ابھی بچہ دو ، ڈھائی سال کا نہیں ہوا کہ والدین اُس کے
لئے فکرمند ہوجاتے ہیں کہ کس سکول میں داخل کروایا جائے ۔ اِدھر اُدھر
سکولوں کی تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ آس پڑوس اور رشتے داروں کے بچوں پر
نگاہیں مرکوز کرلیتے ہیں کہ اُن کے بچے کن سکولوں میں جارہے ہیں ۔ بالآخر
سکول کا انتخاب ہوجاتا ہے اوربچے کو صبح روتے دھوتے سکول کے گیٹ پر چھوڑ کر
سکھ کا سانس لیتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی ذمہ داری ختم ہوگئی ہے اور
اَب سکول ہی اس کی تربیت کا ذمہ دار ہوگا۔ حالاں کہ ماں کی گود بچے کی
اولین درس گاہ ہوتی ہے اور آج تک تربیت کے لحاظ سے اس کی کوئی متبادل درس
گاہ دنیا میں نہیں بنی ہے۔ سکول پر بھروسہ کرنے والے والدین بعد میں بچوں
کی تربیت کے حوالے سے زیادہ نالاں نظر آتے ہیں۔ کسی سے پوچھو تو یہی بتائے
گا کہ اُن کے بچے حد سے زیادہ ضد اور تنگ کرتے ہیں، وہ نافرمان اور باغی پن
کا شکار ہوتے جارہے ہیں ، اپنی من مانی کرتے ہیں اور بڑوں کا کہا نہیں
مانتے ہیں۔ جواب میں دوسرا شخص کہے گا کہ ابھی تو بچے ہیں ۔ اس عمر میں
ایسا نہ کریں تو کب کریں گے۔ جوں جوں بڑھے ہوتے جائیں گے تو خود سدھر جائیں
گے۔ اکثر والدین ایسی تسلیاں سن کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور دل ہی دل میں یہ
تسلیم کر لیتے ہیں کہ ابھی تو بچے ہیں ، بڑے ہوکر اُن کی عادات ٹھیک ہو
جائیں گی ۔ یہ وہ غلطی ہے جو اکثر والدین کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے کوئی سیانا
بتائے کہ بغیر محنت و مشقت کے کوئی کام خود بخود ہو سکتا ہے ؟تو بچے خود
بخود کیسے سدھر جائیں گے ؟ بقول شاعر ۔ ’’ رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس
جانے کے بعد ‘‘۔ پس یہ ایک ایسی بات ہوگی کہ ہانڈیہ چولہے پر چڑھائی اور
بغیر چولہا جلائے پک گئی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک آگ کی تپش ہانڈیہ کو
میسر نہ ہوگی اُس وقت تک ہانڈیہ کا پکنا محال ہے۔ پس ایک ہانڈیہ بغیر چولہا
جلائے نہیں پک سکتی تو ایک جیتا جاگتا انسان بغیر محنت و مشقت کے کیسے
تربیت کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے۔ لہٰذا والدین کو بچوں کی تربیت کے معاملے
میں بالکل لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بچوں کی
اعلیٰ و بہترین تربیت اُن کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہاں یہ بتانا چلوں کہ
بچوں کی تربیت کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ والدین یا بڑے اس کو نہیں کرسکتے
ہیں۔ ہم جتنی دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان ادوار میں
خواتین تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود بھی بچوں کی تربیت بہترین خطوط پر
کرتی تھیں۔ وجہ ، وہ اس کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتی تھیں جب کہ آج کل
معاملہ اس کے برعکس ہے،ہم یہ ذمہ داری سکولوں پر ڈال دیتے ہیں اور خود کو
اس سے بری الذمہ خیال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ بچوں کی
تربیت کوئی مشکل کام نہیں ہے لہٰذا اس کو چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش
کرتے ہیں۔
مثال نمبر ۱، اکثر چھوٹے بچے جوتے اُلٹے پہنتے ہیں ، یعنی دائیں پاؤں والا
بائیں اور بائیں والا دائیں پاؤں میں۔ والدین اور گھر والے اُن کو بہت
سمجھاتے ہیں لیکن اُن کی یہ عادت ٹھیک نہیں ہوتی ۔ بعض دفعہ نوبت ڈانٹ پٹ
