سائنسی ترقی اور موجودہ دور

سائنس اور ٹیکنولوجی ہماری زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جن آساہشات کے ساتھ ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ سائنس اور ٹیکنولوجی کی وجہ سے ہیں۔ آج ہم اپنا ہر کام آسانی سے اور کم وقت میں کر لیتے ہیں۔ ہماری زندگی اتنی آسان ہو گئ ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنولوجی کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہی کر سکتے۔ سائنس نے دنیا میں اتنی تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ اگر اٹھارہویں صدی کا انسان دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آۓ تو وہ کبھی بھی پہچان نہ سکے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جہاں اس نے ایک عمر بسر کی تھی۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دالیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک قلم سے لے کر گرجتے ہوۓ طیاروں اور تیزی سے چلتے ہوۓ ریلوے کے انجنوں تک سب ہی سائنس کی وجہ سے ہے۔ ایک دن ایسا بھی آۓ گا جب دنیا بلکل ہی بدل جاۓ گی۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا ہے اور کیا ہو جاۓ گی

یہ سائنس اور ٹیکنولوجی کا دور ہے۔ آجکل ہر کام اسی کی وجہ سے آسان ہو گیا ہے۔ جیسے صجح کا اخبار جس سے ہمیں بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں، یہ بھی سائنسی ترقی کی وجہ سے ہے۔

ان سب میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کا ہماری زندگی میں ایک اہم کردار ہے۔ موبائل فون نے ہماری زندگی بلکل ہی بدل کر رکھ دی ھے۔ پہلے زمانے میں لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنا یا کسی ضروری بات کی اطلاع دینے کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا تھا۔ موبائل فون دراصل ابتدائی مواصلاتی نظام سے ہی تیار کئے گئے ہیں۔ یہ لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے کو بہتر بنانے کے لئے ایجاد کیا گیا۔ موبائل فون کی ایجاد نے رابطے کے طریقوں کو بلکل بدل کر رکھ دیا۔ ایس ایم ایس ،کال ،ویڈیو چیٹ اور اس طرح کے نہ جانے کون کون سے طریقے ھیں جس نے رابطہ کی راہ میں حا ئل تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ دور رہ کر بھی موبائل فون کی وجہ سے اپنے پیاروں سے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں۔اصل میں دوریوں اور فاصلوں کو کم کرنا موبائل فون کا ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔

موبائل فون نے لوگوں کے لیے ویب سائٹ سرچنگ کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ ان آلات کو موبائل کے ساتھ مر بوط کیا جاتا ھے جو انھیں کسی بھی وقت اور کہیں بھی ویب سائٹ سرچنگ میں مدد دیتا ھے۔ ایک مطالعہ کے مطابق مو بائل فون پر خرچ کیے جانے والے کل وقت کا %۱۰انٹرنیٹ کو سرچ کرنے کیلیے کھولنے والے براؤزر میں استعمال کیا جاتا ھے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو معلومات تک رسائی حاصل ھے۔
ایپز کے ذریعے موبائل تقریباسب کچھ کر سکتا ھے گوگل سٹور میں تقریبا ۲ ملین سے زیادہ ایپز ھیں جبکہ1.5ملین ایپز (ایپل سٹور) میں ھیں لوگ تقریبا %۹۰وقت ایپز سرچ کرنے میں لگاتے ھیں اور اس میں اوسطا ہر صارف ۳۶ ایپ اپنے موبائل میں استعمال کرتا ھے ایپز کی فعالیت (طریقہ کار) ایک دسرے سے مختلف ھوتا ھے جیسا کے(آن لائن سٹور،ٹکٹ بوکنگ،ویڈیو ایڈیٹر،پرسنل اسسٹنٹ فوٹو،پیمنٹ سسٹم،ڈیٹا اینالائسس )وغیرہ۔

