بیگم، لاک ڈاؤن اور رمضان

(رمضان اور لاک ڈاؤن میں بیوی کے میکے جانے پر ایک حقیقی آپ بیتی)

بیگم کے میکے جانے کے ہزاروں فوائد کے ساتھ ایک نقصان یہ ہے کہ رمضان میں افطار خود بنانا پڑتا ہے،ویسے تو ہماری بیگم سرجن ہیں اور اپنے آلات جراحی ہمہ وقت گھر پر بھی موجود رکھتی ہیں، مگر آج میں انکے علم و فراست اور دور اندیشی کا قائل ہو گیا، وہ چاہتی تو میکے جانے کے لیے موسم سرما یا موسم بہار کا بھی انتخاب کر سکتی تھی مگر انہوں نے لاک ڈاؤن اور رمضان کے مہینے کو مناسب جانا، اور اب میں سموسے فرائی کرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ آزادی ہے یا قید با مشقت۔ ویسے بھی یہ تاریخ میں پہلا رمضان ہے جہاں دنیا بھر میں انسان لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے اور شیطان بعد میں قید ہوا، ابھی سموسے آئل میں ڈالے ہی تھے فون کی بیل ہوئی فون کو کان سے لگایا ہی تھا کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ یہ ویڈیو کال ہے،جلدی سے فون کو کان سے ہٹایا اور مسکراہٹ اور گھبراہٹ کے آمیزش شدہ چہرہ سے پوچھا کہ آج اس وقت کال؟ انہوں نے کوئی خاطر خواہ جواب دیے بغیر سوال صادر فرمایا کہ کیاہو رہا ہے ،میں نے کیمرے کا رخ کڑاہی کی طرف موڑتے ہوئے جواب دیا کہ بس سموسے بنانے ہی لگا تھا، آگے سے بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ اس کا مطلب کہ میں نے صحیح موقع پر فون کیا، تم گھر پر اکیلے ہو اور چھ سموسے اور نگٹس کیوں؟میں نے بیگم صاحبہ کی دور بینی صلاحیت کو پرکھتے ہوئے جواب دیا کہ کچھ افطار میں کھا لیتا ہوں اور کچھ رات میں، ابھی میں نے اپنے عقلمندانہ جواب کے تناظر میں بیگم صاحبہ کو دلیرانہ انداز میں موبائل پر دیکھا ہی تھا کہ ایک آفت زدہ سوال نازل ہوا کہ گھر پر تو تم اکیلے ہو تو پھر یہ روز تمہاری تصویر کون لیتا ہے جو تم سموسے بناتے ہوئے فیس بک پر لگاتے ہو؟ دوستوں پھر پتہ نہیں ہاتھ سے پہلے چمٹا گرا یا موبائل اور لائن کٹ گئی، بلکل اسی خدوخال میں جیسے کوثر نیازی کی مشہور کتاب''اور لائن کٹ گئی''میں بیان ہیں۔بحرکیف، اس دن افرادی(انفرادی) قوت کی عدم فراہمی کی وجہ سے تصویر نہیں لے سکا ہوں۔

آج بیگم صاحبہ کی متوقع واپسی تھی مگر انکا فون موصول ہوتا ہے جس میں انکے میکے میں رہنے میں 3 دن کی توسیع (Extension)کی بات کی جاتی ہے، فون کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ یہ توسیع کی درخواست تھی یا اطلاع یا حکم، بحرکیف جو بھی تھا مگر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے بلکل مختلف نہیں تھا اور مجھے سر تسلیم خم کر کے عمران خان کی صف بندی میں شامل ہونا پڑا۔اس ''جرات مندانہ'' فیصلہ کی روشنی میں، میں نے سوچا افطار میں میٹھا بنایا جائے, میٹھے سے مجھے اپنی زندگی کا ایک سچا واقعہ یاد آیا،11برس پہلے شادی کے خوشگوار حادثے سے گزرا تو اپنی زوجہ محترمہ کا فون نمبر ''Sweet Wife'' کے نام سے محفوظ کیا جو ابھی تک جبرا'' اسی نام سے محفوظ ہے اور کبھی کبھی اسے سفارتی محاذ پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حالات میں کشیدگی کی صورت میں اپنا موبائل انکے ہاتھ میں تھما کر کہتا ہوں کہ اسکی سکرین یا سم کام نہیں کر رہی ذرا اپنے فون سیمس کال تو دیے گا بس پھر کیا کال آنے کی دیر ہے کہ مسکراہٹوں کا ایک سمندر برپا ہو جاتا ہے اور مجھے ہر طرف ''حوریں'' نظر آنے لگتی ہیں۔واقعہ یوں ہے کہ کچھ عرصہ پہلے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے شوگر کے مرض کے اثرات ہیں جب ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ آپکی زندگی میں جتنی Sweet چیزیں ہیں وہ چھوڑ دیں، واپس گھر آیا تو بیگم صاحبہ نے پوچھا ڈاکٹر نے کیا کہا، میں نے کچھ لمحے ان کے چہرے پر دیکھا اور پھر فون کی Contact List کو اور پھر بالآخر ڈاکٹر کو ہی چھوڑ دیا!

