ٹیپو سلطان ( جس کا نام آج بھی انگریزوں پر
دہشت طاری کر دیتا ھے) کا قول ہے کہ ایک دن کی شیر کی زندگی سو سالہ گیدڑ
کی زندگی سے بہتر ہے۔ اور اس بات کی گہرائی پاکستان کے آج کے حالات سے
معلوم ہو سکتی ہے۔ ٩-١١ کے بعد جنرل پرویز مشرف کی امریکی حمایت محض ڈر اور
خوف کا باعث تھی جس کے بعد وہ قوم کو سسکتا چھوڑ کر خود لندن عیش و عشرت کی
زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ فوج میں تمام لوگ
پرویز مشرف کی مانند نہیں، لیکن انہیں اس فیصلے پر اور قوم کو اس حال میں
لانے والے کچھ افراد کا کردار ضرور مشکوک ہے۔
٩-١١ کے اس فیصلے کے بعد سے آج تک، پاکستان ڈو مور کی امریکی مانگیں پوری
کر رہا ہے، اور حد یہ ہے کہ تمام خواھشات پوری کرنے کے بعد، پاکستان کی
معاشی ،اقتصادی اور امن و امان کی صورت حال بد سے بد تر کرنے کے بعد آج
قصوروار بھی پاکستان ہی ھے، اور آج بھی عالمی دنیا ھمیں ہی چور سمجھتی ہے۔
کبھی دوستی پر شک کیا جاتا ہے، کبھی امداد پر نظر ثانی کی جاتی ہے، کبھی
آئی آیم ایف سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، کبھی ملک پر اور اس کے ایٹمی اساسوں
پر حملوں کا سوچا جاتا ہے، اور تو اور اب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی خود
مختاری ہی دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایسا ہے، تو نہ ھمیں امریکی دوستی نہیں چاھئے ، نہ امریکی امداد اور نہ
ہی آئی آیم ایف سے قرض ، کر لیں انہیں جو بھی کرنا ہے، اس قوم کے بیٹے جوان
ہیں اور اللہ کے فضل سے پاکستان کا دفاع کے لئے کسی قربانی سے گریز نہیں
کریں گے اور اس پر اٹھنے والی میلی آنکھیں باہر نکال دیں گے۔
وہ جنگ جس کا آغاز امریکہ نے محض اپنی انا کے لئے کیا وہی جنگ آج امریکی
دوست پاکستان کی گلیوں میں لڑی جا رہی ہے، اور امریکہ کی نسبت کئی گناہ
زیادہ قیمت آدا کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات، پاکستان پر تنقید سے
بھرے پڑے ہیں، اور معلوم ہوتا ہے کہ اگر اب بھی سر اٹھا کر نہ جئے تو آنے
والے وقت میں وہ سب کچھ ہو گا جس کے ڈر و خوف سے مشرف نے ٩-١١کے بعد اس جنگ
میں امریکی حمایت کی، شاید (اللہ نہ کرے) اسلام آباد -بغداد اور پاکستان -
عراق میں بدلا جائے۔
اللہ اس ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو۔آمین |