے اعلانیہ مگر
خفیہ طور پر مارا ہے۔ اس سیاسی و مصنوعی مجاہد کو زندہ رکھنے کا فن ری
پبلیکن خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کب القاعدہ کو کس
سے منسوب کرنا ہے۔ یہ امریکی سیاست کا مشغلہ ہے۔ چونکہ ڈیموکریٹ نے ری
پبلیکن کے سیاسی مہر ے پر حملہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے تبلیغی جماعت کو
القاعدہ سے جوڑ کر اپنے نئے سیاسی حربے کے طور پر مسلمانوں کو اوبامہ کے
خلا ف اشتعال دلانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ مسلمانوں کا
جارحانہ انداز ہی امریکی سیاست کو رخ طے کرتا ہے۔ اب کوشش یہ کی جارہی ہے
کہ مسلمان ری پبلیکن کو اپنا دشمن نمبر اوّل سمجھنے کے بجائے ڈیموکریٹ کو
اپنا دیرینہ دشمن سمجھیں۔تاکہ اس کو سیاسی فائدہ پہنچ سکے۔ حالانکہ اب
مسلمانوں نے امریکی سیاست کو بھانپ لیا ہے۔ مگر سادہ لوح مسلمان جذبات میں
بہہ جاتے ہیں۔ اور وہ بہت جلد مشتعل ہوکر ان کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں۔
مسلمانوں میں تبلیغی جماعت ایک تفریحی مبلغین کی جماعت ہے۔ اس سے لو گ
منسلک ہوکر سرسر ی دین سیکھتے ہیں۔ تفریحی مبلیغین بننے کا بھی ایک کورس
ہے۔ چھ نمبر کی مشق ، تین یوم،عشرہ ، ایک چلہ، چار مہنے اور پھر ایک سال ۔
اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد دین اسلام کی سرسری دعوت دینے والا شخص تفریحی
مبلغ بنتا ہے۔ اس جماعت کو بزرگان دین نے چلتے پھرتے مدرسہ کا نام بھی دیا
ہے کہ جو لوگ ابتدا ء میں دین اسلام کی تعلیم سے دور رہے۔ وہ اس میں شامل
ہوکر سرسری دین سیکھ لیں۔ تبلیغی جماعت کا دین کے پھیلاﺅ میں ایک تھوڑا حصہ
ہے۔ اس میں ہمارے ان پڑھ بھائیوں کی اکثریت ہے۔اور ہم لوگ اس دین کے کام
میں شامل ہوکر تفریحی مبلغ بن گئے ہیں ۔ ہم نے تعلیمی مبلغین کی قدر ومنزلت
کو متزلزل کردیا ہے۔ جہاں عالم دین حضرات کے انوارات سے عوام فیضیاب ہوتی
تھی۔اس جگہ پر تفریحی مبلیغین کا قبضہ ہے۔ آ ج وہ عالم دین کو پش پست ڈال
دیتا ہے۔ جبکہ محترم عالم کو دین کا محور بننے میں ایک طویل عرصہ دین اسلام
کی تعلیم سیکھنے نے میں لگایا ہے۔ آج اس کو کنارے پر کردیا گیا ہے۔ آج
تفریحی مبلغین کا ان پڑھ طبقہ قرآن حکیم کے ترجمہ میں شریک ہونے سے گریز
کرتا ہے۔ وہ اس عمل کو دعوت وتبلیغ کے کام سے نہیں جوڑتا۔ مسلمانوں کی
امامت اب کم پڑھے لکھے طبقہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہی مسلمانوں کو معیاری
تعلیم کی سمت جانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مادری زبان کو بھی کوئی
اہمیت نہیں دیتے ۔ اس کی معتبریت کو نہیں سمجھتے۔آج مسلم قوم دین کے اصل
محور سے ہٹ گئی ہے۔ یا ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی لئے ملت اسلامیہ اپنی تباہی و
بربادی کے روبرو کھڑی ہے۔ ایک شاطر قوم آج بارک اوبامہ کی رہنمائی میں
مسلمانوں اور اسلام پر حملہ آور ہے۔ ان کے حملوں کو بے نقاب کرنے کی ہم میں
اہلیت ہی نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کو ری پبلیکن پارٹی کے سیاسی مہرے القاعدہ
سے جوڑ کر یہ دیکھایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کو معیار کیا ہے۔ القاعدہ ،
طالبان ، لشکر طیبہ ، جماعت دعوة، حذب المجاہدین وغیر نام کی تخلیقی
تنظیمیں جن کی تبلیغ امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ سے کی جاتی ہے۔ ان کے
حوالہ سے مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے مسلسل کوشش کی جاتی
ہے۔ مگر ہم ان کی اس مہم کو سمجھنے سے یکسر قاصر رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی
