محشرستانِ ایک بے قراری ہے

حسیب اعجازعاشرؔ
غلام حسین محبؔ کے مجموعہ کلام محشرستان منظرعام پر آتے ہی مقبول عام پر ہوگیا۔ غلام حسین محب کے مطابق اُن کا تعلق مہمند ایجنسی قبائلی علاقے سے ہے اور صاحبِ احساس دیوانوں کی ہم نشیبی کی برکت سے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے پشتو ادب بھی دیگر زبانوں کی تاریخ میں ایک ممتازمقام رکھتا ہے،پختون شعراء کرام کی اکثریت نے اپنی مادری زبان میں ہی طبع آزمائی کی اور شہرہ آفاق پر پہنچے جن میں سرفہرست رحمان بابا،پیر روخان،عبدالحمید ماشوخیل،خوشحال خان خٹک،نازو توخی،عبدالرحمان بابا،افضل خان خٹک،احمد شاہ درانی،حسین ہوتک، اجمل خٹک،غنی خان،کبیر ستوری،عبدالباری جہانی اور کئی نامور شعراء کرام شامل ہیں۔مگر دوسری جانب اِس حقیقت سے انکار بھی ناممکن ہے کہ کچھ پشتو شاعروں نے اُردو زبان میں شاعری کی اورایسی خوب کی جہاں بھی گئے محفل جما دی۔امیرحمزہ شینواری، قاسم علی آفریدی، شبیر احمد خان، یوسف حسین یوسف، شمس مومند کا نام اِن میں نمایاں ہے۔اور اب مرزا غالب ؔ کو اُردو شاعری میں امام ماننے والے غلام حسین محبؔ بھی اُن شعرا میں صف اول کے شاعر قرار دیے جا رہے ہیں،جو بیک وقت پشتو اور اُردو شاعری نہ صرف کر رہے ہیں بلکہ شاعری کا حق ادا کر رہے ہیں۔ پشتو زبان میں اِن کے چھ مجموعہ کلام شائع ہوچکے ہیں اوراہل ادب کی نظر میں زیرِنظر اُردو مجموعہ کلام ”محشرستان“ اعلیٰ پائے کا کلام مانا جارہا ہے۔محشرستان کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ روایتی الفاظ اور روایتی اسلوب کا جدیدیت کے ساتھ حسین امتزاج اِ ن کی غزلوں سے خوب چھلک رہا ہے اور یہ حسن انہیں غزل کے میدان میں ہمیشہ سرخرو رکھے گا۔ جس طرح صاحبِ کتاب الفاظ رپرمضبوط گرفت اور شاعری کی باریکیوں کا فہم رکھتے ہیں،یہ کہنا بے جا نہیں کہ اُردو شعروادب کے ساتھ ان کا لگاؤ حیران کُن بھی ہے قابل رشک بھی،اِن کا یہ جذبہ دیگر زبانوں میں شاعری کہنے والوں کے لئے قابل تقلید بھی ہے کہ صلاحیتیں کسی مخصوص زبان تک محدود رہنے کی محتاج نہیں ہوتیں۔محشرستان میں کہساروں،گلزاروں،آنکھوں کے علاوہ زندگی کا استعارہ جا باجا ملتا ہے۔کہیں شاعر زندگی سے پرامیدہے تو کہیں شکوہ کناں بھی کہیں اپنی زندگی سے مطمئن ہے تو کہیں ہاتھ ملتانظرآرہا ہے،ایک شعر ملاحظہ ہو
مت پوچھ مرے ہمدم کیا زندگی گزری ہے
حسرت کے جنازے تھے یادوں کی تھیں باراتیں
اِس کتاب کی شاعری قاری کو کبھی حیرت اور کبھی مسرت افزاء جیسی عجب کیفیات سے دوچارکر دیتی ہے کہ کیسے شاعر باربار اُنہیں الفاظ کے ساتھ ترکیبیں بدل بدل کھیل رہا ہے اور ہر بار کامیاب بھی ہورہا ہے،وصلتوں کی مٹھاس اور اُداسی کا رات کے ساتھ ملاپ اور پھر وہی اپنی زندگی سے گلے شکوے، کہتے ہیں
کبھی وصلتوں کی مٹھاس ہے، کبھی رات یونہی اداس ہے
میرا تجھ سے،مجھ سے تیرا گلا،تیری زندگی میری زندگی
تیرے درد کا مسیحا بنوں مرے غم کا تو بنے چارہ گر
نیک خواہشوں کو تبادلہ،تیری زندگی میری زندگی
شاعرکا تعلق اُس خطے سے ہے جہاں اسلحہ مرد کا ذیور تصور کیا جاتاہے، یہی وہ خطہ ہے جہاں باسیوں کے مکمل تعاون کیساتھ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچایاگیا۔ وطن عزیز میں قیام امن کے حصول کیلئے یہاں کے رہنے والوں کی ناقابل فراموش قربانیاں ہیں۔ باردوں کی وہ گھن گرج محشرستان کے صفحات کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے،بڑے کی قرب کیساتھ شاعر لکھتا ہے
