نکاح،،مضبوط مگر کمزور بندھن
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
شادی ایک ایسا رشتہ ہے جو دو انسانوں کو نہیں بلکہ دو خاندانوں اور دو نسلوں کو جوڑتا ہے۔ اسلام میں اسے نصف ایمان کہا گیا ہے مگر افسوس کہ آج یہی رشتہ سب سے زیادہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ ملک جو کبھی حیا، غیرت اور خاندانی اقدار کی علامت تھا، وہاں اب ازدواجی بگاڑ ایک عام رویہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان شماریاتی بیورو اور فیملی کورٹس کے مطابق 2010 میں طلاق کے تقریباً بیس ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جو 2024 تک اسی ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور فیصل آباد میں روزانہ درجنوں کیسز دائر ہوتے ہیں، جبکہ ہزاروں جوڑے ایسے بھی ہیں جو قانونی طور پر علیحدہ نہیں ہوئے مگر عملی طور پر ایک ساتھ نہیں رہتے۔ اس بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے لا علمی ہے۔ نکاح کو عبادت کہا گیا ہے مگر ہم نے اسے ایک رسم بنا دیا ہے۔ شادی سے پہلے نہ لڑکوں کو تربیت دی جاتی ہے نہ لڑکیوں کو، کہ ازدواجی زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ نہ شوہر جانتا ہے کہ بیوی کے کیا حقوق ہیں اور نہ بیوی یہ سمجھتی ہے کہ شوہر کے ساتھ نباہ کے لیے صبر، برداشت اور قربانی کتنی ضروری ہے۔ قرآن کہتا ہے “اور ان کے ساتھ بھلائی کے ساتھ زندگی بسر کرو” مگر یہ آیت صرف نکاح کے خطبے تک محدود کر دی گئی ہے۔ آج شادی ایمان اور اخلاص پر نہیں بلکہ دولت، حیثیت اور سٹیٹس پر ہوتی ہے۔ لڑکی کے لیے جہیز معیار ہے، لڑکے کے لیے گاڑی اور بنگلہ۔ محبت اور دین کی جگہ دولت نے لے لی ہے۔ جب مالی یا سماجی توازن بگڑتا ہے تو رشتہ بھی بکھر جاتا ہے۔ اکثر والدین اپنی پسند مسلط کرتے ہیں۔ اولاد کی مرضی کو نافرمانی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے رشتے جہاں دلوں میں ہم آہنگی نہ ہو، وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج پسند کی شادیوں میں بھی طلاق کی شرح ارینج میرج سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر پسند کی شادیاں جذبات میں ہوتی ہیں مگر عملی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا نہیں کر پاتیں۔ خواب جب حقیقت سے ٹکراتے ہیں تو محبت نفرت میں بدل جاتی ہے۔ میڈیا اور مغربی ثقافت نے شادی کے بارے میں غیر حقیقی تصورات پیدا کیے ہیں۔ ڈراموں اور فلموں میں مثالی شوہر یا بیوی دکھائے جاتے ہیں اور جب حقیقی زندگی میں وہ خواب پورے نہیں ہوتے تو دلوں میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اسلام نے ازدواجی زندگی کو سکون، محبت اور ذمہ داری کا مجموعہ کہا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا کہ “اور اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ۔” مگر آج یہ سکون کہیں کھو گیا ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لباس بننے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ جب رشتے سے صبر، برداشت اور ادب رخصت ہو جائے تو محبت بھی باقی نہیں رہتی۔ شادی سے پہلے تربیت اس لیے ضروری ہے کہ رشتہ صرف دو دلوں کا نہیں بلکہ دو ذمہ داریوں کا ہے۔ لڑکے کو سکھانا چاہیے کہ بیوی کے حقوق، غصے پر قابو اور مالی ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ لڑکی کو سکھانا چاہیے کہ شوہر کا احترام، گھر کی فضا میں نرمی اور برداشت کیسے پیدا کی جاتی ہے۔ بغیر تربیت کے شادی ویسی ہی ہے جیسے بغیر بنیاد کے عمارت۔ جب رشتہ ٹوٹتا ہے تو صرف دو لوگ نہیں ٹوٹتے، پورا خاندان بکھر جاتا ہے۔ اسکولوں میں ازدواجی زندگی اور تعلقات پر آگاہی پروگرامز ہونے چاہئیں تاکہ نئی نسل کو سمجھایا جا سکے کہ شادی صرف جذبہ نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ مثالی خاندانی اقدار دکھائے، نہ کہ جھگڑوں اور علیحدگی کو عام کرے۔نکاح سے پہلے دینی بنیادوں پر ایک تربیتی کورس ہونا چاہیے جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں ازدواجی زندگی کے اصول سکھائے جائیں۔ جب نوجوان نسل یہ سیکھ لے کہ برداشت، احترام، محبت اور قربانی ہی کامیاب زندگی کی کنجیاں ہیں تو معاشرہ خود بخود مستحکم ہو جائے گا۔ شادی ایک مقدس بندھن ہے، جو چٹان کی طرح مضبوط اور ریشم کی طرح نازک ہے۔ اگر ہم اللہ کے احکامات اور نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں تو نہ گھر ٹوٹیں گے نہ دل۔ حضور ﷺ نے فرمایا: “تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔” طلاق کی اصل وجہ محبت کی کمی نہیں بلکہ اللہ کے حکموں سے غفلت ہے۔ جب رشتہ ایمان، خلوص اور برداشت پر قائم ہوتا ہے تو زندگی جنت بن جاتی ہے، اور جب انا، ضد اور سٹیٹس کے نام پر کھڑا ہوتا ہے تو جنت کا رشتہ بھی جہنم بن جاتا ہے۔ |