کورونا وائرس نے دنیا کو ہلا کر ر کھ دیا ہے بلکہ اب یہ
دنیا ایک بدلی ہوئی دنیا ہے جس میں سب دوست احباب نہ عزیز رشتے دار چاہتے
ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں شدیدخوف کی ایک لہر ہے جس نے سب
کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے موت کے خوف سے بڑا اور کوئی خوف کیا ہوگا مسلسل
لاک ڈاؤن کی ویرانیاں دیکھ کر دل ڈوب جاتا تھا عید پر بازار وں میں لوگوں
کو خریداری کرتے دیکھا تو جیسے زندگی کا احساس دوبارہ جاگا لوگوں کو
معمولات کی جانب لوٹتے دیکھنا انتہائی دلکش مگر عجیب سا لگ رہا تھا واقعی
زندگی تو نام ہی حرکت کا ہے ،جامد ہو جاناموت کی علامات میں سے ہے حالیہ
دنوں معمول سے ہٹ کر کہیں زیادہ فرصت ملنے کی وجہ سے اپنے اور دوسروں کے
بارے میں بہت کچھ سوچنے کا موقع ملا، اس بات کا بھی شد ت سے احساس ہوا ہے
کہ انسان پر جب ساری دنیا تنگ ہو جائے تب اسکا اپنا گھر ہی اسکی بہترین
پناہ گاہ ہوتا ہے یہی نہیں بلکہ کرونا کی اس دھوم اور چرچے نے ہمارے معاشرے
کے کئی کرداروں کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے جو عام حالات میں اداکاری
مکاری اور عیاری کے ماسک پہنے ہوئے رہتے ہیں اور اپنا اصل چہرہ چھپائے
رکھتے ہیں ان میں وہ ’’ایماں کی حرارت والے‘‘ بھی ہیں جن کا یہ حال تھا کہ
حکومت کی جانب سے عبادات کو محدود کرنے کے پہلے اعلان ہی سے ا ﷲ کے گھر سے
زیادہ خود کو اپنے گھروں میں محفوظ سمجھنے لگ گئے تحقیق اور بہتر معلومات
نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے کورونا وائرس کو طاعون جیسی اچھوت اور انتہائی
مہلک بیماریوں سے موازنہ شروع کر دیا اور اسی تناظر میں دینی احکامات بھی
صادر فرمانے شروع کر دیئے کہ مہلک وباء میں یہ حکم دیا گیا ہے، حالانکہ
کورونا وائرس سے تندرست ہونے والوں کی شرح 98فی صد بتائی جاتی رہی ہے یوں
بھی پاکستان میں اس وبا ء سے بتائی جانے والی ہلاکتیں یہاں تک کہ ٹیسٹ
رپورٹس کی تعداد اور نتائیج تک غیر مصدقہ اور مشکو ک ہیں لیکن حکومت سمیت
تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے و الے ایسے کردار سراسیمگی پھیلاتے اور
لوگوں تک غلط معلومات پہنچاتے نظر آئے کہ کمزور دل والے لوگ خوف سے ہی ادھ
موئے ہو گئے لوگوں میں خوف وہراس پھیلا دینا کورونا سے بھی کہیں زیادہ مہلک
اور جان لیوا ہے ، ابھی تو ویسے بھی کورونا کی حقیقت عیاں ہونا باقی ہے،ہم
چونکہ ایک شدت پسند معاشرے کے باسی ہیں اس لئے ہماری سوچ بھی عام طور پر
اپنے اپنے شعبوں کے ان کورونا نما انسانوں کے لگائے ہوئے دائروں کے اندر ہی
گردش کرتی ہے اسلئے اسکی حقیقت سے قطع نظر کہ کورونا کتنا مہلک ہے ، یہ
قدرتی آفت ہے یا وسائل کے کھیل میں مدمقابل عالمی طاقتوں کی پنجہ آزمائی کا