ہرطرف حبس ہے بارود کی بو پھیلی ہے
رنگ اور نکہتِ گلزار کہاں سے لاؤں
ایک ہی شعر میں زندگی و موت، حسن و رنگ،وفا و جفا، تقدیر اور خواہشات کو بیان کر دینا غلام حسین محبؔ کاہی خاصا ہے۔
خدا کرے کوئی خودکش ہی نہ بن کر آئے
محفلیں بھی نہ سجاؤ یہاں حسینوں کی
کبھی کبھی شاعر قلندارانہ مزاج کامعلوم ہوتا ہے جو وجد میں اُس تلخ حقیقت کو بھی اتنی روانی اور آسانی سے عام فہم انداز میں لکھ دیتا ہے جسے پر بڑے بڑے دانشور بھی خاموش رہنا دانشوری تصور کرتے ہیں،نعرہ تکبیر بلند کرکے موت کو گلے لگادینے والوں کے متعلق کچھ یوں اپنے شعر میں بیان کرتے ہیں۔
مرے یا مارے شہید خود کو کہتے
بھلا ان کی طرزِ شہادت تو دیکھو
قلندردین کے نام نہاد ٹھیکیداروں سے بھی سخت نالاں ہے اور اِ س ضمن میں اسلام کے عروج وزوال کی دلخراش داستان کو جس خوبصورت سے دو مصرعوں میں بیان کر دی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ایک دوسرے شعر میں مسلمان سے مخاطب ہیں کہ صرف مدینے سے الفت ہی اچھے عقائد کی علامت نہیں اچھا عقیدہ تو یہ ہے کہ انسان کو انسان بھی سمجھا جائے جو آج کل نا پید ہوچکا ہے۔
مفتی،عالم کہ دانشور اچھا
اپنی اپنی بنی تفسیریں ہیں
ٌٌٌٌٌٌٌَََ۔۔۔
عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو انساں سمجھے
یہی نہیں کہ عقیدت رکھے مدینے سے
بلاآخرکہساروں سے شروع ہونے والی شاعری بلاآخر غم دوراں اور غم جاناں کے بیکراں لہروں پر رقص کرتی بھی نظر آتی ہے،
غضب کی ادائیں مرے دل کو لوٹیں
یہ کیسا ہے جادو یہ کیسا ہُنر ہے
تیری زلف کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھوں
یہ عشق تو تھکا دینے والا سفر ہے
شاعر باخوبی واقف ہے کہ ایک خواہش کی تکمیل پر دوسری خواہش جنم لے لیتی ہے اور خواہشات کا یہ لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے جو کبھی تقدیر سے مطمئن نہیں ہونے دیتا۔
نہ کوئی آنکھوں کی ٹھنڈک نہ کوئی دل کا سکوں
نت نئے ارماں نکل آئے تھے ہر ارماں میں
شاعر کو اس بات کا باخوبی ادراک ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اِس سے راہ فرار ناممکن ہے چونکہ زندگی کی حقیقت اب اُس پر کھل چکی ہے اِس لئے تو اُس نے جو بھی لکھا وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لکھ اہے۔
لحد سے مہد تک مہد لحد تک
اسی زندگی کی حقیقت یہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
محشرستان میں گزرتے ہیں شب و روز مرے
کیا خبر کیسے زمانے کے لئے زندہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کس طرح مٹی تلے دبنے سے بچ پائے محبؔ
زندگی گزری ہے گرچہ ڈھوتے ڈھوتے کیا کروں
بلاشبہ غلام حسین محبؔ کی غزلوں کی دھوم جہانِ اُردو میں مچ کر رہے گی،اِس کتاب کہ آخر میں چندنظموں کو بھی باعنوان حمدذوالجلال،سعادت حسینؓ کی، قطعات،دامنِ کہسارمیں،ترقی پسند اور لبرل مسلمان،قابل رحم قوم،پاک وطن شہیدوں کے نام او ردیگر شامل کیا گیا ہے اِن نظموں میں تمام فنی پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے،مصرعوں کے جمالیاتی تاثر، موضوعات، رومانویت، روانی جذبے کی شدت جس انداز میں قاری کی متوجہ لینے میں کامیاب ہوئیں ہیں لائقِ تحسین ہے۔دعاگوہ ہیں کہ غلام حسین محبؔ کایہ شعری سفر پورے آب وتاب کے ساتھ جاری و ساری رہے۔آمین
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 121 Articles with 117237 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More