دو ماہ سے اوپر ہونے کو آئے، ہم کورونا کے خوف سے
نڈھال گھر کی چاردیواری میں قید۔ کہیں آناجانا نہیں، کسی سے رابطہ نہیں۔
بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ بندہ گھر کے بیرونی گیٹ سے باہر جھانک بھی نہ
سکے۔ہم نے ڈاکٹروں، حکیموں اور نیم حکیموں کے سارے نسخے آزما ڈالے۔ پیزا
اور برگر کی بجائے لہسن اور ادرک چبا چبا کر اپنا چہرہ ادرک جیسا کر لیا۔
گرم پانی پی پی کر مُنہ میں چھالے ڈال لیے۔ اگر دروازہ کھولنے کی نوبت آگئی
تو سوچوں میں پڑگئے کہ کورونا تو دروازے کے ہینڈل پر بھی چھاؤنی ڈالے بیٹھا
ہے۔ یہ سب کچھ تو ایک طرف ، سب سے بڑی مصیبت ہمارے میاں جو گھر سے باہر
نکلنا تو درکنار، کمرے میں ہی قرنطینہ جمائے بیٹھے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ واقعی
’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘۔ کورونا سے پہلے کے دنوں میں میاں جب
گھنٹوں گھر سے باہر رہتے تو ہم گھر میں جَل بھُن کر سیخ کباب ہوتے رہتے
لیکن اب جبکہ کورونا نے گھر میں ڈیرا ڈلوا دیا ہے تو سوچوں کا محور یہی کہ
کورونا ختم ہو نہ ہو کم از کم میاں کو تو باہر کی خبر لینی چاہیے مگراُن
تلوں میں تیل کہاں۔
بالآخر ’’یومِ تکبیر‘‘ کا بہانہ بنا کر ہم نے ہی باہر نکلنے کا ارادہ کر
لیا۔ دراصل ہمیں 28 مئی سے والہانہ عشق ہے۔ یہ وہی دن ہے جب ہم نے بلوچستان
میں چاغی کی پہاڑیوں کو ایٹمی دھماکوں سے دُھواں دُھواں ہوتے دیکھا اور اﷲ
اکبر کے نعروں کی گونج کو روح کی گہرائیوں تک اُترتے محسوس کیا۔ یہ وہی دن
ہے جب سعودی بھائیوں کو وہاں موجود پاکستانیوں کے ہاتھوں کو والہانہ انداز
میں بوسے دیتے دیکھا۔ یہ وہی دن ہے جب پورے عالمِ اسلام کے سَر فخر سے تَن
گئے اور پاکستان کے ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ وہی دن ہے
جب ہمارے ازلی ابدی دشمن بھارت کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور ہندو لالے اپنی
دھوتیاں سنبھالنے لگے۔ یہ وہی دن ہے جس کے خوف سے آج تک بھارتی بَنیا لرزہ
بَراندام ہے۔ یہ دِن حکمرانوں کوشاید یاد نہ ہو یا پھر اِسے بھی سیاست کی
بھینٹ چڑھا دیا گیا ہولیکن پاک فوج کے شعبہ آئی ایس پی آر نے بھرپور اور
والہانہ بیان جاری کرکے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ پاک فوج کا سیاست سے اتنا
بھی تعلق نہیں کہ قومی دن کو بھول جائے۔ ہم نے بھی یہی سوچ کے باہر قدم
رکھاکہ دیکھیں تو سہی قوم کو یہ دن یاد بھی ہے یا نہیں۔
ہم نے جونہی گھر سے باہر قدم رکھا، ہماری نظر فُٹ پاتھ پر بیٹھے ایک عجیب
الخلقت اور مفلوک الحال شخص پر پڑی۔ وہ اپنی سوچوں میں گُم تھا۔ ہم نے
سمجھا کہ وہ کوئی بھکاری ہے اِس لیے اَزراہِ ہمدردی اُسے کچھ دینے کے لیے
اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ اُس شخص نے اپنی لال لال آنکھوں سے ہمیں
گھورتے ہوئے کہا ’’میں فقیر نہیں، عالمی دہشت گرد کورونا ہوں‘‘۔ یہ سنتے ہی
ہمیں ہزار والٹ کا جھٹکا لگا اور ہم نے بِدک کر پیچھے کی جانب چھلانگ لگا
دی لیکن پھر کچھ فاصلے پر رُک گئے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ صرف ہم ہی
نہیں پوری قوم میں جذبۂ ترحم کوٹ کوٹ کے بھرا ہے۔ اِسی جذبے کے تحت ہم نے
چھ فُٹ کا فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے کورونا سے پوچھا کہ اُس کی یہ حالت کیسے
ہوئی؟۔ کورونا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’میں نے آج تک ایسی نامعقول
قوم نہیں دیکھی۔ میں تمہیں موت کے خوف میں مبتلاء کرنے آیا تھا لیکن تم نے
پکنک کی راہ ڈھونڈ لی۔ میں نے تمہارا گھروں سے باہر نکلنا بند کیا تو تم نے