نیا طریقہ جانے بغیر ہم نے اپنے منہ پر چپیڑیں مار مار کے اسے لال کر لیاہے
کورونا کے بہانے 21ویں صدی کی حکمرانوں نے بھی اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے
لئے اسی پراپیگنڈے کاسہارا لیا ہے اورمیڈیا کا بے دریغ استعمال کیا ہے ، اس
بات سے بالکل قطع نظر کہ ریڈیو ٹی وی پر کوروناسے ہونے و الی ہلاکتوں کی
مسلسل خبروں نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کے رکھ دیا ہے عوام کو ڈرا ڈرا کر
مارنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی گئی بظاہر ہمیں کورونا نظر نہیں آتا
مگر میڈیا پر اسکی تباہ کاریوں ، ہولناکیوں کے قصوں نے ناظرین کو جیتے جی
مار ہی توڈالا ہے ، اس نئی صورتحال نے معاشرے میں انسانی رویوں اور لوگوں
کے چہروں پر پڑے نقاب بھی اُٹھا دیئے ہیں ، عوام نے جان لیا ہے کہ الیکشن
پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دینے والے سیاستدانوں میں سے کون ہے جو اس
مصیبت میں عوام کیساتھ کھڑا ہے ،کاروباری برادری کے ا رب پتیوں میں سے کس
نے ان دنوں بھوک ننگے فاقہ کش مزدوروں کی تنخواہیں بند کیں اور کون سے اﷲ
کے نیک بندوں نے کاروبار بند ہونے کے باوجود اپنے ورکرز کے چولہے ٹھنڈے
نہیں ہونے دیئے ، بعض مذہبی جماعتوں اور این جی اوز نے اس حوالے سے شاندار
خدمات انجام دی ہیں بے شک رز ق دینے کا وعدہ تو رب کا ہے ،ایس او پیز اور
لاک ڈاؤن کے نام پر پولیس نے بھی وہ دھما چوکری مچائی ہے کہ دور غلامی کی
یادیں تازہ ہو گئی ہیں ، ڈبل سواری کے غیر ضروری احکامات پر عملدرآمدکے لئے
عوام کو ناکوں پر ذلیل کر کے پیسے بٹورے جارہے ہیں تاجروں کی دوکانیں بند
کراتے اور کھلواتے پولیس والے شہر کے حاکم ہی توبنے ہوئے ہیں ، صحافیوں کو
کوریج سے روکنا اور ان پر تشدد عام بات بن گئی ہے، تھانوں کے حسن اخلاق سے
عاری بعض ایس ایچ اوز نے اچھے اوردردد دل رکھنے والے پولیس افسران کی بھی
ساکھ مٹی میں ملائی ہوئی ہے ، مہنگائی مافیا کی دیدہ دلیری ہے کہ عید پر
برائلر 460روپے کلو تک بکا ہے عید کے بعد انتظامیہ نے کریک ڈاؤن کیا تو چکن
بیچنے والے ہڑتال پہ چلے گئے ہیں،انہی دنوں معاشرے کے وہ کردار بھی کُھل کر
سامنے آگئے ہیں جو مجبور عورتوں کو راشن کے لئے لائنوں میں کھڑا کر کے انکی
تصویریں بنا نے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے اکثریت تو راشن دیتے وقت بھی
اقربا ء پروری ذات برادری اور حلقہ بندی کو مدنظر رکھتی ہے ایسے لوگوں کوو
اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے ، حالیہ دنوں میں معاشرتی رویوں کی
عکاسی کرتی ہوئی ایک کہانی ہمارے ایک دوست نے بھیجی ہے جسے اسی کی زبانی آپ
سب کے لئے پیش کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اس پڑھ کر ہم اپنے رویوں پر
