فصلیں ،قرض اور آنسو
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
فصلیں ، قرض اور آنسو ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ پاکستان ایک خالصتاً زرعی ملک ہے جس کی معیشت کی بنیاد زراعت پر قائم ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی براہِ راست اسی شعبے سے وابستہ ہے، اور گندم، گنا، چاول، کپاس اور مکئی جیسی دیگر فصلیں نہ صرف غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں بلکہ قومی آمدنی میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ تاہم، گزشتہ چند برسوں میں موسمیاتی تبدیلی، بار بار آنے والے سیلاب، اور غیر مؤثر حکومتی پالیسیوں نے اس مستحکم زرعی نظام کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ نتیجتاً معیشت، کسان اور غذائی تحفظ تینوں خطرے کی زد میں آ گئے ہیں۔ حالیہ سیلابی صورتحال نے پنجاب سمیت پاکستان کے بیشتر زرعی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں، جس سے گندم، گنا، چاول اور مکئی جیسی اہم فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں کسانوں کی سال بھر کی محنت ضائع ہوئی، زمین کی زرخیزی متاثر ہوئی، اور مویشیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہونے سے دیہی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا۔ زرعی ماہرین کے مطابق حکومتی پالیسیوں کی ناکامی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ حکومتی اعلانات اور دعوے نمائشی ثابت ہو رہے ہیں۔ فصلوں کی تباہی کے باوجود کسانوں کو ریلیف دینے کی بجائے ان پر اضافی معاشی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے چھوٹا کسان ان اشیاء کی خریداری سے قاصر ہے۔ ادھر مارکیٹ میں آڑھتیوں اور مافیا نے مصنوعی بحران پیدا کر کے زرعی اجناس کے نرخ نیچے گرا دیے ہیں۔ گندم، گنا اور چاول جیسی فصلوں کی قیمت اس حد تک کم کر دی گئی ہے کہ کسان کو اپنی فصل کی لاگت بھی واپس نہیں ملتی۔ شوگر مل مالکان ایک منظم مافیا کی صورت میں سامنے آئے ہیں جو حکومت کی سرپرستی میں گنے کی خریداری میں تاخیر، نرخوں میں من مانی کمی، اور ادائیگیوں میں طویل تاخیر کے ذریعے کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ گندم کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ حکومتی خریداری کے وعدے عملی طور پر پورے نہیں ہو رہے، جبکہ بلیک مارکیٹ میں ذخیرہ اندوزی عروج پر ہے۔ نتیجتاً کسان مایوسی اور مالی بحران کے دائرے میں پھنس گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے متعارف کردہ اسکیمیں جیسے "کسان کارڈ"، "مویشی پال کارڈ" اور "سبسڈی پر ٹریکٹر اسکیم" محض نمائشی اقدامات ثابت ہو رہی ہیں۔ ٹریکٹر اسکیموں میں معیار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور کسانوں کو گھٹیا کوالٹی کے ٹریکٹر فراہم کیے گئے ہیں۔ جس پر کسانوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ لائیو اسٹاک کے شعبے میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں۔ دیہی معیشت کے اس اہم ستون کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال اور ویکسینیشن کے لیے تعینات سرکاری ملازمین اکثر فائل ورک تک محدود رہتے ہیں، عملی سطح پر ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس غفلت نے دیہی علاقوں میں دودھ، گوشت اور دیگر پیداوار کو بھی متاثر کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اگر واقعی زراعت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے تو اسے نمائشی پالیسیوں کے بجائے عملی، شفاف اور زمینی حقائق پر مبنی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ کسان کو وعدوں اور کارڈز سے نہیں بلکہ بروقت امداد، منافع بخش نرخوں، اور منڈی کے استحکام کے ذریعے سہارا دیا جا سکتا ہے۔ شوگر مافیا، آڑھتیوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی، کھاد و بیج کی قیمتوں پر کنٹرول، اور متاثرہ علاقوں میں مفت بحالی پروگرام وہ اقدامات ہیں جن سے پاکستان کی زراعت دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر، کسانوں کا اعتماد ختم ہوتا چلا جائے گا، اور زرعی معیشت مستقل زوال کا شکار رہے گی۔
|
|