ایسے چوروں کی عظمت کو سلام

خالی ہاتھ توڈینگی مچھرسے بھی لڑا نہیں جاتاپھراس بے لگام اورخطرناک کروناسے کیسے لڑاجائے گا۔۔؟جس کرونانے چینی یاجوج ماجوج اورامریکہ وبرطانیہ جیسی سپرپاورزکوبھی چندہفتوں میں،،کرونیاں کرونیاں،،کرکے سب کاتیل نکال دیاہے۔جن کے پاس دنیاکی نمبرون ٹیکنالوجی،جدیدمیڈیکل آلات اورہرقسم کے خفیہ وبھاری ہتھیارہیں اورکل تک جوریموٹ کنٹرول پردنیاکوچلانے کے خواب اورفائیوجی پرانسانوں کونچوانے کے سپنے دیکھ رہے تھے زمین کے ان ناخداؤں نے تو تمام ترطاقت ،دولت ٹیکنالوجی اوروسائل کے باوجود نہ صرف آج کروناکے سامنے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں بلکہ کروناکامقابلہ کرنے سے بھی مکمل بیزاری اوربے بسی کااظہارکردیاہے مگر اس کے مقابلے میں ہمارے وہ بے سہارااورمجبورمسیحاجن کے پاس نہ کوئی اعلیٰ قسم کے فیس ماسک ہیں نہ گلوزاورنہ ہی کوئی اورقابل قدرمیڈیکل آلات ۔ان کومسلسل یہ کہاجارہاہے کہ وہ کروناسے لڑیں۔ماناکہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے یہ ڈاکٹرز،نرسزاوردیگرپیرامیڈیکل سٹاف اس ملک کے اندرحکمرانوں کی نااہلی،غفلت اورلاپرواہی کے باعث ایک طویل عرصے سے نہ صرف پسماندگی،بے انصافی ،ظلم وستم سے لڑرہے ہیں بلکہ یہ مفت میں عوام اورمریضوں کی سوسوباتیں اورگالیاں سن کر اپنی بے بسی اوربدقسمتی سے بھی ابھی تک لڑتے آئے ہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ جس اژدھے کے سامنے امریکہ جیسے سپرپاورنے بھی ہتھیارڈال دیئے ہیں۔خالی ہاتھ اس کروناسے لڑناان ڈاکٹروں،نرسزاورپیرامیڈیکل سٹاف کے لئے کسی بھی طورپرممکن نہیں۔برسوں پہلے کی بات ہے ۔ہمارے گاؤں کے سکول میں ایک استادبچوں سے سبق سن رہے تھے ۔دس میں سے ایک بدقسمت بچے کواس دن کہیں سبق یادنہیں تھا۔جون کامہینہ تھا۔سورج کے ساتھ گرمی کے ہاتھوں استادجی بھی اس دن کچھ زیادی ہی آنکھیں دکھارہے تھے۔سبق نہ سنانے والے بچے سے استادنے کہابطورسزاآپ نے کل اپنے ساتھ مالٹے لانے ہیں ۔کہاں جون کامہینہ ،کہاں شہرسے دوردرازایک گاؤں اورکہاں مالٹے۔مالٹے توجون کے مہینے میں ویسے بھی نہیں ہوتے ۔پھرگاؤں جہاں دسمبرمیں بھی مالٹے مشکل سے ملتے ہوں وہاں پھرجون کے مہینے میں مالٹے کہاں سے آئیں ۔بچہ ڈرڈرکے معصومانہ لہجے میں بولا۔استادجی اس موسم میں مالٹے تونہیں ۔میں کہاں سے مالٹے لاؤں گا۔۔؟استادجی غضبناک آنکھوں کے ساتھ بھاری آوازمیں۔۔ مجھے نہیں پتہ۔۔؟کہاں سے لانے ہیں لیکن آپ نے کل ہرحال میں مالٹے لانے ہی ہیں ۔یہی حال ہمارے ان ڈاکٹروں کے ساتھ بھی ہے۔ہسپتالوں میں جدیدآلات ہوتے ہیں نہ ہی جان بچانے والی ضروری ادویات اورنہ ہی دیگرسازوسامان۔لیکن انہیں ہمیشہ یہی کہاجاتاہے کہ آپ نے ہرحال میں مریض کی جان بچانی ہے۔