غور کرسکیں اور اس میں اپنی اصلاح کا پہلو بھی تلاش کرنے کی کوشش
کریں۔’’راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع تھا۔جیسے ہی ایک پرانے مکان پہ نظر پڑی
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہا کہ ساتھ میں آئے محلے کے ایک فرد نے منع کر
دیاپوچھنے پر وہ کہنے لگے صاحب رہنے دیں یہ ایک فحاشہ عورت کا گھر ہے اس کو
بہت جگہ سے راشن آتا رہتا ہے یہ بات سن کر مجھے یقین ہو گیاکہ محلے میں سے
کسی نے بھی اس کو راشن فراہم نہیں کیا ہوگاجیسے تیسے میں نے اس ساتھی سے
بحث کر کے دورازے پہ دستک دی۔۔اندر سے دھیمی سی آواز آئی۔۔۔ کون؟میں نے
بتایا کہ راشن سپلائی کر رہے ہیں آپ لینا پسند کریں گی تو انتہائی غمگین
آواز میں جواب ملا کہ آپ واپس چلے جائیں پہلے ہی اس محلے میں لوگ ہمیں جینے
نہیں دیتے ہم گزارہ کر لیں گے آپ کی مہربانی آپ محلے کے شرفاء میں تقسیم کر
دیں میں نے بضد ہو کر کہا آپ مجھے بھائی سمجھیں محلے داروں کی فکر نہ کریں
بہت اصرار کرنے کے بعداس عورت نے اپنی بیٹھک کا دروازہ کھولا اور ہم نے
راشن آٹے کا تھیلہ وغیرہ اس کے گھر رکھ دیاوہ خود پردے میں آئی اور شکریہ
ادا کرنے لگی۔۔۔ لیکن میرا دل مطمئن نہیں تھا وہ باپردہ عورت لگ رہی تھی
محلے کا فرد بھی میرے ساتھ تھامیں نے جوں توں ہمت کر کے اس سے پوچھ لیاکہ
بہن آپ نے ایسا کیوں کہا اورکیا آپ کے گھر میں راشن موجود ہے۔؟کہنے لگیں
بھائی گھر میں آلو پڑے ہیں جو پچھلے ایک ہفتے سے بنا کے کھا رہے ہیں محلے
میں سے کسی نے خبر تک نہ لی عورتیں میرے گھر نہیں آتیں اب۔۔۔میں نے پوچھا
ایسا کیوں ہے میری بہن ۔۔وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی میرے خاوند کو وفات
پائے 2 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس وقت بہت اچھے حالات تھے۔۔۔میرے 2 بچے ہیں
اور کچھ ٹائم ٹھیک گزرا میرے والد جتنا کر سکتے تھے مددکرتے رہے ان کی وفات
کے بعدحالات خراب ہونا شروع ہوگئے بچوں کا اور گھر کا نظام مشکل ہو گیاایک
دن میرے خاوند کا قریبی دوست کچھ عرصہ بعد باہر سے آیااس نے مجھ سے بہت
افسوس کیا اور مجھے کچھ پیسے دے کر چلا گیاپھر وہ کچھ دن بعد آیا اور مجھے
گھر کا کچھ راشن دے گیادوسری دفعہ لوگوں نے جب میرے دروازے پہ گاڑی کھڑی
دیکھی تو طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں پھر جب وہ واپس بیرون ملک
لوٹنے لگا تو جاتے ہوئے میرے گھر آیا اور کہا بہن یہ میرا نمبر ہے آپ کو
کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اپنے اس بھائی سے کہناکسی سے مانگنے کی ضرورت
نہیں جب وہ باہر نکلا تو محلے کے لوگوں نے اسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیاکہ
تم نے ہمارے محلے میں گند مچایا ہوا ہے یہ سن کر میں نے چیخنا شروع کر دیا
