دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

واصف علی واصف کہتے ہیں :”زندگی وقت کھاتی ہے زمانے نگل جاتی ہے کبھی کبھی صدیاں ہڑپ کر جاتی ہے اور ٹس سے مس نہیں ہوتی اور کبھی کبھی ایک لمحے میں کئی انقلاب برپا کر دیتی ہے“۔ازل سے تاریخ کے صفحات پر عروج و زوال کے قصے ثبت ہوتے آئے ہیں۔کائنات میں بسا اوقات تو بھڑکتے الاﺅ بھی یک لخت سرد پڑ جاتے ہیں اور شاذونادر چنگاری سے جنم لینے والے بھانبڑ بھی آتش فشاں سے بڑھ کر لاوا اگلتے ہیں اور آن کی آن میں بھاری تجوریوں کے حامل پرشکوہ عمارات و محلات کو خس و خاشاک کی طرح جلا کر خاکستر کر دیتے ہیں ۔جو اہل نظر کے لیئے عبرت بن جاتے ہیں لیکن لیکن شاید جابر حکمران کو ذوق دید ہی نہیں ملتا کہ سبق حاصل کر سکے۔عبرت جس کا مقدر ہو وہ صدائے حق کو کچلنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔حق گوئی و بے باکی سے خوف کھاتاہےاور انہیں نیست ونابود کرتے کرتے بالاآخر خود تباہ برباد ہو جاتا ہے۔

چند روز قبل افریقی ملک تیونس میں ایسا ہی ہوا۔ 64 ہزار مربع میل پر محیط تیونس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ تیونس کی تاریخ پر سرسری نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں مسلمان پہلی بار ابن ابی سارہ کی قیادت میں اس سرزمین تک پہنچے۔ان کا مقصد مقامی آبادی کو بازنطینوں کے مظالم سے نجات دلوانا تھا۔670ءعیسوی میں عقبہ بن نفع کی رہنمائی میں مجاہدین کا لشکر اسلام پھر اس سر زمین تک پہنچا۔اسکے بعد یہ سر زمین سامراج کی قیام گاہ بن گئی ۔1951ءمیں حبیب بورقیہ نے فرانس کے خلاف صدائے آزادی بلند کی ۔یہ صدا رفتہ رفتہ تیونس کے گوشے گوشے کا نصب العین بن گئی ۔1954میں گوریلا جنگ شروع ہوئی جو بالاآخر تیونس کی آزادی و خودمختاری پر منتج ہوئی۔لیکن سامراج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے باوجود تیونس کے عوام وہ آزادی نہ دیکھ پائے جس کے وہ منتظر تھے ۔تیونس کے بانی و جدوجہد آزادی کے قائد حبیب بورقیہ نے صدارت سنبھالی ۔1959میں تیونس کا آئین بنا۔لیکن شہر آزادی ‘جمہوری نظام ‘آزادانہ اظہار رائے ‘شفاف الیکشن سے لیس آئین کے باوجود حبیب بورقیہ کے زیر تسلط رعایا کو جبری نظام کے آہنی شکنجے نے آ دبوچا۔تیونس بھی مثل وطن صدا دیتا رہا۔بقول شاعر
راہزنون سے تو بھاگ نکلا تھا
مجھے رہبروں نے آگھیرا ہے

1987میں حبیب بورقیہ کے وزیراعظم زین العابدین نے حبیب کی حکومت کا تختہ الٹ کر مسند اقتدا پر قبضہ کر لیا۔اپنے پیش رو کی پیروی کرتے ہوئے زین العابدین بن علی نے کرپشن کا بازار گرم کر دیا۔اگر تیونس کی حالیہ صورتحال کا مختصر جائزہ لیا جائے تو وہ تسلی بخش ہے مگر۔۔اعلیٰ تعلیمی نظام میں تیونس کا 17نمبر ہے۔معاشی ترقی کی شرح نمو پانچ فیصد سے تجاوز کر گئی۔شرح خواندگی اسی فیصد ہے۔باقی ماندہ عرب ممالک کے برعکس تیونس کی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد بیس فیصد سے زائد ہے۔اور بہت سے ایسے مثبت اعدادوشمار جو ہمارے ہاں دہائیوں سے ناپید ہیں۔تیونس مغربی دنیا کی آنکھ کا تارا تصور کیا جاتا رہا۔ کنڈولیزا رائس نے تیونس کو عالم اسلام کے لیئے روشن خیال مثال کہا۔لیکن پچھلے چند سالوں میں تیونس کی سرکار کی بے مہار روشن خیالی و اسلام بیزاری نے عوام کو حکومت سے دور کرنا شروع کر دیا۔زین العابدین نے اپنے پیشرو کی مانند کرپشن کا بازار گرم کر دیا۔پڑھے لکھے افراد ڈگریا ں ہاتھ میں تھامے مارے مارے پھرتے رہے لیکن کوئی پرسان حال نہ بنا ۔زین العابدین نے قومی اثاثہ جات کو لوٹ کر اربوں ڈالر غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا دیئے۔ایک عرب تجزیہ کار مروان الاسمر کے مطابق زین العابدین کے غیرملکی اثاثہ جات کی مالیت پندرہ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔اس خون آشام کرپشن میں زین العابدین کی اہلیہ لیلی طرابلسی جو کہ ان سے بیس بر س چھوٹی ہیں ان کے شانہ بشانہ چلتی رہیں۔لیلی نے چند سالوں میں اپنے نیم خواندہ خاندان کو نہایت عیاری کے ساتھ صدر پر حاوی کر دیا۔اپنی بہن بالحسین اور بھائی عماد کو اہم سرکاری منصب عطاء کروائے۔انھوں نے صدر سے رشتہ داری کو خوب کیش کروایا اور تیونس کے نہتے عوام سے لوٹ کھسوٹ جاری رکھی۔لیلی مختلف حیلوں بہانوں سے پولیس کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ہراساں کرتی اور ان سے رقم بٹورتی ۔سرکاری املاک کو کوڑیوں کے بھاﺅ خرید کے بھاری داموں فروخت کر کے اربوں کی مالک بن گئی۔حکمرانوں کی اس بے رحمی پر بھی تیونس کے عوام صابر و شاکر رہی اور حرف شکوہ تک زبان پر نا لائے۔لیکن سترہ دسمبر کو پیش آنے والے سانحہ نے تیونس کے مفلوک الحال بھوک سے بلکتے عوام کے صبر کے پیمانے کو لبریز کر دیا۔یکایک عین اسوقت غلغلہ اٹھا جب سدی بویزید قصبے کے ایک نوجوان محمد بوعزیز نے چوراہے پر خود سوزی کر لی۔دراصل محمد بو عزیز ایک گریجویٹ بے روز گار جوان تھا۔اس نے اپنے عزیز و اقارب سے کچھ رقم مستعار لے کر سبزی کا ٹھیلہ لگا لیا۔سرکار کے بندوں نے لائسنس فیس ادا نہ کرنے کے جرم میں اس کا واحد ذریعہ معاش ضبط کر لیا جس پر دلبرداشتہ ہو کر محمد بو عزیز نے خود کشی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا ۔کیونکہ اب اسکے پاس آتش شکم کو بجھانے کے لیئے کو ئی راہ نہ بچی تھی ۔ جنگل کی آگ کی طرح یہ شنید عام ہو گئی۔اس چنگاری نے تیونس کے عوام کے سر د جذبات کو حرارت دی۔آن کی آن میں اس چنگاری نے وہ بھانبھڑ بھڑکایا جس نے بھاری تجوریوں کو خاکستر کرنا شروع کر دیا۔صدر نے ہمیشہ کی طرح رعایا کی صدا کو دبانے کے لیئے طاقت کا استعمال کرنا چاہا۔مگر چیف آف آرمی سٹاف رشید عمار نے عوام پر گولیاں برسانے سے انکار کر دیا۔اسے برطرف کر دیا گیا۔پھر گولیاں برسنا شروع ہوئیں اور برستی چلی گئیں۔ان گولیوں نے بپھرے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔مشتعل عوام نے محل کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔زین العابدین کی لیلی مرکزی بینک سے ڈیڑھ ٹن سونا نکلو کر راہ فرار اختیار کی۔اسکے بعد صدر نے بھی چودہ جنوری کو سعودی عرب رخ کیا۔دنیا میں بنائے انقلاب دو ہی باتیں بنیں ایک دین اور دوسرا افلاس۔انیسویں صدی کی آخری دہائی میں فرانس میں غربت و بے روزگاری سے تنگ عوام کے دامن میں برداشت نامی عنصر ختم ہو گیا۔