چندہ خور تنظیمیں امریکہ و برطانیہ سے فنڈ اس لئے لاتی ہیں۔جس سے کوشش یہ
کی جاتی ہے کہ مسلمانوں میں اشتعال کی کیفیت کیسے برقرار رکھی جائے۔ملک و
ملت خطرہ میں ہے۔ ، اسلام خطرہ میں ہے۔ انہوں نے سیاسی میدانوں جہاں سیاسی
جماعتوں کی محفلیں سجتی ہیں۔ جلسہ عام منعقد ہوتے ہیں۔ اُن میدانوں ان ہی
عنوانوں سے بھولی بھالی قوم کو جمع کر کے اپنے حمایتیوں کی کثیر تعداد
دیکھا کر ان کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ اور اس میں اس فنڈ کو کام لایا جاتا
ہے۔ اس کے ذریعہ ری پبلیکن نوازی اور بش نوازی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اب
ڈیموکریٹ کے سپہ سالار بارک اوبامہ بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ مسلمان اب
ڈیموکریٹ نوازی و اوبامہ نوازی کا مظاہر ہ کریں۔ یعنی خوب کثرت سے وہ مشتعل
ہوکر ، بے ہودہ الفاظ کے ساتھ ان کا ذکر بد کریں۔ کیوںکہ اس سے ان کو سیاسی
قوت حاصل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے غیر معیاری و تفریحی لیڈروں کو اس طرح اپنا
قد اونچا کرنے کا موقع فراہم ہوجاتا ہے۔ وہ تعمیری کام کرنے کے بجائے
تخریبی کام لگے ہوئے ہیں۔ جس طرح ہمارے ملک میں مذہبی لیڈروں کا ایک طبقہ
نریندر مودی کیلئے ذکر بد کا وظیفہ مسجدوں میں اعلانیہ پڑھتا ہے۔ تو یہ
وظیفہ ان کو طاقت ور اور قد آور بناتا ہے۔ اور مسلمانوں اور ان میں
باصلاحیت لوگوں کو مسلسل کمزور کرتا ہے۔ مسجدوں میں ذکر بد کا وظیفہ کرنے
والوں کو ملکی و غیر ملکی حکومت انعامات سے نوازتی ہے۔ ان کو عالیشان
کاریں، پیڑول پمپ ، پلاٹ ، دیگر لائسنس وغیرہ تحفہ میں اسلئے دیتی ہے کہ
مسلمانوں کو گمرہ کرنے ، باصلاحیت مسلم سیاسی لیڈروں کو کچلنے میں وہ نمایا
کردار ادا کرتے ہیں۔ ذکر بد کا وظیفہ کرنے والے مذہبی لیڈروں کو کبھی قوم
کی فکر نہیں ہوتی۔ ان کی جانب سے کوئی معیار ی اسکول کی تعمیر نو، مسلمانوں
کی سلسلہ وار تعلیمی بدحالی کی طر ف وہ لوگ کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ ذکر بد
کا وظیفہ مفاد پرستی کی واضع دلیل ہے۔ یہ مذہبی لیڈر مسلمانوں کے خیر خواہ
نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اسلام و مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔نریندر مودی ، جارج
اور اب بارک اوبامہ نوازی میں شامل ہونے کیلئے ذکر بد کے وظیفوں کی مشق
مسجدوں میں کرنے والے گمراہیت پھیلانے کے اصل زمہ دار ہیں۔ بہر حال پہلے ہم
اپنی صفوں کو درست کریں۔اپنے اندر شعوری بیداری پیدا کریں۔ جب ہی ہم
القاعدہ کو تبلیغی جماعت سے جوڑنے کے امریکہ کے سیاسی حربہ کو پہنچان سکتے
ہیں۔
بہرکیف اب ضرورت مسلمانوں کو سیاسی حکمت عملی تیار کرنے کی ہے۔ جو لو گ کسی
بھی عنوان سے مشتعل کرنے کے نئے نئے طریقہ ڈھونڈتے ہیں۔ یعنی اہانت ِرسول و
قرآن کو نذر آتش کئے جانے کے مصنوعی مناظر جو امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ
سے فلمائے جاتے ہیں۔ ان کے ذریعہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان زیادہ سے
مشتعل ہوں۔ اور ان کیلئے ذکر بد کا وظیفہ پڑھتے رہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ
ہمیں اشتعال میں لانے کی تمام مغربی دلیلوں کو مستر د کردینا چاہئے۔اب یہ
با ت ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ امریکی و برطانیہ حکمراں اسلام و مسلمانوں
کے دشمن ہیں۔ مگر وہاں کے عوام اسلام و مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں ۔ امریکہ
میں ۱۱ ستمبر سے قبل مذہبِ اسلام پر تحقیق کر کے امریکی عوام اسلام میں
