ایک صاحب جنہیں قصے سنانے کا بہت شوق تھا ہمارے پیارے
اجڑے چمن والے مولوی صاحب کی طرح کہ جو ایک شعر سنانے اور کہنے کے لئے ساری
داستان ہی بدل ڈالتے ہیں۔وہ موصوف بھی ایک دن حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ
سنا رہے تھے اور جب زلیخہ کی اشراف زادیوں کی ضیافت والے مقام پر پہنچے تو
فرمانے لگے کہ ان خواتین کے ہاتھ میں جو چھریاں کانٹے قینچیاں استرے تھے
انہوں نے ان سے اپنے ہاتھ ہی کاٹ ڈالے۔ جب وہ قصہ تمام کر چکے تو ہم نے
تصحیح کی خاطر عرض کیا کہ حضرت ان اشراف زادیوں کے ہاتھ میں صرف چاقو یا
چھریاں تھیں آپ نے انہیں استرے قینچیاں اور کانٹے بھی تھما دئے؟ یہ تو
روایت کے خلاف ہے۔ وہ صاحب بولے کہ بات تو تمہاری درست ہے مگر جوش خطابت
میں آدمی بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ اس وقت ہوش نہیں رہتا کہ کیا کہ رہے ہیں؟
سمجھنے والے ہمیں اور ہماری قوم کو اور بھی بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر ہم صرف
عجوبہ کہنے پر ہی اکتفا کئے دیتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم ایک عجوبے سے کم نہیں
ہیں اب یہ اس کی یعنی سمجھنے والے کی مرضی اور دانش پر منحصر ہے کہ وہ ہمیں
آٹھواں عجوبہ سمجھے یا نواں۔ ہر لحاظ سے اور ہر طرح سے ہم کوئی بھی کام
کرنے سے پہلے اور بات کرنے سے پہلے سوچتے کم ہی ہیں بس نئے پن کے شوق میں
کیا سے کیا کہہ دیتے ہیں اور کر جاتے ہیں بعد میں اسی کو ہمارے مخالفین یو
ٹرن کہہ کر چھیڑتے رہتے ہیں۔
یہی حال ہمارے حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کا ہے۔ کوئی بات کسی غیر
ملکی اخبار میں پڑھتے ہیں یا کسی پرائے چینل پر سنتے ہیں تو وہی کہنا شروع
کر دیتے ہیں۔ اب اکیلے سمارٹ لاک ڈاون کی بات ہی کر لیں۔ کسی نے تحقیق ہی
نہیں کی کہ یہ ہوتا کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے چونکہ یہ ایک نئی اصطلاح
تھی تو دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے اس کا خوب استعمال کیا۔وہ تو ہمیں بھی
پتہ نہیں چلنا تھا اگر قومی اسمبلی میں اس سمارٹ لاک ڈاون پر بحث نہ ہوتی۔
ویسے ہمیں اسمبلی کی افادیت کی سمجھ تب ہی آتی ہے جب اس طرح کی کسی بات پر
بحث ہو اور اس سے ہمیں نئے الفاظ یا لطیفے چٹکلے مل جائیں۔ ہماری اسمبلی
میں اچھی بھلی مذاحیہ تقریریں ہوتی ہیں اپوزیشن کی تقریروں میں طنز زیادہ
اور حکومت کی تقریروں میں مذاح بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
آپ کسی بھی سنجیدہ معاملے پر بحث کرو اکے دیکھ لیں اگر آپ کو ہنسی نہ آئے
تو پھر کہنا۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ہاں ہم سمارٹ لاک ڈاون کی بات کر
رہے تھے یہ کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے باقی ساری دنیا میں اس کے جو بھی
معانی نکلتے ہوں ہمارے ہاں تو یہ ایک نئی اصطلاح تھی تبھی ہم نے اسے اچک
لیا اور پے در پے استعمال کرنے لگے۔ بھلا ہو کسی ایم این اے کا جس نے کوریا
کی مثال دے کر سمجھایا کہ یہ سمارٹ لاک ڈاون کیا ہوتا ہے مگر حکومتی ترجمان
اب اس کو اور زیادہ استعمال کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے اسے غلط جو کہا ہے ۔
یہی حال اس حکومت میں استعمال ہونے والی دوسری اصطلاح کا ہے۔ جسے ہر کوئی
استعمال کر رہا ہے وہ ہے ایس او پیز۔ میں نے بھی اپنے ایک نہائت محترم دوست
کے سامنے جو میری قابلیت کے گن گاتے ہیں اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانے کے لئے
یہی ایس او پیز کے الفاظ استعمال کئے تو انہوں نے جیسے مجھے زبان سے ہی
دبوچ لیا اور سیدھا ہی پوچھ لیا کہ یہ ایس او پیز کیا بلا ہے؟ میرے پاس
میرا سمارٹ فون ہر وقت ہوتا تھا جس کی مدد سے میں اپنی علمیت کی دھاک
بٹھاتا رہتا تھا اس دن وہ سمارٹ لاک ڈاون کی طرح میرے پاس نہ تھا۔ اب میں
نے انہیں بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی بہت ہی زیادہ آئیں بائیں شائیں کی مگر
انہیں سمجھ نہ ہی آئی۔ میں نے کہا کہ جیسے کوئی حکومت کسی حکومت سے معاہدہ
کرتی ہے اور یاداشت پر دستخط کئے جاتے ہیں ایسے ہی یہ بھی ایک معاہدہ ہے۔
میں اس کی وکیلوں جیسی جرح کے سامنے میں بے بس تھا اور اس وزیر کو کوسنے
لگا جس نے یہ ایس او پیز کی اصطلاح رائج ہی کر دی تھی۔ ہماری قوم تو وہ قوم
ہے جسے پورے چھ مہینے ووٹ ڈالنے کا طریقہ ٹی وی پر اور عملی طور پر سمجھایا
جاتا ہے لیکن الیکشن والے دن یہ پھر ووٹ ضائع کر آتی ہے۔ ایسی عوام سے ایس
او پیز پر عمل کرانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ
یہ نگوڑے ایس او پیز ہیں کیا بلا۔اور وہ ایک گدھا جیو چینل پہ آکے ایک بات
کرتا ہے سوشل ڈسٹینسنگ اور اردو میں اس کا ترجمہ سماجی فاصلہ کرتا ہے اس کی
بھی سمجھ نہیں آتی۔ میں نے کچھ خواتین جو بازار میں کھڑی تھیں سے غلطی سے
یہ کہہ دیا کہ محترمہ آپ نے سماجی فاصلہ نہیں کیا ہوا تو وہ اپنا دوپٹہ
سنبھالنے لگیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں کس سے کہہ رہا ہوں اور کیوں کہہ
رہا ہوں؟ بات کو سیدھا سیدھا کہہ دیتے کہ ایک دوسرے سے چھ قدم یا چھ فٹ کے
فاصلے پر رہیں۔ ماسک پہنیں ہاتھ بار بار دھوئیں ۔اور بھیڑ نہ پیدا ہونے
دیں۔ ہر کسی کو سمجھ آ جاتی اور یہ ایس او پیز سوشل ڈسٹینسنگ اور سمارٹ لاک
ڈاون ہرگز مذاق نہ بنتے۔ |