عقلمندی کی ایک حد ہوتی ہے ۔حماقت کی کوئی حد نہیں
ہوتی۔انگریزی میں یہ مقولہ آسان لگتا ہے۔ wisdom has limits and stupidity
has no limits اورعربی میں اس سے بھی آسان لفظ ہے(بیوقوف) وقوف کہتے ہیں
ٹھہرنے کو۔ حماقت جو کہیں رکتی ہی نہ ہو۔
ہماری فکری غربت کا یہ عالم ہے۔ کہ کسی بھی معاملہ میں ہماری کوئی پہنچ
نہیں ہے۔ مگر بولنے اورچودھری بننے کا شوق بہت۔ ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ جاتے
ہیں اور پورے وقت بکواس جاری رہتی ہے۔
آجکل کرونا ایسی وباء آئی ہے کہ اس میں ہر کسی کو دخل در معقولات کا
پیدائشی حق ملا ہوا ہے۔
اس پر گفتگو کے پیرامیٹرز ہیں ۔ مگر اکثر کونہ میٹر کا پتہ ہے نہ پیرا
میٹرز کا۔
۱۔ ٹستنگ کٹ۔ ۲۔ مثبت اور منفی ۔۳۔ بیماری صرف کرونا۔ ۴۔انفکشن۔ ۵۔کرونا
خود کیا ہے؟ ۶۔ماسک۔۷۔ سماجی فاصلہ۔۸۔ڈاکٹروں کا سوٹ؟۔۹۔سینیٹائزر؟۔
۰ا۔ بار بار ہاتھ دھونا۔اا۔ کرونااموات۔ ۱۲۔ طبعی اموات ۔
جو لوگ ٹاک شو میں گفت وشنید پر معمور ہوتے ہیں انہیں اوپر دیئے ہوئے ۱۳
نکات میں سے شائد کسی ایک کا بھی پتہ نہ ہو۔ مگر وہ گفتگو میں اسطرح حصّہ
لے رہے ہوتے ہیں ۔ جیسے یہ کرونا کے جد امجد ہیں اور بھلا ان سے بڑھکر کون
جانے گا؟ پھر ان لال بجھکّڑوں کی ایک پروڈکشن بھی ہے۔ جس کی کوئی ڈمانڈ
نہیں ہے مگر پروڈکشن بڑھائے جا رہے ہیں اسکا نام ہے ایس او پیز۔
۱۔ جب ٹسٹنگ کٹ غیر میعاری ہے تو ۲۔ مثبت اور منفی کیا معنیٰ۔۳۔بیماری صرف
کرونا ہے کسی بھی بیماری میں آئے۔ پہلی بات کہ زندہ نہیں رہنے دینا ۔ بلکہ
ونٹیلیٹر لگا کر مار دینا ہے جتنی اموات زیادہ ہونگی اتنا خوف پھیلے گا۔
کرونا کی لاشوں پر ڈالروں میں ادائیگی بھی ہو تی ہے۔ او۔ پی۔ ڈی اسی لئے
بند ہے کہ مریض کسی اور کھاتے میں نہ مر جائے۔
۴۔انفکشن کیا ہوتا ہے۔کسی بیکٹیریا کے ذریعہ مگر اس ۔۶۔کرونا میں کوئی
بیکٹریا موجود نہیں ۔ اگر ماسک لگانے سے یہ رک جاتا ہے تو پھر گائے،بکری،
گدھے گھوڑے کے بھی تو ماسک لگاؤ؟ یا کرونا نے کوئی علامت بتائی ہے کہ وہ
صرف انسانوں کو ہٹ کرے گا؟
کرونا وائرس کسی کیڑے کا نام نہیں ہے۔اندرونی طور پر پیدا ہونے والا زہر
ہوتا ہے۔(اٹلی کی زبان کا لفظ ہے)۔
۷۔سماجی فاصلہ۔ یہ بھی ایک تماشہ ہے۔ کرونا ہے یا بندر جو ۶ فٹ سے ۱۳ فٹ تک
کودتا پھر رہا ہے؟ جب انسان بت پرستی پر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کر لیتا
ہے تو عقل سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہماری نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی
کسی لیباریٹری میں اس پر کسی تحقیق کے قابل نہیں ہیں اور مارے شرم کے اسی
بیانیہ کا ورد کرہے ہیں کہ کوئی جاہل اور نا اہل نہ کہدے ۔ اور پوری قوم کو
بے وقوف بنا رہے ہیں،
سماجی فاصلہ اس وجہ سے پریکٹس کروا رہے ہیں کہ دیکھ رہے ہیں کہ ان نام نہاد
مسلمانوں کی ذہانت کا اشاریہ IQ اور ایمان کیا ہے۔ آخر جب ان پر اپنی غلامی