داخل ہورہے تھے۔ اس پاکیزہ مذہب میں ان کے داخل ہونے سے روکنے کیلئے مذہب
اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی کوشش امریکی حکمرانوں کی طرف سے
ہوئی۔ انہوں نے ۱۱ ستمبر کے حادثہ کا پروگرام ترتیب دے کر امریکی عوام کو
اسلام میں داخل ہونے سے روکنے کی ایک مستحکم کوشش کی۔ جس میں وہ کامیاب
ہوئے۔ آج امریکی عوام ، و امریکی فوج کی یہ خوبی ہے کہ اس نے بارک اوبامہ
کو مجبور کردیا کہ اوسامہ کی موت کے بعد ان کے جسد خاکی کا احترام کیا
جائے۔ امریکی فوج نے باقاعدہ اسلامی رسومات کے مطابق ان کا غسل کیا ۔
اسلامی رسومات کے مطابق نمازِ جنازہ ادا کی۔امریکی فوج یہ چاہتی تھی کہ ان
کو زمین میں دفن کیا جائے۔ کیونکہ امریکی حکمرانوں کی ہدایت پر تخلیقی
اوسامہ کو نامعلوم جگہ سے گرفتا ر کیا گیا۔ ان کو پاکستان میں دیکھایا گیا۔
اوسامہ کے ہم نام شخص کے مکان پر بمباری کر کے ایک مکان کو پاکستان میں
تباہ کیا گیا۔ تخلیقی اوسامہ کو ایک پانی کے جہا ز میں رکھا گیا؟ اور بیچ
سمندر میں لے جاکر ان کو قتل کیا گیا؟۔ امریکی فوج کو اتنا وقت نہیں دیا
گیا کہ ان کے جسد خاکی کو زمین تک لے جا سکیں۔ لہذا ۔امریکی فوج جو کہ
مجبور تھی اس کو حکم دیا گیا۔کہ ان کو دفن کرنے کی غرض سے سمندرمیں ڈال دیا
جائے۔ مبارکباد دینی پڑے گی۔ امریکی عوام اور وہاں کی فوج کو کہ اس نے
امریکی حکمرانوں کی طرف سے تخلیق کردہ دھشت گرد کے ساتھ اس کے مرنے کے بعد
انسانیت جیسا سلوک کیا۔ انسانیت کا قتل کرنے والے جارج بش اور اب بارک
اوبامہ کو اپنی افواج سے سبق لینا چاہئے۔ اگر امریکہ کی کمان امریکی فوج کے
ہاتھوں میں آجائے تو دنیا میں ایک پائیدار اور دیر پا امن کی امید کی
جاسکتی ہے۔ امریکی فوج تو حکمرانوں کی ہدایت پر بم برساتی ہے۔ اپنی مرضی سے
نہیں۔ انسانیت پر ظلم امریکی حکمرانوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔
فی الوقت اب ضرورت امریکی حکمرانوں کی طرف سے مسلمانوں کو اشتعال دلانے
والی پالیسی کو ناکارہ بنانے کی ہے۔مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے تبلیغی
جماعت کو القاعدہ سے جوڑنے کی حکمت عملی کے تحت لال کتاب ”وکی لیکس“ کے
ذریعہ منظر عام پر لائی گئی ہے۔ وکی لیکس دنیا میں بدامنی پھیلانے کا
ڈیموکریٹ کا ایک نیا فارمولہ ہے۔ دوسرا فارمولہ مسلم حکمرانوں و شہنشاہوں
کو اقتدا سے بے دخل کرنے کا ہے۔ اس کیلئے ” پُرتشدد کرائے کے احتجاج کی
قادیانی تحریک “ایجاد کی گئی ہے۔ امریکہ کی اس قادیانی تحریک سے جب مسلم
حکمرانوں کا اقتدار چھینا جارہا ہے۔ پاکستان میں اوسامہ کا مصنوعی قتل یہ
بھی قادیانی تحریک کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستان کے حکمرانوں سے اقتدار
چھین کر وہاں بدامنی کے ماحول کو اجاگر کرنا ہے۔ بارک اوبامہ جو قادیانی
تحریک کے زیر اثر ہیں۔ اس قادیانی تحریک کی منشاء کے مطابق ہی تبلیغی جماعت
کو القاعدہ سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ کیونکہ قادیانی تحریک دنیا میں
اگر کسی سے خوف زدہ ہے۔تو وہ تبلیغی جماعت ہی ہے۔ قادیانی تحریک مذہب اسلام
کی اصل روح کو ختم کرنے کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرسکتی ہے۔ امریکہ کو
دنیا میں تخریب چاہئے۔ اس لئے بارک اوبامہ کیلئے قادیانی تحریک بہت موضوع
ہے۔ فی لارادہ ۔ تبلیغی جماعت کو القاعدہ سے جوڑنے کیلئے قادیانیوں کی
منشاء کا احترام کیا گیا ہے۔اور تبلیغی جماعت کو القاعدہ سے جوڑنا امریکہ
کا ’سیاسی حربہ‘ ہے۔ اب مسلمانان عالم کو اشتعالی طور پر نہیں بلکہ اس پر
سنجیدگی سے غور کرنا ہے کہ اس سے پُر امن مقابلہ آرائی کا کس طرح کا طریقہ
کار اختیار کیا جائے۔ |