نوٹ: حوروں اور ایکسٹینشن کے واقعات کا اس تحریر سے مماثلت محض اتفاقیہ ہے
کوئی بھی توسیع کسی ڈیل کے بغیر ممکن نہیں، چاہے تو میکے میں رہنے کی ہو، سیاسی ہو یا عسکری، ہماری زوجہ محترمہ سے یہ ڈیل ہوئی کہ وہ 5 دن مزید میکے میں سیالکوٹ رہیں گی اور میں اور میری بیٹی (ھدی) ملتان اپنے آبائی شہر ہو کر آئیں گے۔ مگر اس ڈیل کا ایک سنجیدہ پہلویکم مئی کو سسرال(سیالکوٹ) جا کر بیٹی کو ساتھ لینا تھا، مرد آہن نے ہمت پکڑی لاہور سے براستہ گجرانوالہ، وزیر آباد، سمبڑیال سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوا، باراتیوں کے ہمراہ جو سفر11سال قبل 2 گھنٹوں میں طے ہوا تھا آج اسے 5 گھنٹوں میں عبور کیا، سیالکوٹ پہنچ کر احساس ہوا کہ کاش اس سے آگے باڈر نہ ہوتا تو بندہ جموں تک جا کر وزیراعظم کی تقلید میں یوٹرن لیکر واپس سیالکوٹ بھی آ سکتا تھا۔بحر کیف سسرال پہنچ کر زوجہ محترمہ کا مجھ سے پہلا تقاضا یہ تھا کہ اتنے دن لاہور میں خوب افطاریاں بنائی ہیں ایک افطاری سسرال میں بھی بنائی جائے، بندہ ناچیز نے بڑی عاجزی سے فرمایا کہ آج یکم مئی لیبر ڈے ہے۔
لیبر کا سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کے چہریپر ایک شرماہٹ و انکساری سی محسوس ہوئی موقع کی نزاکت کو سمیٹتے ہوئے انہیں فوراً عرض کیا کہ اس لیبر سے مراد میڈیکل لیبر(زچگی) نہیں بلکہ مزدور ہے لہٰذا حاضر دماغی، بروقت کاروائی کی بدولت انکی سوچ کو لیبر روم سے لیبر ڈے میں مرکوز کرنے میں احسن طریقے سے کامیاب ہوا، اور انکو قائل کیا کہ شوہروں کا شمار بھی بلا معاوضہ مزدوروں میں ہوتا ہے لہذا آج یوم مزدور کے دن کی روشنی میں بندہ ناچیز کو افطاری بنانے سے استشنی' دیا جائے ویسے بھی شوہر وہ واحد ظالم انسان ہے جو مظلوم بیوی سے پناہ مانگتا ہے۔موقع کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے جلد ہی بیٹی کو ہمراہ سفرکیا اور ملتان کے لیے براستہ لاہور روانہ ہو گیا امید ہے لاہور ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ جاؤنگا۔
ملتان شہر سے ایک دلی لگاؤ ہے، بچپن اسی شہر میں گزرا اور مستقبل میں قوی امید ہے کہ پچپن بھی ادھر ہی گزرے۔ ملتان کی خاص پہچان اسکی ثقافت، تاریخ، اولیائکرام، میٹھی زبان اور اندرون شہر کی تنگ گلیاں وغیرہ ہیں کچھ گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ لگتا ہے کہ ''پتلی گلی سے نکل جا'' کی مثال ملتان سے ہی بنی ہے، پتلی گلیوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ''کچھ گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش رہ جاتی ہے'' اب جا کر سمجھ میں آیا کہ ملتان میں اکثر مردوں کے ایک سے زیادہ نکاح کیوں ہیں، چلیں'' اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کی بدولت معاملہ فہمی میں نکاح بیچ میں آ گیا وگرنہ بیرونی ممالک میں ایسے واقعات کا تصفیہ سوری کہ کے بھی ہو جاتا ہے ۔اچھے دنوں کی بات ہے کہ بیگم کے سامنے ایک شعر گنگنایا
''یہ جو ملتان سے محبت ہے
یہ میری جان سے محبت ہے''

