کتاب: 15 پُراسرار کہانی

تبصرہ:حذیفہ اشرف عاصمی

تخلیق کار کا انگریزی،اردو یا کسی بھی زبان میں بہت اہم کردار رہا ہے. بلاشبہ قلم سے بڑے بڑوں کو سدھارا بھی گیا ہے اور مات بھی دی گئی ہے۔

مجھے کہانیاں پڑھنا اور سننا بچپن سے ہی اچھا لگتا ہے۔مگر جب بات خوفناک کہانیوں کی آتی ہے تو سُنانے والا چاہے کتنے ہی میٹھے لہجے میں کیوں نہ سنا رہا ہو انسان خوف میں مبتلا ہو ہی جایا کرتے ہیں۔
میرے خیال میں سب سے مشکل کام ڈراؤنی کہانی لکھنا ہے کیونکہ پڑھنے والوں کو ایک ایسے ماحول میں لے کر جانا ہے جہاں حقیقت میں انسان کبھی نہیں گیا ہوتا. پھر قاری کو اس ماحول کا حصہ اس طرح بنا دینا کہ قاری اپنے گرم بستر میں لیٹا خود کو روحوں کے کسی قدیم کھنڈر میں مقید محسوس کرے.قاری کے رگ و پے میں ایسا خوف ڈر وحشت بھر دینا کہ اسکو ہر آہٹ پر کسی سر کٹی لاش یا بھٹکی روح کا تاثر ملے. انسان کے پڑھتے پڑھتے رونگٹے کھڑے ہو جائیں وہ اپنے گھر میں اپنے کمرے میں ہی کسی انجانے خوف میں مبتلا ہو جاؤ.

اس حد تک انسان کے حواس پر ہر کہانی یا کتاب نہیں چھا سکتی. بلکہ اس کے لئے قلم میں جان اور تخیل کی پرواز بلند ہونا لازم ہے. فلک زاہد کے ہاں یہ تمام تاثرات محسوسات انسان کو باخوبی ملتے ہیں. یہی فلک کے قلم کی خوبی اور حسن ہے.ہر پڑھنے والا ان کے قائم کردہ خیالی خوفناک ماحول کا حصہ بن کر ان کی کہانیاں سہما سہما پڑھتا بھی چلا جاتا ہے اور ڈرتا بھی چلا جاتا ہے.

میری نظر میں خوفناک کہانیاں لکھنا زیادہ مشکل کام اس لیے بھی ہے کہ۔انسان کے وجود و روح کو ہلا کر رکھ دینا کوئی آسان کام نہیں۔مگر آج میں ایک ایسی کتاب پر تبصرہ پیش کر رہا ہوں جسے پڑھنے میں مجھے وقت لگا اسکی خاص وجہ یہ تھی کہ خوفناک کہانیوں کو پڑھنے کے لئے مجھے حوصلہ و ہمت لانے کے ساتھ ساتھ کسی کے پاس بیٹھنا بھی پڑتا تھا۔اکیلے میں یہ پڑھنا ممکن نہ تھا۔میں بات کر رہا ہوں '' 15پُراسرار کہانیوں '' کی.اس کتاب کی مصنفہ کا نام ''فلک زاہد'' ہے۔یہ کتاب پُراسرار جزبوں اور خوف سے بھری ہوئی ہے۔اﷲ پاک نے اس لکھاری کے قلم میں اثر رکھا ہے۔ اس پر اپنا خاص کرم کیا ہے کیونکہ اسی کے چاہنے پر ہی انسان کوئی کام کر سکتا ہے۔جب بات انسان کے اپنے شوق اور جنون کی آجائے تو وہ کر گزرتا ہے۔

انکی ایک کہانی کو پڑھنے کے بعد انسان کئی دنوں تک اسی کہانی میں گُم رہتا ہے جیسے کہ وہ کوئی حقیقت ہو۔

محترمہ نے چھوٹی سی عمر میں پاکستان کے ادبی حلقوں میں اپنا نام بنا لیا ہے،اور لوگوں کو اپنے دماغ اور قلم کے ذریعے ڈرانا انہی کا خاصہ ہے۔میری ان سے ملاقات بھی ادب کے توسط سے ہوئی۔ان کا اخلاق اتنا اچھا ہے کہ ہر کوئی ان سے پیار سے اور عزت سے پیش آیا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں اچھے دوست بھی ہیں۔محترمہ نے ہمیشہ بڑی بہن بن کر شفقت اور رہنمائی فرمائی ہے۔فیس بک پر جب انکی وال پر سرسری سی نظر پڑی تو حیران ہوا کہ ایک چھوٹی عمر کی لڑکی مصنفہ ہے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب محترمہ کی دو کتابیں منظرِ عام پر آ چکی تھیں۔کچھ عرصہ فیس بک میں ایڈ رہنے کے بعد ایک دن تجسس ہوا کہ کیوں نا ان سے انکی کوئی تحریر یا کوئی کہانی منگوا کر پڑھی جائے۔