لیکن رعایا سے بے بہرہ حکمرانوں کو خبر تک نہ ہوئی ۔عوام کے احساسات سے عاری حکمران اپنی پر تعیش زندگی میں ہی مگن رہے ۔فرانس میں جب ایک بچے کو ریستوران میں بم پھینکنے کے جرم میں عدالت میں پیش کیا گیا تو جج کے استفسار پر وہ گویا ہوا”وہاں لوگ اچھا کھانا کھاتے ہیں جب کے مجھے شکم کی آگ بجھانے کے لیئے میلو ں پیدل چل کر زمین پر پھینکے گئے ٹکڑوں سے استفادہ کرنا پڑتا ہے“۔ جب فرانس کے عوام سڑکوں پر نکل آئے تو عوام جذبات و حالات سے آنکھیں موندیں ملکہ کے حیرت میں مبتلا الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ششدہ ملکہ نے کہا”اگر عوام کو روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے“۔کچھ اس سے ملتے جلئے الفاظ پاکستان کے عظیم رہنما بننے کے خواہش مند حاکم نے اس لمحے ادا کئے جب اس سے شکوہ کیا گیا کہ دالوں کی قیمتیں فلک کو چھو رہی ہیں تو رعایا کے حقوق سے نابلد اس بشر نے کہا ”اگر دال نہیں ملتی تو مرغی کیوں نہیں کھاتے “۔حالات و واقعات اور غربت وافلاس کے آئینے میں ارض پاک کے حالات فرانس سے کافی حد تک مماثلت کرتے ہیں ۔اگر کڑوے کسیلے ماضی پر نظر دوڑائیے تو بے ذوق پالیسیوں ‘فلک شگاف نعروں‘دگرگوں معیشت ‘اخلاقی حدوں سے ماورا سیاسی حکمت‘محظ کاغذ پر لکھے تابناک منشوروں‘غریب کش پلاننگ ‘ رجعت پسند بگولوں‘حد نگاہ تک پھیلے مظاہروں اور محکوم خارجہ پالیسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔بلند و بانگ دعوے جو صحرا میں اٹھنے والے بگولوں کی مانند خود بخود معدوم ہوجاتے ہیں ۔ان بگولوں سے گلستان میں کوئی پھول نہیں کھلتا۔درخت بے ثمر ہی رہتے ہیں۔بقول شاعر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

ہزار ستم کھا کر اب کچھ بلوغت آئی ہے ۔در حقیقت ہم تماش بیں و ہنگامہ پسند کلچر کے عادی ہو چکے ہیں۔مبادا اس ہی لیئے ہر لمحہ قلم کی جولانیاں و گفتار کے تلاطم سے جمہوریت پر زہر سے بجھے نیزے برسانا ہمارا شعار بن گیا۔اسوقت ارض وطن میں 4کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔4کروڑ 90لاکھ فقط ایک کمرے کے گھر میں پناہ گزیں ہیں ۔31فیصد سکولوں میں بنیادی ضروریات کا فقدان ہے۔غربت کی شرح 37فیصد تک جا پہنچی ہے۔اس سب میں ہم برابر کے شریک ہیں ۔ہمہ وقت ووٹ کو کیش کرواتے رہے۔قومی مفاد کو اپنے چند مذموم مقاصد کی خاطر کوڑیوں کے عوض بیچتے رہے۔فقط ماضی کے حکمرانوں کو موردالزام ٹھرانا درست نہیں ۔مگر موجودہ صورتحال کسی بھونچال کی آمد آمد کی غمازی کرتی ہے ۔ہے کوئی دور بیں دیدہ ‘ہے کوئی وقت شناس ؟ہے کوئی معاملہ فہم ؟ہے کوئی درد مند ؟ہے کوئی اہل نظر جو عروج کی زوال کی جانب پیش قدمی کا ادراک کرے ؟اگر نہیں تو ہمارا حال بھی اٹھارویں و انیسویں صدی کے انقلابات کی جانب تیزی سے گامزن ہوجائے گا۔اگر اس ملک کے باسیوں کی صدا رد کردی گئی ‘جن کے نام پر دہائیوں سے ایوان اقتدار میں قبضہ جاری ہے تو اس ارض وطن کو خون آشام شاموں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188523 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.