اپنے گھروں کی چھتوں پر باربی کیو کرنے لگے۔ میں نے مساجد بند کروائیں تو
تم پچھلے دروازوں سے مساجد کے اندر داخل ہو گئے۔ میں نے دفاتر اور تعلیمی
ادارے بند کروائے تو تم چھٹیاں منانے نکل پڑے۔ میں نے امریکہ اور یورپ میں
گوروں کی ’’دُڑکیاں‘‘ لگوا دیں اوراُن کی ساری معیشت اُلٹ پُلٹ کرکے رکھ دی۔
وہ کرنسی نوٹوں تک کو چھونے سے بھی اتنے خوفزدہ ہوئے کہ ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘
کی طرف چل نکلے۔ لوگوں کو بڑی بڑی گاڑیوں میں قطار اندرقطار راشن لیتے دیکھ
کر میں قہقہے لگاتا رہا۔ عالمی نمبر وَن امریکہ کی تو میں نے ’’چھالیں
چکوادیں‘‘۔ ساری دنیا کی ایئرلائینز اوندھے مُنہ گِرپڑیں، جنہیں اپنی تیل
کی دولت پر بڑا مان تھا، وہ اب گاتے پھرتے ہیں کہ’’ ہم تو مائل بہ کرم ہیں،
کوئی خریدار نہیں‘‘۔ اِن سب کا حشرنشر کرنے کے بعد جب پاکستان پہنچا تو
خودمیرا حشرنشر ہوگیا۔
ہم نے کہا ’’اب ایسی بھی بات نہیں، ابھی بھی لوگ تم سے خوف کھاتے ہوئے
گھروں میں بند بیٹھے ہیں‘‘۔ کورونا نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا کہ کتنے لوگ؟۔
تمہاری ستر فیصد آبادی تو اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو دیہاتوں میں بستے ہیں
اور جنہیں میرے نام تک کا پتہ نہیں۔ باقی رہے شہری بابو، تو اُنہوں نے مجھے
جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ زیادہ تر تو اِسے عالمی سازش ہی سمجھتے ہیں۔
اُن کے خیال میں کوروناوورونا، کچھ نہیں، بَس خوف کی فضا پیدا کرنا ہے‘‘۔
ہم نے کہا ’’یہ کوئی ایسا غلط بھی نہیں۔ 2017 سے 2019ء تک عالمی اموات کی
شرح 7.6 فیصد تھی اور اب 2020ء میں بھی اموات کی یہی شرح ہے۔ اب کورونا سے
ہونے والی اموات کہاں گئیں؟۔ اِسی لیے لوگ کورونا میں عالمی سازش کی بُو
محسوس کر رہے ہیں‘‘۔ کورونا نے کہا ’’تم لوگ یونہی دور کی کوڑیاں لاتے اور
چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتے رہو، میں جب اپنی دوسری لہر کے ساتھ آؤں
گا تو تمہیں بھی اٹلی اور امریکا بنا کے رکھ دوں گا‘‘۔ یہ کہتے ہی کورونا
ہَواہو گیا۔تب سے اب تک ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر واقعی کورونا عالمی سازش
نہیں اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق اِس کی دوسری لہر بھی آئے گی جو پہلے سے
کہیں زیادہ خطرناک ہو گی تو ہم اِس سے کہاں تک بچ پائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں
کا تو یہ حال کہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ مرکزی حکومت لاک
ڈاؤن کی شدید مخالف اور صوبوں کی راہیں الگ۔ آدھے سے زیادہ لوگ سخت لاک
ڈاؤن بلکہ کرفیو کے حق میں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے عید کے دنوں میں لاک
ڈاؤن ختم کرکے دیکھ لیا۔ اِن چارپانچ دنوں میں گلیوں، بازاروں اور مارکیٹوں
میں جو رَش دیکھنے میں آیا، وہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایس او پیز کو لوگوں نے ہوا میں اُڑا دیا۔ نمازِ
عید کے اجتماعات میں کہیں بھی حفاظتی اقدام نظر نہیں آئے۔ عید پر لوگ ویسے
ہی ایک دوسرے سے گلے مِل رہے تھے جیسے پہلے ملتے ہیں۔ نہ ملنے جُلنے والوں
کو بیوقوف اور ڈرپوک کہا گیا۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ کورونا کیسز اور اموات
میں تیزی آگئی۔ صرف جمعہ کے روز 78 اموات ہوئیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ دوسری
طرف مرکزی حکومت کا خیال ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ختم نہ کیا تو لوگ کورونا سے
مریں نہ مریں لیکن بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔
|