قارئین!اخبارات میں آئے روز نوجوانوں اور بچوں کے ساتھ
جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے قانون سازی
بھی کی جا چکی ہے مگر ابھی تک یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔حکومت
کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اب شعور بیداری کی مہم چلانی ہوگی تاکہ ہر معصوم
بچہ محفوظ رہ سکے۔ اس حوالے سے ایک تنظیم ساحل بھی کافی عرصہ سے کام کر رہی
ہے۔راقم السطور کے علم میں کچھ اعداد و شمار آئے ہیں جو کہ آپ کی نظر ہیں
تاکہ ان کو دیکھتے ہوئے آپ بھی ازخود بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں کہ جب
تک والدین بچوں کی تربیت میں اس حوالے سے ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تب تک
صورت حال قابو میں نہیں آ سکے گی۔
جنوری تا دسمبر 2019 تک کے عرصہ میں ساحل نامی تنظیم کے مطابق پاکستان بھر
میں لگ بھگ2846 بچوں پر جنسی تشدد، اغواء ، گمشدہ بچوں اور بچپن کی شادی کے
واقعات ہوئے ہیں جن کے بارے میں اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئی ہیں۔اگرچہ
اس تفصیل سے ایک یہ بات تو بخوبی واضح ہوئی ہے کہ 2018کی نسبت 2019میں بچوں
پر جنسی تشدد کے واقعات میں 26فی صد کمی واقع ہوئی ہے مگر دوسری طرف یہ بھی
ایک المناک بات کہی جا سکتی ہے کہ 2019 میں روزانہ لگ بھگ 8کے قریب بچے
تشدد کا بھی شکارہوتے رہے ہیں ۔جس میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی شامل ہیں
جن میں 54% لڑکیاں اور46% لڑکے ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ 2018میں بھی صنفی
تقسیم یہی تھی جو کہ 2019میں ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اکثر گھروں میں
لڑکیوں کو ہی کام کاج کے لئے رکھا جاتا ہے تب ہی وہ زیادہ ہر طرح کے تشدد
کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنسی تشدد عموماََ بلوخت کے ساتھ منسلک ہے مگر
ایسا ہر گز نہیں ہے ، دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر رضا مندی کے بغیر بھی یہ
ہو رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بچوں میں خود اعتمادی کی کمی
اوراجنبی افراد پر ضرورت سے زیادہ اعتما کرلینا بھی خطرناک صورت کی طرف لے
جاتا ہے جبکہ والدین بھی کم عمری میں بچوں کو روزگار کے لئے کام کاج پر
رکھوا لیتے ہیں جہاں مالکان اپنے ستم کا شکار کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ساحل کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعداو شمار یہ بھی ظاہر
کرتے ہیں کہ 2019میں بھی 2018کی طرف 6-15سال کے بچے زیادہ غیر محفوظ رہے
ہیں، تمام واقعات رونما ہوئے اس کا تقریبا َ54%اسی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے
جس میں ذیادہ تر لڑکے تھے جبکہ دوسری طرف 0-5سال اور16-18سال کی عمرمیں
زیادہ لڑکیاں تشدد کا شکا ر ہوئی ہیں، ان واقعات کے تقریباََ84% پولیس کے
پاس رپورٹ ہوئے ہیں۔مگر یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاں عزت کی
خاطر بہت سے واقعات کو دبا ء بھی لیا جاتا ہے ، دوسری طرف بڑے گھرانوں کے
سربراہان کے خلاف ایف آئی آر بھی مشکل سے اندرج ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ
ایک حد تک ہی درست بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ بڑے پیمانے پر بچوں کے ساتھ
تشدد اور زیادتی کی جا رہی ہے۔، افسوس ناک بات یہ ہے کہ سفاک انسان نما
درندے اُنہیں قتل بھی کر رہے ہیں جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نفسیاتی طور پر
ان سب میں حیوانیت بھری ہوئی ہے یا مذہوم مقاصد کے حصول کے لئے سب ایسا
کرتے ہیں۔جب تک ایسے واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں نہیں دی جاتی ہیں
تب تک یہ واقعات رک نہیں سکیں گے۔
اس طرف ہم سب کو ذرا سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا
ہے۔ محض قانون سازی سے بھی یہ روکنے والا عمل نہیں ہے کہ جس طرح سے واقعات
سامنے آئے ہیں اس میں بھرپور طور پر سوچ کے دائرے کو بدلنے کی ضرورت ہے، اس
حوالے سے وسیع پیمانے پر حکومت کو محکمہ تعلیم کو ہدایات جاری کرنی چاہیے
کہ ساحل جیسی تنظیمیں جو کہ اس حوالے سے کام کر ہی ہیں وہ اسکولوں میں
ورکشاپس منعقد کرائیں تاکہ شعور بیداری ممکن ہو سکے۔ جرائم کی شرح کم بھی
ہو اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہو سکیں۔نصابی کتب میں بھی اس حوالے سے
کہانیوں کی صورت میں معلومات دی جائیں جیسے ساحل اپنے سہ ماہی رسالے میں
پیش کرتی ہے۔
قارئین کو بالخصوص کہوں گا کہ اپنے بچوں اور بالغ نوجوانوں پر کڑی نظر
رکھیں،بچوں کو اظہار رائے کی آزادی دیں تاکہ وہ سب کچھ بیان کر سکیں اگر وہ
کچھ بھی چھپانے کی عادت بنا لیں گے تو پھر وہ حد سے زیادہ سوچنے کے عادی ہو
جائیں گے اور جب ایسا ہوگا تو وہ مختلف وجوہات کی بناء پر والدین کی عزت کی
خاطر خاموشی اختیار کریں گے جو کہ ایک تو اُن کو ذہنی امراض کا شکار کر
سکتا ہے اور دوسرا وہ کسی کے بھی بہکاؤے میں آکر اپنی جان سے بھی ایک دن
ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ بار بار کے گھناؤنے فعل سے تنگ آکر کئی بچے خود کشی
بھی کر چکے ہیں ۔سب طلبا اور بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ کسی بھی اجنبی پر
سوچ سمجھ کر اعتبار کریں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ اس طرح کے فعل میں اپنے ہی
ملوث ہوتے ہیں تو بچوں میں یہ عادت پختہ کروائیں کہ وہ کسی سے بھی حد سے
زیادہ میل جول نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ وہ اُن کے ساتھ یہاں وہاں جانے سے
بھی گریز کریں۔اگر کوئی کسی بھی قسم کا تشدد یا زیادتی سہہ رہا ہے تو اُس
اتنا اعتماد دیں کہ وہ حالات سے چھٹکارہ پاکر پرُسکون زندگی بھی گذار سکے۔
وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب کواس حوالے سے
بچوں کو درندگی اور سفاکی سے بچانے کے لئے بھرپور طور پر اقدامات اُٹھانے
چاہیں تا کہ قوم کا مستقبل محفوظ زندگی بسر کر سکیں اور اُن کے ساتھ غلط
کرنے والوں اور بالخصوص اُن کو چھوٹ دینے اور اُن کے خلاف کمزور مقدمات پر
پولیس اہلکاران کو بھی نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ مزیدننھی کلیوں کو کوئی
نوچنے کا نہ سوچ سکے۔ |