کہ تم لوگوں میرا حال تک نہ پوچھا اور اگر کوئی بھائی بن کر میرا خیال کر
رہا ہے تو تم اسے بھی مار رہے ہوشرم سے میری جان نکلی جارہی تھی کہ اتنی
ہمدردی کا یہ صلہ ملا اسے۔۔۔ وہ ان کو سمجھاتا رہا کہ یہ میری بہنوں جیسی
ہے لیکن محلے کے لوگوں کو جیسے ایک تماشہ ملا تھا لگانے کوخیر وہ جان چھڑا
کے وہاں سے چلا گیاکچھ عرصہ تک مجھے اگر کبھی ضرورت ہوتی تو میں کال کر
دیتی شرمسار ہو کر ان کواور وہ مجھے بینک میں پیسے حسب ضرورت بھیج دیتے
پچھلے 2 ماہ سے ان کو کال نہیں کی اور پھر یہ وائرس کا مسئلہ تو سنا کہ
انکے ملک کے حالات زیادہ خراب ہیں دوبارہ میری ہمت نہیں ہوئی کبھی ان کو
کال کرنے کی بیوہ سمجھ کر اگر کوئی میری مدد کرنا بھی چاہے تو محلے والے
مجھے غلیظ نظروں سے دیکھتے ہیں اور محلے میں اتنے شرفاء ہیں کہ ہر کوئی
گزرتے ہوئے میرے دروازے سے جھانک کر جاتا ہے باہر جاتے ہوئے مجھے گھورتے
ہوئے جاتا ہے اپنی عورتوں کو میرے گھر نہیں آنے دیتے یہ وائرس تو بہانہ
رکھا ہے اﷲ نے ہمیں راشن بھیجنے کا ورنہ ضرورت کا سامان بالکل ختم ہونے کو
ہے کچھ دنوں سے اس بھائی کو کال ملانے کا سوچا لیکن ضمیر نے گوارہ نہ
کیاسوچا کہ پتا نہیں ان کے حالات کیسے ہوں گے میرے بچے کو بھی اب محسوس
ہونا شروع ہو گیا ہے کہ محلے میں ہماری ماں کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں
ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تو دشمنوں کی بیٹیوں کے سروں پر چادر رکھا
کرتے تھے یہ کہاں کے دین دار لوگ ہیں کہ اگر کوئی میرے گھر میری ہمدردی کو
آتا ہے تو اس کو اس قدر مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ڈر کے مارے
مجھے زکوٰۃ تک دینا چھوڑ دی یہ باتیں کرتے کرتے اس کا دوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ
گیا اورجو میرے ساتھ آدمی بیٹھا تھا وہ شرم سے پانی پانی ہو رہاتھامجھے سن
کے بہت دکھ ہوا اور ہم نے راشن کے ساتھ کچھ نقد رقم بھی اپنی طرف سے ادا کر
دی جو شخص میرے ساتھ تھا وہ باہر نکل کر کچھ بولنے ہی والاتھا کہ مجھ سے
رہا نہ گیا اور اس کے بولنے سے پہلے ہی میں شروع ہو گیا کہ بروز قیامت تم
لوگوں کے اس راشن کو اﷲ کیسے قبول کرے گا جب کہ تمہیں محلے میں رہنے والے
ان لوگوں کی خبر نہیں جو کسی کے دروازے پہ نہیں جاتے کوئی کیسا ہے۔۔ یہ اﷲ
اور اس کے درمیان کا معاملہ ہے آنکھوں دیکھا بھی بعض دفعہ سچ نہیں
ہوتا۔۔۔اسکی خاموشی اور نم آنکھوں نے کچھ نہ کہاچار پانچ دن بعداس نے محلے
میں سے اچھی خاصی رقم اکٹھی کر کے اس عورت کے گھر پہنچا دی ۔۔۔بے شک اﷲ ہی
دلوں کے حال جانتا ہے ۔۔۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ کردارتوایک طرف یہ سوچ کر
بھی کسی کو کچھ نہیں دیتے کہ یہ وہابی ہے سنی ہے یا شیعہ ہے
|