اور مار تک آجاتی ہے کیوں کہ بار بار سمجھانے سے والدین اور گھروالے تنگ
آجاتے ہیں۔ بچوں کی اس عادت کو ٹھیک کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ والدین
اُن کے لئے بیڈ روم سے باہر یا بیڈ کے پاس جوتے سیدھے رکھیں تاکہ جب وہ
پہنیں تو وہ سیدھے ہوں گے۔ اس کے علاوہ بچوں کو کہیں کہ جوتے اتارتے وقت
اِدھر اُدھر نہ پھینکیں بلکہ سیدھے اُتاریں۔ چند دنوں میں بچوں کی اُلٹے
جوتے پہننے کی عادت ٹھیک ہوجائے گی۔
مثال نمبر ۲ ، اکثر والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بچوں کی نیند پوری نہیں
ہوتی۔ اس کی بنیادہ وجہ بچوں کا کمپیوٹر ، موبائل فون ، ٹیبلیٹ یا دیگر
الیکٹرانک گیجیٹ کا بے تحاشہ استعمال ہے۔ وجہ ، والدین خود ٹی وی ڈارمے
دیکھتے ہیں یا موبائل فون پر مصروف ہوتے ہیں اور بچوں کو چپ رہنے کی غرض سے
موبائل فون یا ٹیبلیٹ وغیرہ تھما دیتے ہیں جس پر وہ رات دیروں تک کھیلتے
رہتے ہیں اور یوں نیند کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کا سادہ حل یہ ہے کہ
والدین رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اُٹھنے کی عادت ڈالیں، رات کو دیر تک
موبائل فون یا ٹی وی دیکھنے سے گریز کریں اورخود جلد سونے کے ساتھ ساتھ
بچوں کوبھی جلد سونے کی ہدایات دیں۔
مثال نمبر ۳، آج کل مارکیٹوں میں کولڈ ڈرنکس اور انرجی ڈرنکس کی بھرمار
پائی جاتی ہے اور اکثریت بچوں کی یہی ڈرنکس پینے کی عادت بن جاتی ہے ۔
والدین اُن کے لئے دودھ یا فریش جوس بناکر دیتے ہیں لیکن بچے یہ نہیں پیتے
۔ ایسی صورت حال میں والدین کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، انہیں چاہیے
کہ کولڈ ڈرنکس وغیرہ میں دودھ ملا کر دیں یا دودھ میں جام شیریں یا روح
افزا ڈال کر دیں تاکہ بچوں کو ذائقے میں تبدیلی محسوس ہو۔ اُمید ہے چند
دنوں میں اُن کی دودھ پینے کی عادت بن جائے گی۔اسی طرح اکثر بچے گھر کے
کھانے اور پکوان نہیں کھاتے بلکہ جنک فوڈ شوق سے کھاتے ہیں۔ایسی صورت میں
بچوں میں مسلسل یہ شعور پیدا کیا جائے کہ گھر کے کھانوں کے کیا فوائد ہیں
اور جنک فوڈ کے کیا نقصانات ہیں۔
مثال نمبر ۴، اکثر والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بچہ ہوم ورک میں کرنے میں
دل چسپی نہیں لیتا ہے۔ اَب اس معاملے میں بعض والدین کو دیکھا گیا ہے کہ وہ
جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں، یعنی وہ بچوں سے کہتے ہیں کہ فلاں چیز خرید کر دیں
گے لیکن پہلے ہوم ورک مکمل کر لو، آخر کب تک جھوٹ کا سہارا لے کر بچوں سے
ہوم ورک کروایا جاسکتا ہے ؟ یوں جھوٹ بولنے کے منفی اثرات نہ صرف بچے کی
شخصیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اس کی عادت میں شامل ہوجاتے ہیں اور پھر وہ
اپنے گھر والوں اور ساتھیوں سے بڑی عمدگی کے ساتھ جھوٹ بولنا شروع کر دیتا
ہے۔ لہٰذا والدین کو جھوٹ بولنے سے گریز کرنا چاہیے اور اُنہیں بچے کو ہوم
ورک کرنے پر آمادگی کے دیگر آپشنوں پر غور کرنا چاہیے جیسا کہ اگر بچہ
انگریزی کے ہوم ورک سے کترا رہا ہے تو پہلے اس سے ڈرائنگ یا کوئی دوسرا ہوم
ورک کروایا جائے، یعنی بچوں کے اندر ہوم ورک کرنے کے لئے آمادگی پیدا کی
جائے۔
اُمید ہے کہ ان چند مثالوں سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بچوں کی تربیت
کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ والدین کی تھوڑی سے محنت و مشقت اور حکمت بچوں
کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
|