جب کہانی آئی اور پڑھنا شروع کیا تو حیران ہوا کہ محترمہ عام لکھاری نہیں ہیں۔انکا خیال پختہ،انکے الفاظ کا چناؤ قابلِ تعریف،سسپنس بَلا کااور منظر کشی کے تو کیا ہی کہنے اُس کہانی کو پڑھنے کے بعد ہارر پڑھنے کا شوق پڑوان چڑھا،ان سے کچھ اور کہانیاں منگوا کر پڑھیں پھر ایک ادبی ورکشاپ میں انہوں نے مجھے اپنی ایک کتاب تحفتاََ پیش کی جو کہ بچوں کی تھی اور اس کتاب کا نام ''بھوتوں کا تاج محل ''ہے۔اس کو بھی پڑھا اور انکی کتاب'' 15 پُر اسرار کہانیاں '' کو بھی خریدا اور پڑھا۔کہانیوں کی جانب بڑھنے سے قبل بتاتا چلوں انکا ایک ناول ''قدیم چرچ '' بھی منظرِعام پر آنے کے لئے تیار ہے۔اور اسکے علاوہ دو کتابیں اور بھی زیرِقلم ہیں جنکا ہمیں شدت سے انتظار ہے۔انسان اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے۔فلک زاہد ایک ایسا نام ہے جسے اب ادبی حلقوں کی جانب سے کروائے گئے سیمینارز اور مختلف پروگرامز میں بطور مہمان بھی بلایا جاتا ہے اور ایوارڈز سے بھی نوازا جاتا ہے۔

پاکستان کا نام روشن کرنے والی فلک زاہد صرف خوفناک کہانیاں ہی نہیں بلکہ کالمز بھی لکھا کرتی ہے اور کبھی حق سچ کے علاوہ لکھنے کا سوچتی بھی نہیں۔مجھ ناچیز کی کتاب میں بھی انکا تبصرہ شامل ہے۔وہ تبصرہ میں نے ان سے بطور لکھاری نہیں بلکہ دوست کی حیثیت سے لیا ہے۔اب بات کر لیتے ہیں اس کتاب میں موجود کہانیوں کی تو محترمہ کی کہانیوں میں موجود کرداروں کے نام ہی متاثر کن ہوتے ہیں۔جیسے ہم اپنی کہانیوں میں ہر بار علی اور اسلم کو ہی لا کر تکلیف دیا کرتے ہیں یہ ایسا نہیں کرتیں بلکہ ہر کہانی کے کردار کا نیا نام ہوتا ہے اور وہ بھی ویسٹرن کیونکہ محترمہ ویسٹرن گانے،انکی فلمیں انکے دلنشین اداکاروں کو بہت پسندکرتی ہیں۔اور وہی چیز انکی کہانیوں میں کئی جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔بلاشبہ لوگوں کو ڈرانے کے ساتھ ساتھ یہ معاشرے کی حقیقت بھی لکھ دیتی ہیں۔ان کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ صرف منظر کشی اور خیال ہی مضبوط نہیں بلکہ کہانی کا نتیجہ بھی سبق آموز ہوتا ہے ہر کہانی میں بہت عمدہ سبق ملتا ہے۔

انسان سوچتا ہے کہ خوفناک کہانیوں میں سبق کہاں سے آگیا تو یہ میں آپ سب پر چھوڑتا ہوں جب آپ یہ کتاب پڑھیں گے آپکو معلوم ہو گا کہ آستین کے سانپ بھی ہوا کرتے ہیں، تب آپکو یہ بھی معلوم ہو گا محبت میں دھوکہ دینے کی سزا کتنی بھیانک ہو سکتی ہے،تب آپ یہ بھی دیکھ پائیں گے کہ دوستوں سے مذاق مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔آپ اس کتاب سے بہت کچھ سیکھیں گے بھی اور لطف اندوز بھی ہونگے۔

مجھے یقین ہے کہ جلد کوئی زہین ذہن پاکستان میں ہارر ادب کو فلمی یا ڈرامائی تشکیل دینے کا بھی سوچے گا اگر ایسا ہوتا ہے تو فلک زاہد کی کئی کہانیاں ایسی ہیں جن کو با آسانی فلمایا جا سکتا ہے. اس سے فلم بینوں کو گھسی پٹی فارمولا فلموں کی جگہ تازہ معیاری آئیڈیاز دیکھنے کو ملیں گے. یہ مٹی بڑی زرخیز ہے بس اس میں سے تراش کر ہیرے نکالنے والا کوئی جوہری چاہیے.

ایک اور بات بتاتا چلوں جب بھی آپ یہ کتاب پڑھیں تو یہ پڑھتے وقت یہ ''بار بار'' ذہن میں لائیے گا کہ یہ کتاب ایک 20 سالہ بچی کی تخلیق ہے بار بار پر ذور اس لئے دیا کیونکہ آپ دورانِ مطالعہ بھول جائیں گے کہ یہ کسی بچی کی تخلیق ہے۔جیسا کہ پہلے کہہ چکا کہ اتنی سی عمر میں لوگوں کو اپنے قلم سے ڈرا دینا فلک زاہد کا ہی خاصہ ہے۔فلک نے اپنی کہانیوں میں رومانوی سین بھی ڈالے ہیں اور بلاشبہ وہ بھی زبردست ہیں۔اگر تو آپ ہارر پڑھنے کے شوقین ہیں تو ضرور پڑھیں اگر نہیں ہیں تو بھی پڑہیں کیونکہ ایک با ر تجربہ لازمی کرنا چاہیے جیسا کہ میں نے کیا اور ابھی تک حوصلہ و ہمت پیدا کر کے پڑھا کرتا ہوں۔اﷲ پاک اس کے علم میں برکتیں عطا فرمائے آمین۔
 

Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 42389 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More