بیج ہمارا کام ہے و ہ کوئی بھی کام ہو سکتا ہے صبر کی گوڈی کرنی پڑتی ہے اور دعا کا پانی ڈالنا پڑتا ہے تب اس بیج سے وہ درخت پھوٹتا ہے اب یہ ہم پر ہے ہم اس پھل کو کتنا رسیلا اور میٹھا بناتے ہیں اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے |
|
|
ایک پنڈ کا میراثی اپنے گاوں کے چوہدری کے پاس گیا اور اس سے کہا میں آپکی بیٹی کا رشتہ اپنے لئے مانگنے ٓآیا ہوں چوہدری کو بہت غصہ آیا اور اس نے میراثی کو اپنے ملازموں سے خوب پٹوایا ۔ میراثی مار کھانے لے بعد کھڑا ہوا کپڑے جھاڑتے ہوئےکہا پھر میں نہ سمجھوں جی۔۔ ہم سب کو ہی زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر نہ سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ کبھی کسی سکول یا کالج کے داخلے میں، کبھی کسی نوکری کے لئے، کبھی کسی رشتے کے لئے ، کبھی کسی سے دوستی کی ریکوئسٹ میں، کبھی کسی کے ساتھ نہ دینے میں، کبھی کسی کی پارٹنر شپ سے انکار میں، کبھی کسی اُدھار سے انکار میں ، کبھی کسی سے کچھ مانگا تو نہ ملا۔ انکار کی بے شمار اقسام ہیں اور وہ بندہ بشر ہی کیا جسکو انکار نہ ملا ہو ۔انکار ملنے پر پہلے پہل تو انسان کو یقین نہیں آتا کہ انکار ہو رہا ہے اور مجھے ہی کہا جارہا ہے۔ آہستہ آہستہ حواس بحال ہوتے ہیں اور سمجھ آتا ہے کہ جی ہاں ہو چکا ہے ہو رہا نہیں ہو گیا ہے۔ انسان کو اپنے اوپر زُعم ہوتا ہے کہ مجھے تو انکار ہو نہیں سکتا میں جہاں بھی جاوں گا لائن لگ جائے گی انسان کو پھر جب انکار ملتا یے تو دل ٹوٹےٹوٹے ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ہم میں سے ہر انسان ایک ہی وقت میں خاص الخاص بھی ہے اور عام بھی ہے وہ اس طرح کہ ہم جیسا کوئی نہیں ہم میں سے دُنیا میں ہر انسان ایک ہی پیس ہے اور اُس جیسا اور کوئی نہیں ہوگا ۔ اس طرح سے تو ہم ہوگئے خاص ۔ مگر عام اس طرح سے ہوں گے کہ ہم جیسے فوٹو کاپی نہیں مگر بہت سے انسان ہوں گے۔ انسان کو انسان ہی رہنے دیجیئے اپنے آپکو عام ہی سمجھئے کیونکہ خاص کو خاص بننے کے لئے محنت بھی بہت لگتی ہے ۔ دوسری بات ہم چاہے جس بھی کام یا جس بھی معاملے میں انکار کا سامنا کر رہے ہیں یہ بات یاد رکھیں کہ انکار ایک طرف اگر کچھ اچھا آنے سے آپکی زندگی میں روک رہا ہے تو کچھ بہت اچھے کی آمد کا اشارا بھی ہے ۔ ہم میں سے مستقبل کسی نے نہیں دیکھا سو ہم صرف آج میں رہتے ہوئےمستقبل کی تیاری کر سکتے ہیں ۔ اصل میں یوں سمجھ لیں بیج ہمارا کام ہے و ہ کوئی بھی کام ہو سکتا ہے صبر کی گوڈی کرنی پڑتی ہے اور دعا کا پانی ڈالنا پڑتا ہے تب اس بیج سے وہ درخت پھوٹتا ہے اب یہ ہم پر ہے ہم اس پھل کو کتنا رسیلا اور میٹھا بناتے ہیں اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔ |