برصغیر پاکستان اور بھارت کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شاہی خاندانوں کی طرح سیاسی خاندانوں میں بھی وراثت
کو اہمیت دی جاتی ہے بھارتی رہنما موتی لال نہرو وطن پرست جواہر لال نہرو
اندرا گاندھی اور پھر ان کا بیٹا راجیوگاندھی اور پھر ان کا بیٹا راہل
گاندھی بھارتی سیاست میں اہمیت رکھتے ہیں یہ تو تھی پڑوسی ملک کی بات اب
اپنے ملک میں جھانک لیتے ہیں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور موروثی
سیاست سے پاکستان کا ذرہ ذرہ بھرا ہوا ہے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو
اور ان کے بیٹے مرتضی بھٹو اور بے نظیر بھٹو اور پھر بلاول زرداری جو اپنے
ساتھ بھٹو لگا کر موروثی سیاست کو عروج بخش رہے ہیں اور ایک ہی خاندان کی
کئی نسلیں حکومت کرنے کی امیدوار ہیں بڑے میاں نواز شریف اور ان کے بھائی
شہباز شریف نواز شریف کی بیٹی اور ان کا بھتیجا نسل در نسل معروثی سیاست کو
پروان چڑھانا چاہتے ہیں مریم بی بی باپ کی سیاست میں اپنا مقام بنانا چاہتی
ہیں اور دوسری طرف شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز مسلم لیگ نون کے جانشین
ہونے کے دعویدار ہیں یہ تو تھی نون لیگ کی بات آگے چلتے ہیں خیبرپختونخوا
میں سرحدی گاندھی کہلانے والے باچا خان کے دونوں بیٹے ڈاکٹر صاحب اور
اسفندیارولی اپنے باپ کے جانشین بنیں اور اب اسفندیارولی کا بیٹا بھی سیاست
میں ہے اور موروثی سیاست کو زندہ رکھے ہوئے ہے پنجاب کے چودھری خاندان کی
بات کی جائے تو چوہدری ظہور الہی اور پھر ان کے بعد ان کے بیٹے چودھری
شجاعت اور ان کے کزن چوہدری پرویز الہی اور پھر ان کے بیٹے مسلم لیگ
قائداعظم پارٹی کے ساتھ موروثی سیاست کو عزت بخش رہے ہیں پاکستانی موروثی
جمہوریت کو فروغ دینے میں ان تمام تر سیاستدانوں کا رول رہا ہے اور ان تمام
تر سیاسی خاندانوں نے ملک پر حکومت کی ہے بلوچستان سے محمود خان اچکزئی کے
والد اور پھر محمود خان اچکزئی اور اب ان کا بیٹا موروثی سیاست کو فروغ
دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اگر پاکستانی جمہوریت کو موروثی
جمہوریت کہا جائے تو درست ہوگا ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے مولانا
مفتی محمود کے بعد ان کے بیٹے فضل الرحمان اور اب ان کے بیٹے مولانا محمود
الرحمٰن جمعیت علمائے فضل الرحمان گروپ کی سرپرستی کرتے ہوئے موروثی سیاست
کو عروج بخش رہے ہیں قارئین کرام یہ تو تھی موٹی موٹی مثالیں اب بات کرتے
ہیں پاکستانی عوام کی کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ذہنی طور پر اس قدر مفلوج
ہو چکے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ذہنی طور پر اس قدر غلام ہو چکے ہیں
کہ ایک سیاستدان سیاست کرنے کے بعد اپنی اولاد کو ہم پر مسلط کر دیتا ہے
اور ہم گردن جھکا کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں بات کی جائے دنیا کی تو
امریکہ میں صرف دو مرتبہ ہی صدر کے عہدے پر فائز سکتا ہے مغربی ممالک کی
ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ کہ وہاں موروثی سیاست کم ہے پاکستان میں ایک
جاگیردارانہ نظام اور اس سے بڑھ کر برادری سسٹم ہے جو پورے نظام پر حاوی ہے
جسے ان سیاستدانوں کی اولادوں اور انکے آباؤ اجداد نے اپنے در کی لونڈئ بنا
کر رکھا ہوا ہے ہم لوگ اپنی نسلوں کو ان تمام سیاستدانوں اور ان کے
خاندانوں کے لیے مستقل غلام بنا رہے ہیں دیکھا جائے تو پورے خاندان پاکستان
