تہذیبوں کا دریا اور گندھارا کا ساحل
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
تہذیبوں کا دریا اور گندھارا کا ساحل ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تہذیب جنوبی ایشیا کی قدیم تاریخ کا وہ درخشاں باب ہے جس نے صدیوں تک علم، فن، مذہب، اور کلچر کے متنوع رنگوں کو ایک ہم آہنگ وحدت میں سموئے رکھا۔ اس تہذیب کی جڑیں تقریباً پانچویں صدی قبلِ مسیح تک پہنچتی ہیں، جب وادیٔ کابل، وادیٔ سوات، پشاور، ٹیکسلا، اور گومل کے علاقے علمی و تجارتی سرگرمیوں کے مرکز بننے لگے۔ جغرافیائی طور پر گندھارا ایک نہایت زرخیز وادی تھی جو شمال میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں، جنوب میں دریائے سندھ کے کناروں، مغرب میں افغانستان، اور مشرق میں پنجاب کے میدانی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس خطے کا محلِ وقوع نہ صرف قدرتی وسائل کے اعتبار سے اہم تھا بلکہ ثقافتی و تمدنی تبادلے کے لحاظ سے بھی مرکزی حیثیت رکھتا تھا، کیونکہ یہی علاقہ قدیم شاہراہِ ریشم (Silk Route) کے سنگم پر واقع تھا جہاں سے تجارت کے ساتھ ساتھ خیالات، مذہبی عقائد، اور فنی روایات کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ گندھارا کا تاریخی پس منظر کئی سلطنتوں کے عروج و زوال سے وابستہ ہے۔ ابتدا میں یہ علاقہ ایرانی سلطنتِ ہخامنشی کے زیرِ اثر آیا، پھر سکندرِ اعظم کی فتوحات کے نتیجے میں یونانی اثرات یہاں پہنچے۔ بعد ازاں موریہ، یونانی-باختری، ساکا (Scythian)، پارتی، اور کُشن سلطنتوں نے اس خطے پر حکومت کی۔ ہر دور نے اپنے سیاسی اور کلچریائی اثرات چھوڑے جنہوں نے گندھارا کی تہذیب کو ایک منفرد بین الثقافتی شناخت عطا کی۔ خاص طور پر کُشن دور، خصوصاً بادشاہ کنیشک (Kanishka) کے زمانے کو گندھارا کی تہذیبی و فنی ترقی کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ کنیشک نے بدھ مت کو سرکاری سرپرستی فراہم کی اور گندھارا کو بدھ متی تعلیم، فلسفے، اور آرٹ کا مرکز بنا دیا۔ گندھارا کا تہذیبی پس منظر اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں مختلف تہذیبوں، نسلوں، اور مذاہب کے درمیان ایک غیر معمولی ثقافتی امتزاج پیدا ہوا۔ ایرانی فنون کی ظاہری نزاکت، یونانی مجسمہ سازی کا کلاسیکی توازن، ہندوستانی روحانیت، اور وسطی ایشیائی آرائشی طرزِ تعمیر مل کر ایک ایسا فکری و جمالیاتی میل جول پیدا کرتے ہیں جسے آج “گریکو-بدھسٹ آرٹ” (Greco-Buddhist Art) کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہی وہ فن ہے جس میں بدھ کی مورت یونانی خداؤں کے انداز میں، مگر ہندوستانی فلسفے کے روحانی مفہوم کے ساتھ تراشی گئی۔ یہ ثقافتی میل جول گندھارا تہذیب کی فکری وسعت اور ہم آہنگی کی علامت ہے، جس نے مشرق و مغرب کے درمیان ایک فکری پل قائم کیا۔ گندھارا کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے گزرنے والے قافلے چین، وسطی ایشیا، ایران، اور ہندوستان کے درمیان تجارت اور مذہبی رسوخ کے وسیلہ تھے۔ انہی راستوں کے ذریعے بدھ مت کے مبلغین چین، کوریا، تبت، اور جاپان تک پہنچے، جہاں گندھارا کے فکری و فنی اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹیکسلا، جو اس تہذیب کا علمی و تعلیمی مرکز تھا، اُس زمانے کی ایک بین الاقوامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا، جہاں مختلف ممالک کے طلبہ مذہب، فلسفہ، طب، اور سیاست کے علوم حاصل کرتے تھے۔ اس درس و تدریس نے گندھارا کو علم و دانش کا محور بنا دیا۔ تہذیبی لحاظ سے گندھارا میں مذہبی رواداری اور ہمزیستی کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ یہاں بدھ مت، ہندو مت، زرتشتیوں، اور بعد ازاں ابتدائی عیسائیت کے پیروکار بھی آباد تھے۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان علمی مکالمہ، فکری برداشت، اور باہمی اثر و قبولیت نے گندھارا کی معاشرت کو متوازن اور ترقی یافتہ بنایا۔ بدھ مت کے ساتھ ساتھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی علامتی نمائندگی بھی گندھارا آرٹ میں ملتی ہے، جو اس تہذیب کی فکری وسعت اور برداشت کی عکاسی کرتی ہے۔ گندھارا کی تمدنی ترقی کا ایک اہم پہلو اس کا معاشی نظام تھا۔ یہاں کے کاریگر اپنی فنی مہارت کے باعث مشہور تھے۔ پتھر، سٹوکس، مٹی، اور دھات کے مجسمے، سکے، زیورات، اور برتن گندھارا کے ہنر کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ تمام اشیاء نہ صرف مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں بلکہ تجارتی سامان کے طور پر بھی مشرق و مغرب کی منڈیوں تک پہنچتی تھیں۔ ان فنون نے گندھارا کی معیشت کو استحکام بخشا اور اس کلچر کو ایک پائیدار بنیاد فراہم کی۔ سیاسی لحاظ سے گندھارا مختلف سلطنتوں کے زیرِ اثر رہا لیکن ہر دور میں اس کی ثقافتی شناخت قائم رہی۔ یہی تسلسل اس بات کی علامت ہے کہ گندھارا کی تہذیب محض کسی سلطنت کی پیداوار نہیں تھی بلکہ ایک ایسی فکری و روحانی روایت تھی جس نے ہر تبدیلی کو اپنے اندر جذب کر کے خود کو مزید مضبوط کیا۔ عصرِ حاضر میں گندھارا کے آثارِ قدیمہ مثلاً ٹیکسلا، سری کپ، سوات، اور جولیان کے آثار عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر محفوظ کیے گئے ہیں۔ یونیسکو (UNESCO) نے ان مقامات کو "ورلڈ ہیریٹیج سائٹس" میں شامل کیا ہے تاکہ اس قدیم تہذیب کے فکری، فنی، اور روحانی ورثے کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ان آثار کی کھدائی سے حاصل ہونے والے مجسمے، سکے، اور معبد اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ گندھارا محض ایک علاقہ نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا — ایک ایسا نظریہ جو انسانیت، علم، اور ہم آہنگی پر مبنی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ یوں گندھارا کا تاریخی تعارف، جغرافیائی وسعت، اور تہذیبی پس منظر ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ یہ تہذیب جنوبی ایشیا کی فکری تاریخ میں نہ صرف ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس نے بین الثقافتی تعلقات کی ایک نئی بنیاد فراہم کی۔ گندھارا کے فکری و جمالیاتی اثرات آج بھی انسانیت کے مشترکہ ورثے کے طور پر زندہ ہیں، جو ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ تہذیبیں طاقت کے زور پر نہیں بلکہ علم، رواداری، اور تخلیق کے امتزاج سے زندہ رہتی ہیں۔ |
|