کوئی جان جدیدمیڈیکل آلات اورضروری ادویات کے ذریعے ہی بچے گی جب یہ بنیادی اشیاء ہی نہ ہوں توپھربے چارہ ڈاکٹرکسی کی جان کیابچاسکے گا۔۔؟سرکاری ہسپتالوں کے اندرہردوسرے دن مریضوں کے لواحقین اورڈاکٹروں کے درمیان نوراکشی اورباکسنگ کے مقابلے صرف اس لیئے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹربے چاروں کے پاس مریضوں کے علاج معالجے کے لئے ضروری سازوسامان نہیں ہوتااورعوام یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں سب کچھ ہونے کے باوجود ڈاکٹروں نے جان بوجھ کر ان کے مریض کی زندگی کو داؤ پر لگادیایادنیاپارکردیا۔اس وقت اکثرسرکاری ہسپتالوں میں ایم آرآئی،سی ٹی سکین،ڈیجیٹل ایکسرے اوردیگرکئی اہم مشینیں یاتوخراب ہیں یاسرے سے ہے ہی نہیں ۔اس کے باوجودبجائے سرکاری ہسپتالوں کو ضروری سازوسامان اورادویات کی فراہمی کویقینی بنانے کے صرف اورصرف ڈاکٹرزکوموردالزام ٹھہراکرقوم کے سامنے مجرم بناکر پیش کیاجارہاہے۔کروناسے لڑنے کے لئے فرنٹ لائن پرمورچے سنبھالنے والے ان ڈاکٹروں نے جب ضروری سازوسامان کامطالبہ کیاتوان کے جائزمطالبے پربھی ان کے لئے کام چوراوہٹ دھرم جیسے تعریفی الفاظ استعمال کرکے ہرطرف سے ان کونشانہ بنایاگیا۔حکومتی وزیراورمشیرخودجدیدآلات اورسازوسامان کے باوجودکرونامریضوں سے نہ صرف سو سوفٹ کافاصلہ رکھتے ہیں بلکہ ان سے کوسوں دوربھاگتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ ڈاکٹرزجن کے پاس نہ جدیدماسک ہیں اورنہ ہی گلوز انہیں کہاجارہاہے کہ وہ کروناکے مریضوں سے گلے ملیں۔ظلم اوربے انصافی کی بھی آخر کوئی حدہوتی ہے۔جس طرح ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کواپنی جان عزیزہے اسی طرح ان ڈاکٹروں کوبھی اپنی جانوں کی فکرہے۔ان کے بھی آخرچھوٹے چھوٹے بچے اوربوڑھے والدین ہیں ۔ایک کرونامریض کاسامناکرنے سے اگرکسی حکمران اورسیاستدان کوخطرہ ہے توکیاسارادن سرکاری ہسپتالوں میں کروناکے مریضوں کوہینڈل کرنے سے کسی ڈاکٹراوران کے بیوی بچوں کوخطرہ نہیں۔۔؟کروناکے خوف سے توہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں نے اپنی اپنی جگہیں چھوڑدیں ۔کئی انڈرگرواؤنڈچلے گئے،کوئی خودسے کورنٹائن ہوگئے مگرقربان جاؤں ان بے چارے ڈاکٹرزپرجوآج بھی خالی ہاتھ کروناکے خلاف اگلے مورچوں پراپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔کچھ دن پہلے سرپرٹوپی،ہاتھ میں تسبیح اورچہرے پرسنت رسول سجانے والے اپنے دوست ڈاکٹرعبدالماجدکوکروناکے خلاف فرنٹ لائن پرلڑتے ہوئے دیکھاتوواﷲ دل باغ باغ ہوگیا۔ ڈاکٹرعبدالماجدکاشمارینگ ڈاکٹرایسوسی ایشن کے سرکردہ رہنماؤں اورعہدیداروں میں ہوتاہے۔