کے سب سے امیر خاندانوں میں شمار ہوتے ہیں ہماری ستم ظریفی یہ ہے کہ ان
سیاستدانوں کی چوتھی نسلیں بھی ہم پر حکومت کرنے کی دعوے دار ہیں پاکستان
کی جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ موروثی سیاست ہے اور ان سب میں قصور صرف
ہمارا ہے کہ ہم خود ذہنی غلام بن چکے ہیں حقیقت میں ہم آج بھی غلام ہی
انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی گئی لیکن وہ سفید انگریزوں سے آزادی حاصل
کرنا تھا اب ان کالے انگریزوں کو ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے اور اس تمام تر
حالات کی ذمہ داری پوری پاکستانی قوم پر آتی ہے معذرت کے ساتھ ہم پاکستانی
ایک منافق قوم ہے جس کی وجہ سے یہ سیاستدان فائدہ اٹھا لیتے ہیں ضرورت اس
بات کی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق پاکستان کو کو اعلی
اسلامی جمہوری اقدار کے مطابق آگے بڑھنے کی ضرورت ہے قیام پاکستان سے قبل
ایک جلسے میں قائداعظم کے لیے شاہ پاکستان کا لفظ استعمال کیا گیا جس پر
محمد علی جناح نے نہایت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں پاکستان کا
بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں ایک ادنیٰ کارکن ہوں اس بات سے یہ اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان میں موروثی سیاست کے خلاف
تھے قائداعظم کی رحلت کے بعد سے شروع ہونے والے مارشل لا اور ان میں پلے
سیاستدان اور انکی اولادیں جو آج تک پاکستان میں حکومت کرنے کے دعوے رکھتے
ہیں یہ اس وقت ختم ہوسکتی ہے کہ جب ہم بحیثیت قوم جاگے اور ایک عام آدمی کو
ایوان اقتدار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں اگر ہم نہ سنبھلے تو یہ
اسی طرح ہم پر حکومت کرتے رہیں گے اور ان کی ایک سے دوسری نسل ہم پر اور
ہمارے آنے والی نسلوں پر بھی حکومت کرے گی اور ہم اسی طرح غلام بن کر جی
حضوری کرتے رہیں گے آخر میں بس میں اتنا کہنا چاہوں گا ضرورت اس بات کی ہے
کہ اب نظام کو بدلہ جائے اور نیشنلسٹوں کو آگے لایا جائے آخر کب تک اس
موروثی نظام کو ہم اپنے سینے کے ساتھ لگا کر رکھیں گے جو انگریزوں کی غلامی
کے ساتھ ساتھ اب ان کالے انگریزوں کی غلامی میں بدل چکا ہے پاکستان کے
پیچھے رہنے کی ایک سب سے بڑی وجہ ورثہ میں ملی موروثی سیاست ہے ہے عجیب
تماشہ لگا کر رکھا ہوا ہے ایک کے مرنے کے بعد دوسرا اور دوسرے کے مرنے کے
بعد تیسرا اور تیسرے کے مرنے کے بعد چوتھا مغربی ممالک کی کامیابی کا راز
سیاسی نظام میں موروثی سیاست کا نہ ہونا ہے وہاں چوکیدار کی بیٹی وزیراعظم
بن سکتی ہے وہاں مزدور کا بیٹا صدر بن سکتا ہے وہ عام عوام اقتدار کے
ایوانوں تک پہنچ سکتی ہے بدقسمتی سے پاکستان کے 342 قومی اسمبلی کی نشستوں
میں سے ایک عام غریب آدمی کوئی موچی کا بیٹا کوئی کسان کا بیٹا کوئی
چوکیدار کا بیٹا ایوان اقتدار میں پہنچ ہی نہیں سکتا ضرورت اس بات کی ہے کہ
اب عظیم انقلاب لایا لایاجاسکتاہے اپنی سوچ کو بدل کر اور اب وقت ہے کہ ہم
منافقت ختم کریں اور سچے پاکستانی کو پروموٹ کریں اور وطن عزیز کے سچے اور
محب وطن نیشنلسٹ حکمرانوں کو آگے لانے کا موقع دیں جو غریب کی آواز بنے اور
غریب کے لیے سوچیے اور ان کے لیے عملی اقدامات کرے کیونکہ وہ خود بھی ان
تمام مشکلات کو جھیل چکا ہوتا ہے آخر میں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی پاکستان
کو قائم رکھے اور ترقی کی راہ پر گامزن فرمائے اور شاد باد رکھے آمین
|