سرسبز پاکستان کا خواب

 وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سرسبزپاکستان منصوبے کے لئے جب ٹریلین درخت لگانے کااعلان کیا تو مخالفین نے خوب مذاق اڑایا تھاویسے اپوزیشن نے ان کی ہر تجویزکا یہی حشر کیاہے حالانکہ کچھ تجاویزکا تقاضا ہوتاہے اسے سنجیدگی سے لیا جائے بہرحال ہر اپوزیشن ہرحکمران سے ایسا ہی سلو ک کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے شاید ان کے نزدیک اپرزیشن میں ہونے کا مطلب ہی روڑے اٹکانا فرض کرلیا گیا ہے حالانکہ ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی، موسموں کے درمیاتی مدت کے دوران حدت میں اضافہ،بارشوں میں کمی اور موسمی تغیرات کے پیش ِ نظر شجرکاری کی مہم پورا سال جاری رہنی چاہیے پاکستان جیسے ملک میں گرمیوں کے موسم میں جیسے سورج سوا نیزے پر آجاتاہے جس کے باعث بجلی کا استعمال بڑھ جانے سے صنعتوں پر ا سکے منفی اثرات الگ مرتب ہوتے ہیں بلکہ بجلی مسلسل مہنگی ہونے سے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ٹریلین درخت لگانے کا منصوبہ شدید حبس کے درمیان تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے ہم اکثر تجویز دیتے رہتے ہیں ٹریلین درخت لگانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے کی اشدضرورت ہے اس کے لئے پاکستان بھر میں ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ لاکھوں درخت لگائے جاسکتے ہیں جبکہ ملک بھرکے نہروں کے دونوں اطراف پھل اور پھول دار درخت لگانے سے نہ صرف ماحول خوشگوار بنانے میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں اور اس طرح حادثات میں بھی نمایاں کمی ہوسکتی ہے مگر ضروری ہے کہ ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت کام لیا جائے پھل اور پھول دار درختوں کے ایریاز کو لیزپر دیا جاسکتاہے اور اس ے زرمبادلہ بھی آسانی سے کمانے کی سبیل پیداہوجائے گی اس ضمن میں ایک اور تجویز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے یقینا آپ سب نے پاکستان میں بننے والی پانچوں موٹرویز کا سفر کیا ہوگا یا کم از کم لاہور سے اسلام آباد کی موٹروے کا سفر تو کیا ہی ہوگا کبھی آپ نے غور کیا کہ موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے. مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے. انتہائی زرخیز زمین ہے پھر سفیدہ لگانے کی بات کچھ سمجھ نہیں آتی اگر موٹر وے "ون "جو پشاور سے اسلام باد تک ہے اس کے گرد آڑو, زیتون, انار, کالی مرچ, اور سیب وغیرہ کے پودے لگا دئیے جائیں جن کے لئے وہاں کی آب و ہوا ساز گار ہے تو کتنی خوبصورتی ہوگی اور کتنا زیادہ فروٹ بھی حاصل ہوجائے گا اسی طرح موٹروے" ٹو" پہ اسلام آباد سے کلر کہار تک صنوبر اور لوکاٹ بڑا زبردست ہو سکتا…… لِلہ سے لے کر بھیرہ تک بیری کا درخت بہت کامیاب ہے اسی پہ بھیرہ سے لے کر پنڈی بھٹیاں تک مسمی, کنو, سنگترہ اور گریٹ فروٹ بہت کامیاب رہے گا. پنڈی بھٹیاں سے لاہور تک امرود, فالسہ, لیچی, انگور اور جامن بہترین پرورش پا سکتے موٹروے" تھری" پہ پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد اور موٹروے "فور" پہ لاہور سے عبدالحکیم اور فیصل آباد سے عبدالحکیم پہ بھی امرود, آم, جامن, فالسہ ,بیری اور شہتوت وغیرہ کامیاب پودے رہیں گے. موٹروے" فائیو "ملتان سے سکھر پہ بھی بہت اعلٰی اقسام کے کھجور اور آم کے درخت لگائے جا سکتے, جیسے کہ آپ کو پتہ ہوگا آم پھلوں کا بادشاہ ہے اور اس کی 1000 سے زیادہ اقسام ہیں لہذا اس پہ یہ ساری اقسام لگائی جا سکتی ہیں اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی ان پھل دار پودوں کی نگہداشت کون کرے گا تو اس کے لئے مالی بھی رکھے جا سکتے ہیں, یا پھر باغات ٹھیکے پر دئیے جا سکتے ہیں اس طرح ملک پہ بوجھ بھی نہیں بنے گا الٹا یہ پھل دار درخت گورنمنٹ کو منافع دیں گے. اور ہزاروں لوگوں کو روز گار ملے گا اور مزید برآں پھل پورے ملک میں سستا ہو جائے گا اور پھر حکومت اسے ایکسپورٹ بھی کر سکتی ہے

جب موٹر وے بنی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستانی اسے صاف ستھرا رکھیں گے اس پہ سفر کرنے والوں کی جان ومال محفوظ ہو گی یہاں تیز رفتاری پہ چالان ہو گا ۔اس وقت لوگوں کا خیال تھا موٹروے روایتی سڑکوں جیسی ہوگی کچھ کا خیال تھا کچھ عرصہ بعد یہاں جگہ جگہ " کھڈے" پڑجائیں گے لیکن یہ باتیں غلط ثابت ہوئیں اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح تمام خوبیاں آج موٹروے میں موجود ہیں اس کے لئے کہ ایک ماحول بنایا گیا ہے لوگ اپنا کچرا موٹروے پہ نہیں پھینکتے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں تو ماحول تو بنانا پڑے گا ۔اب کچھ کچھ لوگ خیال کریں گے پھل اور پھول دار درختوں کودیکھ کر مسافر لوگ رکیں گے اور حادثات ہوں گے نہیں جناب ٹھہریئے کوٹ مومن کے پاس سے گزریں تو دیکھیں سڑک کی دونوں طرف کینو کے باغات ہیں لیکن کوئی گاڑی انہیں دیکھنے کے لئے نہیں رکتی اس طرح بھلوال سے سرگودھا جائیں تو راستے کے دونوں جانب برلب سڑک کینو کے باغات ھیں لیکن نہ کوئی گزرتے ھوئے انہیں توڑتا ہے نہ ٹریفک کے لئے کبھی کوئی روکاوٹ بنتی ہے تو موٹر وے کے ساتھ ہزاروں میل کی زمین کو اگر اس طرح کارآمد بنایا جائے تو کمال ہی ہوجائے زیتون بھی کاشت کی جا سکتی ہے،بہاولپور جب آزاد ریاست تھی تو اس میں سکولوں، کالجوں، جامعات، ہر سرکاری دفاتر، شاہرات، نہروں کے کناروں، زخرہ جات میں ایسے ہی پھل دار اورنہایت کارآمد اشجار لگائے جاتے تھے جو کہ ماحول میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ حکومتی آمدنی میں اضافے کا خاطرخواہ زریعہ تھے جس کی نشانیاں اب بھی کہیں کہیں باقی ہیں... لیکن اب تو اس ملک کا باوا آدم ہی نرالہ ہے میرے خیال میں یہ نا ممکن نہیں بس جذبے کی ضرورت ہے حکومتی سطح پہ بھی اور عوامی سطح پہ بھی۔باقی ہمت مرداں۔۔مدد خدا تجویز بہت اچھی ہے لیکن ویسے ہم بھیڑچال کے عادی ہوگئے ہیں ماضی میں بغیرسوچے سمجھے سفیدے کے درخت بے تحاشہ لگادئیے گئے دیکھنے میں تو سفیدہ خوبصوت لگتاہے کیا اونچے اونچے دبلے پتلے درحتوں کی اپنی ہی شان ہے لیکن سفیدہ زمین کا پانی چوستا ہے پاکستان میں تو پہلے ہی پانی کی شدید کمی ہے اس لئے سفیدے کا درخت نہ لگایا جائے کچھ لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ سفیدے کا درخت جلد بڑا ہو کر زمین کے کٹاؤ اور ایکسیڈنٹ کی صورت میں گاڑی کو گہری کھائی میں جانے سے روکتا ہے۔بہرحال پھل اور پھول دار درخت لگانے کی تجویز بہت ہی اچھی اور فائدہ مند تجویز ہے اس پرعمل ہونا بھی چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس ملک پر مسلط اشرافیہ عوام اور ملک کی بھلائی کا کم اور اپنا ذاتی فائدہ کا زیادہ سوچتی ہے اگر سنجیدگی سے ملک کے طول و عرض میں پھل اور پھول دار درختوں کی افزائش کے منصوبے شروع کئے جائیں تو اس کے کئی فائدے ہیں پاکستان کو ایک سرسبزملک بنانے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا،لوگوں کو روزگار کے مزید مواقع میسر آئیں گے،موسموں کی شدت میں کمی آجائے گی اور سب سے بڑھ کر سرسبزپاکستان منصوبے کے لئے جب ٹریلین درخت لگانے کا جو خواب عمران خان نے دیکھا تھا وہ شرمندہ ٔ تعبیرہوسکے گا
روز خوابوں میڈ ملاقات ہوا کرتی تھی
اور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 336337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.