بیگم صاحبہ سیخ پا ہو گئیں کہ شادی سیالکوٹ میں اور محبتیں ملتان، انہیں نقشہ میں ملتان اور سیالکوٹ کے درمیان دائرہ لگا کر نیوٹن کا قانون حرکت پڑھا کر سمجھانا پڑا کہ '' ہر عمل کو ایک ردعمل ہونا، عمل اور رد عمل برابر ہوتے ہیں مگر سمت میں مختلف ،"لہذا سیالکوٹ کی سمت ملتان سے مخالف ہے،اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ نے ڈاکٹری پڑھی ہے اگر فزکس پڑھی ہوتی تو یہ سوال بنتا بھی نہیں تھا جس سے وہ مطمئن ہوئیں بحرحال،فزکس کے اصول کا ازواج پر کامیاب استعمال کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ ملک میں واقعی" تبدیلی "آ چکی ہے۔

جس طرح موت کا ایک دن متعین ہے، اسی طرح بیگم کا میکے سے آنے کا بھی، دونوں واقعات میں کچھ زیادہ مماثلت تو نہیں مگر ایک چیز مشترک ہے ''موت''۔ بالآخر آج وہ دن آن پہنچا، بیگم صاحبہ کے ذوق کے مطابق گھر کے ہر کونے کونے کی صفائی کروائی گئی، ان کی صفائی کے ذوق کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ جب بھی میں بیرون ملک سے واپس آتا تھا،محترمہ اپنی دوربینی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے میرے تمام کپڑوں کا بڑے غور و فکر سے معائنہ کرتی تھیں میں بڑا خوش فہمی میں تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے کتنی سلیقہ شعار زوجہ عطا فرمائی ہے کہ وہ میرے سامان کا کتنا خیال رکھتی ہے، پھر وہ ایک دن میرے کوٹ پر سے ایک بال دریافت کر آئیں اور بحث شروع ہوئی کہ یہ زنانہ ہے یا مردانہ، پھر بالآخر میں نے اپنا سر کا بال انھیں دیا کہ اسے دوسرے کے ساتھ میچ کر کے دیکھ لو دونوں میرے ہی ہیں اور اس طرح کوئی ''چن'' چڑنے سے بچ گیا، پھر میں نے سوچا کہ اگر میں گنجا ہوتا تو یہ معاملہ کیسے حل ہونا تھا؟وہ دن ہے اور آج کا دن جب بھی بیرون ملک سے آتا ہوں کپڑوں کو جھاڑ کر باریک بینی سے دیکھ کر آتا ہوں ، بلکہ ان کپڑوں کو بھی جو نئے لیئے ہوئے پیکنگ میں موجود ہوتے ہیں،ہاں بھئی جس طرح نیب ملک میں کیس بناتا ہے کہیں بیگم نے ان سے ہی ناکچھ نا سیکھ لیا ہو،اور کوئی ایسا "چن" نا چڑھ جائے جو ابھی خود گرہن میں ہو۔

بیگم کا مفتی منیب کی چاند دیکھنے والی دوربین کی صلاحیتوں سے تنگ آکر میں نے سوچا کہ پوپلزئی کی تقلید میں آ جاؤں کیونکہ ان کے پاس کم از کم دور بین تو نہیں پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ ان کا چن تو مفتی منیب سے بھی پہلے چڑھ جاتا ہے۔ مختاریا، اس تحریر میں ''چن'' سے مراد ''ندیم افضل چن'' نہیں، تو گھر جا کے بہہ اور عید دا چن چہڑن دا انتظار کر۔

ہماری ایک صاحبزادی ہیں جو بطور '' نظر بٹو'' اس جوڑے کے آس پاس پائی جاتی ہیں، ایک عرصے تک تو میں اسے کباب میں ہڈی سے تشبیہ دیتا تھا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ بیٹی کتنی بڑی رحمت ہے کہ کسی بھی ''مشکل وقت'' میں باپ کو اکیلا نہیں چھوڑتی ہے، کسی دوست نے ہماری تصویر دیکھ کر پوچھا کہ بیگم کے ساتھ کھڑا ہوکر کیسے اتنا بہادرانہ طور پر مسکرا لیتے ہو تو میں نے جواب دیا کہ بلکل اسی طرح جیسے ہمارے وزیراعظم چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ کھڑے ہو کر۔چونکہ بیگم صاحبہ میکے سے گھر لوٹ آئیں ہیں لہٰذا ان تحریروں(بیگم کے میکے رہنے کے ہزاروں فوائد) کا سلسلہ اختتام پذیر ہوتا ہے۔
 

Zubair Mughal
About the Author: Zubair Mughal Read More Articles by Zubair Mughal: 2 Articles with 1299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.