عید کی آمد اور آخرت !

دنیا بھر کے انسان خاص طور پر پاکستانی عوام ’’ کوروناوائرس ‘‘ کی وباء کے میں خوف میں مبتلا ہیں۔ ماہ ِرمضان کا مقدس ماہ اپنی رحمتوں برکتوں کے ساتھ رخصت ہونے کے قریب ہیں ۔ کوروناوائرس کی وجہ سے ’’ حکومت نے رمضان ‘‘ بازار اس سال نہ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جو بہت اچھا فیصلہ ہے کیونکہ ہر ذی باشعور جانتا ہے کہ ’’ رمضان بازر ‘‘ صرف دیکھاوا ہوتا ہے۔ اشیاء خوردونوش سستی نہیں بلکہ غیر معیاری ہوتی تھیں ۔ اور پھر ’’ اربوں روپے سبسڈی کی نظر ہوجاتے تھے۔ پچھلے سال بھی میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ الحمدﷲ’’ ہم مسلمان ہیں ‘‘ اور ہر مسلمان اپنی اپنی ذکوٰۃ خیرات صدقات کے ذریعے اپنی حثیت کے مطابق ’’ سفید پوش اور غریب ‘‘ لوگوں کی مدد کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔ہر جگہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو انفرادی طور پر اور ’’ این جی اوز‘‘ کے نام پر ماہانہ راشن ۔ رمضان پیکج اور عیدپیکج کے نام پر ظاہری طور پر اور خفیہ طور پر (غریبوں یتیموں اور سفید پوش طبقہ ) مدد کرتے ہیں ۔اﷲ پاک ہر مدد کرنے والے کی مدد کو قبول فرما کر اجرعظیم عطا فرمائے

اس سال 2020 ’’ کوروناوائرس ‘‘ کی وجہ سے تمام شعبہ زندگی کے افراد متاثر ہوئے ہیں ۔ صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ فاقہ کشی اور جسم فروشی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔کیا کسی نے غور کیا ہے ؟ کہ مثلاً ایک گھر میں 8 افراد ہیں ، 10 دس کلو آٹا یا بیس کلو آٹا کا تھیلا تا ۔۔۔۔کیا 8 افراد کا کنبہ ایک ماہ استعمال کر سکتا ہے ؟ہرگز نہیں ایک ماہ میں 30 دن ہوتے ہیں تو آٹازیادہ سے زیادہ ہفتہ عشرہ کے دن ہی نکالے گا۔ صرف آٹا ہی نہیں جو جو روشن پیکج تقسیم کئے جاتے ہیں ان میں جو جو اشیاء شامل ہیں سب کا ’’ آٹا ‘‘ جیسا‘‘ ملتا جلتا حال ہے۔ کیونکہ NGOS میں ایک تعداد کا مقابلہ والہ رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ اے بی سی والوں نے 100 گھرانوں کو راشن پیکج دیا ہے تو ایکس وائی زیڈ والی این جی او 200 گھرانوں کو روشن پیکج دے گئی۔ اس چیز کا نقصان نہیں ہے لیکن مقاصد بھی پورے نہیں ہوتے۔

این جی اوز کی مجبوری اپنی جگہ ہے کیونکہ انہوں نے مخیر حضرات حکومتی سرکاری نیم سرکاری اداروں سے فنڈز ( عطیات صدقات زکوٰۃ فطرانہ خیرات ) وصول کرنے ہوتے ہیں اور تعداد سے کارکردگی خصوصاً سوشل میڈیا سے ظاہر کر کے اپنے پراجیکٹس مکمل کرنے ہوتے ہیں ۔ اور یہ کام ہر کسی کے بس کا نہیں ہوتا کیونکہ کسی کیجیب سے پیسہ نکلوانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ! ایسے لوگوں (NGOs )کو خراج ِ تحسین پیش نہ کرنا بخل اور کنجوسی ہے اگر اﷲ پاک نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے۔ تو اس کی ذات پر اﷲ پاک کا بہت بڑا کرم ہے۔ اور جن مخیر خواتین و حضرات کو اﷲ تعالیٰ نے سفید پوشوں اور غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق یا سوچ دی ہے تو وہ بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ’’ دنیا کے ساتھ آخرت ‘‘ کی کامیابی کا سامان بھی ( اُن کے لئے )مہیا کر دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسے مخیر خواتین و حضرات کو شیطان کے بہکاوے اور چاپلوسی اور مالشیوں سے بچ کر خودغوروغوض کرنا ہوگاتاکہ کسی حقددار کی حق تلفی نہ ہو۔یہاں یہ امر قابل ذِکر ہے کہ ہر شہر قصبہ اور گاؤں کے ہر محلہ گلی وارڈ کے غریبوں یتیموں کی لسٹ بنی ہوتی ہے۔ تقریباً ہر این جی اوز حکومتی ادارے اور مخیر حضرات اسی لسٹ کے مطابق اپنے اپنے بجٹ کے تحت جہاں تک ہوا وہاں تک مدد کر دی ۔شاباش بہت خوب !