وہ ہزارہ کے سب سے بڑے ہاسپیٹل ایوب میڈیکل کمپلیکس میں بطورڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ایمرجنسی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔ڈاکٹرصاحب کوسیاسی کرونوں کے خلاف تولڑتے ہوئے ہزارباردیکھاتھالیکن اب انہیں اصل کروناکے خلاف بھی اپنی آنکھوں سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کی طرح ڈاکٹرعبدالماجدبھی اگرچاہتے توکروناکی وجہ سے وقتی طورپراپنی جگہ چھوڑدیتے ۔ انڈرگرواؤنڈچلے جاتے یاپھر خودکو کورنٹائن کرتے مگرجاننے والے جانتے ہیں کہ کروناکی وباء آنے کے بعدڈاکٹرعبدالماجدایک لمحے کے لئے بھی اپنی جگہ سے الگ نہیں ہوئے بلکہ وہ توکروناکی وباء کے بعدمسلسل نہ صرف اپنے دیگرڈاکٹرزساتھیوں کاحوصلہ بڑھارہے ہیں بلکہ انہیں اپنے اورتنظیم کے ذریعے ضروری سازوسامان اورجدیدآلات فراہم کرنے کے لئے بھی ہرممکن حدتک تگ ودد کررہے ہیں۔میڈیکل سٹاف کوجدیدآلات وسہولیات کی فراہمی کاجوکام حکمرانوں کے کرنے کاتھا۔اس وقت کروناکے خلاف جہادکرنے کے ساتھ وہ کام بھی میڈیکل کاطبقہ خودکررہاہے مگرپھربھی یہ ڈاکٹرز،نرسزاورپیرامیڈیکل سٹاف چورہے اورحکمران وسیاستدان ایماندار۔۔کروناکی وجہ سے اپنی زندگیاں ان ڈاکٹروں نے اپنی داؤپرلگائیں۔ہائی رسک کوانہوں نے گلے لگایا۔لیکن رسک الاؤنس اوراضافی تنخواہیں سیاسی چاچے اورمامے لے اڑے۔کروناکے خلاف فرنٹ لائن پرلڑنے والے میڈیکل سٹاف کوتونہ کوئی رسک الاؤنس ملااورنہ ہی کوئی اضافی تنخواہ۔اب خودہی بتائیں کہ چورکون ہے اورایماندارکون۔۔؟جس طرح حکمرانوں اورسیاستدانوں میں کچھ کچھ دانے ایماندارنکلتے ہیں اسی طرح ان ڈاکٹروں میں بھی کوئی چورہونگے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ڈاکٹرسارے ایمانداریادودھ کے دھلے ہوئے ہیں لیکن یہ ضرورکہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جواپنی زندگیوں کوداؤپرلگاکربلاکسی خوف وخطراورڈرکے سرکاری ہسپتالوں میں کروناکیخلاف لڑرہے ہیں ایسے ڈاکٹرنہ صرف ہمارے سروں کے تاج ہیں بلکہ ہمارافخربھی ہیں۔انسانیت بچانے کے لئے کروناسے دن رات لڑنے والے ایسے چورڈاکٹروں کی عظمت کوہم سلام پیش کرتے ہیں۔یہ توآپ نے بھی پڑھااورسناہوگاکہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویااس نے پوری انسانیت کوبچایا۔اس وقت جولوگ اپنی جانوں پرکھیل کرانسانیت بچارہے ہیں ۔ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورقدرکرنی چاہیئے۔ویسے بھی نعمتوں کاشکربجالانے سے نعمتوں میں مزیداضافہ ہوتاہے۔ہم اگرنعمتوں کی ناشکری کے اسی طرح مرتکب ٹھہرے توپھریادرکھیں ۔کفران نعمت پراس رب کاعذاب سخت بہت ہی سخت ہے۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.