کورونا۔۔۔۔کب تک رونا؟

پاکستان میں رمضان کے آخری ایام کے ھجوم اور تجارتی مراکز میں مرد، خواتین اور بچوں کے رش نے کام دیکھانا شروع کر دیا ہے اور کورونا وائرس اب تیزی سے پھیلنے لگا ھے جس میں کسی کے محفوظ ہونے کے مواقع مزید کم ھو گئے ھیں، تھوڑا سا اگر عوام اور حکومت صبر سے کام لیتے اور اس دفعہ عید سادگی سے منا لیتے تو کافی حفاظت ممکن تھی، پاکستان میں اب بھی لوگ کورونا کی شدت کے باوجود تشکیک کا شکار ہیں، ایک طبقہ اس کو بالکل سازش سمجھتا ہے اور کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو فضول گردانتا ہے، انہیں پتہ نہیں کیوں دنیا بھر میں پھیلے اس خطرناک وائرس اور اس کے نتیجے میں تین لاکھ سے زیادہ ھلاکتیں نظر نہیں آتیں، انہیں اور کونسا ثبوت یا دلیل چاہئیے پاکستان میں دو ھزار تک لوگ زندگی کی بازی ھار بیٹھے جن میں ڈاکٹرز اور ان کے بچے، سیاستدان، عوام اور ھر طبقے کے لوگ موجود ہیں، اس کے باوجود وہ اس کو امریکہ یا چین کی سازش سمجھتے ہیں، ایک طبقہ تو مصر ھے کہ لاشیں امریکہ کو ڈالرز کے عوض بیچی جا رہی ہیں،اپنی لاکھوں لاشوں کی موجودگی میں وہ ھماری لاشوں کو کیا کرے گا؟اگرچہ اس پر امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ جاری ہے مگر وائرس بنایا گیا یا قدرتی ھے اس بحث میں پڑنے کی بجائے یہ مان لینا چاہیے کہ وائرس ایک حقیقت ہے اور احتیاط ضروری ہے، اب روز کیس چار ھزار سے اوپر جا رہے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق صرف لاھور میں سات لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس میں مبتلا ہیں، ایس او پیز سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور عوام جیسے جیل سے لوگ نکل کر خوشی محسوس کرتے ہیں اس طرح رمضان کے آخری عشرے کو بازاروں میں لطف اندوز کیا گیا، جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے، صرف امریکہ۔ میں ڈیڑھ لاکھ افراد جان کی بازی ھار چکے ہیں، اسے کسی سازش کی کیا ضرورت ہے؟ ایک طبقہ پاکستان میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ احتیاط سے کچھ نہیں ھوگا، کچھ اسے اللہ کا عذاب اور کچھ مذھب کے خلاف سازش سمجھتے ہیں، حالانکہ مذھب آپ کی بنیادی سطح پر مضبوطی کے لیے آپ کا انتظار کر رہا ہے، کیوں کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ عمل میں اتریں گے تو مذہبی تعلیم اور تربیت میں اضافہ ھو گا اور دعوت پختہ اور باعمل ھو کر پھیلے گی ، مذہب فرد کی دعوت، اصلاح اور تربیت پر زور دیتا ہے، پہلی دعوت بھی گھر ھوتا ھے جہاں سے پھوٹنے والی دعوت معاشرے کو با اثر بنیاد فراہم کرتی ہے، ھمارا المیہ ہے کہ ھم سوچ اور عمل میں بری طرح تقسیم ھیں اسی تقسیم نے ایک قوم نہیں بننے دیا، آج کورونا کے باعث ایک بہترین موقع ہے کہ تعلیم، ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے مگر ھماری جہالت غالب آجاتی ہے،

اس کورونا کے ساتھ طویل عرصہ رہنا ہے تو اس کے لیے جدید تحقیق اور حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا، تاکہ وبا پر قابو پایا جا سکے، باقی علمی، سانئسی اور سازش کی بحث کا بہت وقت ھے ، کورونا ایک کرئیر وائرس ھے جو اڑ کر نہیں بلکہ کسی ذرائع سے دوسرے تک پہنچتا ہے، اس ذرائع کو محدود کر دیں یہ میتھ بھی دفن ھو چکی ھے کہ یہ پہلے سے بیمار افراد کو ھوتا ھے آپ کے سندھ میں اب تک تیرہ سو بچے اس کا شکار ہو چکے ہیں جن کو خواتین اٹھا کر، یا انگلی پکڑ کر عید کی شاپنگ کے لیے نکلتی تھیں، پاکستان میں ابھی رینڈم ٹیسٹ بھی نہیں ھوئے اس کے باوجود شک کی بنیاد پر ھونے والے ٹیسٹ کے نتائج آپ کے سامنے ھیں خدا را اپنی نئی نسل پر رحم کریں اور اس مرتبہ جہالت،نا سمجھی اور فرسودگی سے نکل آئیں تاکہ مستقبل کی کوئی امید باندھی جا سکے۔حکومتی سطح پر جدید تحقیق اور عوامی سطح پر شعور اس آفت کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ضروری ہے،بے روزگاری اور بھوک سے بچنے کے لیے حکومتی اسکیموں سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ اس دیر پا جنگ کے خلاف اڈئیل ماحول بن سکے۔
 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.