مسلّط کریں گے، تو یہ کیسے غلام ہو سکتے ہیں، ہم ہیں کہ ابھی سے لیٹ گئے
ہیں۔دجّال کی آمد پر ہماری مشترک سوچ کو تباہ کر دیں گے۔ اور ہم دجّال کے
غلام ہو جایئں گے ۔ مشترک سوچ کیا ہے؟ آپس میں صلاح و مشورہ کرنا۔رازداری
سے حکمت عملی تر تیب دینا وغیرہ۔
اس بات کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ بار بار صابن سے ہاتھ دھونا
کتنا نقصاندہ ہے اور بچاؤ کے لیئے کئی کئی گھنٹے وہ حفاظتی سوٹ کتنا
نقصاندہ ہے۔ ماسک اور سوٹ کے استعمال سے ہم جسم کی قدرتی آسیجن میں مزاحمت
پیدا کر رہے ہیں اس سے جسم کمزور ہوتا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے موت بھی
واقع ہو سکتی ہے۔
ان کو ڈائلاگ مل جاتا ہے کہ صف اول کے مقابلہ کار شہید ہو گئے۔ جہالت کی
کوئی حد نہیں ہوتی۔
ہمارے بدن پر ایک چکنائی نکلتی ہے ۔ جو ہمارے گرد ایک حفاظتی غلاف بناتی
ہے۔ جسے کوئی بیکٹیریا توڑ کر اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ہمارے جسم میں چھوٹے
بڑے کئی سوراخ ہیں ۔ کیا کوئی کیڑا انمیں گھس سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہر
سوراخ میں ڈھکنا کیوں نہیں لگاتے۔
جی ہاں انسان کے مرنے کے بعد چند سوراخوں میں روئی لگاتے ہیں ۔ مگر وہ
اسلئے کہ آدمی کے مرنے کے بعد اسکا حفاظتی نظام بھی مر جاتا ہے۔
اللہ کے واسطے قدرت سے زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش نہ کرو۔ شیطان نے روز
اوّل کہا تھا کہ میں ہر راستہ اور ہر کونے پر ان کو بہکاؤں گا۔ اللہ نے
جوابدیا ۔ دفع ہو جو میرے اطاعت گذار بندے ہوں گے۔ تیرے بہکائے میں نہ آیئں
گے۔
منہ پر ماسک لگا کرآکسیجن کے ذریعہ بچاؤ میں کمی پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح بار
بار ہاتھ دھونے سے قدرتی طور پر بیکٹیریا سے بچاؤ کو کمزور کرنا؟
دشمن نے تو مارنے کی ہر ترکیب سکھادی ہے۔ اور میڈیا ہمارے مرنے کی کمنٹری
اور پیش گوئی کرتا رہتا ہے، مستقل اسی بے اعتبار کٹ سے متاثرین کے نمبر
نکال رہے ہیں اور طبعی اموات کو بھی اس میں شامل کر کے نمبر بڑھا رہے ہیں،
ادھر دشمنوں سے مال بھی وصول کر رہے ہیں۔
ادھر جو مارکیٹ کھولیں گے ان سے رقم وصول کریں گے، ٹرانسپورت کھولیں گے رقم
لیں گے،
مریض کے زندہ رہنے میں کیا فائدہ؟ جبکہ مرنے پر اچھی پیمنٹ ہوتی ہے۔
ونٹیلیٹر اسی کم کے لئے ہے۔ پاکستانی دوا بنائے وکسین بنائے۔ پلازمہ لگائے
۔ سب بیکار کیونکہ مرنےپر پیمنٹ تو صرف باہر والے کرتے ہیں۔
کسے وکیل کریئں کس سے منصفی چاہیں۔ وزیر آعظم کو پکاریں یا ریاست کو مدد کے
لیئے بلایئں۔ اللہ ہمیں ان دنیاوی خداؤں کے پکارنے سے بچا۔ ویسے بھی زندگی
تیری قربت سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔ مسلمانوں کی تباہی کی بنیادی دو وجوہات۔
حبّ دنیا اور خشیت الموت(دنیا کی محبّت اور موت کا خوف)
اے ہمارے اللہ ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو۔ آمین |