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیالسٹ میں سارے حقدار ہیں ؟ تو جواب یہی ہوگا نہیں ! اگر سوال ہو کہ لسٹوں کے علاوہ بھی حقدار ہیں ؟ جواب ہوگا بہت سے حقداروں کا اندراج لسٹ میں موجود نہیں ۔ سوال پھر یہ لسٹوں کا فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

جب ایسی لسٹیں مرتب ہوتی ہے تو’’ خوف خدا یا اﷲ کی رضا ‘‘ کے علاوہ لوگوں کی پسند اور ناپسند کو مدنظر رکھ کر مرتب کی جاتیں ہیں ۔ مخیر حضرات سے گزارش ہیں لسٹوں اور چمچوں سے ہٹ کر اپنے ’’ دل و دماغ ‘‘سے لسٹ بنائی جائے اور اس میں ایسے سفید پوش بھی شامل کیئے جائیں جو بظاہر کاروبار کرتے ہیں مگر ان کے مالی اخراجات انکی آمدن سے زیادہ ہیں ۔ ایسے لوگوں کی مدد سے جسم فروشی ، ریاکاری ۔ اور سود کی لعنت سے چھٹکارہ دلانے والوں میں ’’ آپ کا نام ‘‘ بھی شام ہو جائے گا ایسا کرنے سے’’ صدقہ جاریہ اور جہاد کا ثواب‘‘ملے گا۔ کیونکہ دین اسلام میں سود حرام ہے۔ اور کوئی سفید پوش مجبوری معذوری کے باعث سود والوں کے ہتھ چڑھنے سے بچ جائے گا۔ اور یہ بہت بڑا ’’ غربت اور سود ‘‘ کے خلاف جہاد ہے۔

اس نیک کام کی ابتدا کا یہی وقت ہے ماہ مقدس ایک نیکی کے بدلے 70 نیکیاں اور ماہ مقدس کا آخری عشرہ ’’ جہنم سے آزادی ‘‘ کا پروانہ جاری ہوتا ہے۔ نئے رنگ برنگے کپڑے بچوں کی مسکراہٹ خوشیاں کا سبب بنتے ہیں اور وہ بھی عیدکے موقع پر’’ عید پیکج کا اعلان ‘‘ اچھا شگون ہے مگر ہمیں پیکج کی بجائے گھر گھر جاکرعزت و احترام کے ساتھ غریبوں اور سفید پوشوں کی مالی مدد کرنی ہوگئی تاکہ غریبوں کے گھر ’’ خوشی کے موقع پر ماتم ‘‘ کی صفیں نہ بچھیں ۔۔۔ کیونکہ بچے تو بچے ہوتے ہیں انہیں امیری غریبی سے فرق نہیں بس نئے کپڑے جوتے محلہ داروں کی طرح چاہیے ہوتے ہیں۔ اور اگر ہماری وجہ سے عید کے موقع پر بچے خوش ہو گئے تو اﷲ پاک کے پیارے نبی خاتم النبیین ﷺ خوش ہونگے۔ اگر ہماری کاوش سے اﷲ تعالیٰ کے محبوب ﷺ (غریب بچوں ) کی مدد کرنے سے مسکرائے تودنیا اور آخرت کی کامیابی کی گرانٹی ہے۔
 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 346889 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.