جیسا کہ ہر چیز کا فایدے اور نقصانات ہوتے ہیں اس طرح موبائل اور انٹرنیٹ کے فائدے اور نقصانات بھی ہیں۔ آج ہم موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا میں اتنا گم ہو گۓ کہ ہمیں اپنے رشتوں تک کی قدر نہ رہی۔ ہم ان لوگوں کے تو قریب ہیں جو ہم سے دور ہیں لیکن ہم ان سے دور ہو گۓ جو ہمارے قریب ہیں۔ پہلے رشتوں میں احساس تھا اور لوگ محبت سے رہتے تھے، لیکن اب نہ تو احساس رہا اور نہ ہی محبت۔ آج ہم دنیا میں اتنا کھو گۓ کہ ہمیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہم ان چیزوں کے قریب ہیں جو ہم نے خود بنائ، اور جو رشتے ہمیں ﷲ نے بنا کر دۓ انہیں ہم نے خود سے بہت دور کر دیا۔ یہ موبائل اپیز جو ہمارے فائدے کے لۓ بنائ گئ تھی، ہم نے ان کا غلط استعمال کر کہ انہیں اپنے نقصان کی وجہ بنا دیا۔

ہم انہی اپیز اور سافٹ ویئر کے زریعے دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں۔ ہیکنگ جیسے فضول کام کر کہ ہم اپنے ساتھ دوسروں کا بھی نقصان کرتے ہیں۔ صرف موجودہ دور کی بات نہیں بلکہ دو دہائیوں سے انٹرنیٹ استعمال کرنے واے اکثر نوجوان ہیکنگ سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں، لیکن آئی ٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سمجھدار اور زہین نوجوان وہ ہیں جو اپنا قیمتی وقت اور اپنا اصلاحتیں مثبت کاموں پر صرف کریں۔

کمپوٹر سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد کا خیال یہ ہے کہ ہیکنگ سیکھنے کا شوق آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے قابل اور زہین نوجوان اس شوق کی وجہ سے جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بھی پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے ہم عمروں کو متاثر کرنے کے لۓ ہیکر بننا چاہتی ہے، لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہۓ کہ ہیکر چاہے جتنا بھی زہین کیوں نہ ہو، ایک دن پکڑا ضرور جاتا ہے۔

انٹرنیٹ پر ہیکنگ سیکھنے کیلۓ ایک نوجوان جتنا وقت صرف کرتا ہے اگر اتنا ہی وقت ویب سائٹ ڈزائننگ یا دیگر کمپیوٹر کورسز کو سیکھنے پر لگاۓ تو تھوڑے ہی عرصے بعد وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ ماہانہ ہزاروں روپے کما سکے۔ ہیکرز کو چاہیۓ کہ وہ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پاکستان میں ہیکرز اور ان سے نمٹنے اور سائبر کرائمز پر قابو پانے کیلۓ باقاعدہ قانون سازی کی جا رہی ہے، اسلۓ ہیکنگ کے شوقین نوجوانوں کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ اس شوق سے احتیاط بہتر ہے۔ انہیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیۓ کہ وہ پاکستان میں رہتے ہیں جہاں آپ نے کوئی جرم کیا ہو یا نہ کیا ہو تو، پھر بھی آپ قانون کی زد میں آسکتے ہیں۔ اسلۓ غیر قانونی سرگرمیوں سے ہمیشہ احتیاط کرنا ضروری ہے۔

مغربی ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے مطابق افریقہ اور ایشاء کے چند ممالک، بلخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سوفٹ ویئر پائرسی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ کی دنیا پر حکومت کرنے والے بہرحال یہ بھی جانتے ہوں گے کہ خود ان کی "مملکت" میں فائلز ٹیوب سمیت ایسے بہت سے سرچ انجن موجود ہیں جن کی مدد سے ہر قسم کے سوفٹ وئیرز، آڈیوز اور ویڈیوز مفت ڈاؤن لود کۓ جا سکتے ہیں۔

یہ موبائل فون تو ہمیں اپنو کے قریب کرنے کے لئے تھا لیکن ہم نے اسے اپنوں سے دور ہونے کی وجہ بنا دیا۔ آج ہمیں اپنوں سے زیادہ اس پہ یقین ہے۔ ہم نے سچ میں ہی بہت ترقی کر لی ہے، انسان سے زیادہ ان بےجان چیزوں کو ترجعی دیتے ہیں۔ اب تو رشتوں کی بنیاد ہی موبائل کے اسکرین شاٹ پہ ہوتی ہے۔ ہم انسان کی زبان سے زیادہ اس کے موبائل اسکرین شاٹ پہ یقین کرتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے ہمیں بہت زیادہ بدل کر رکھ دیا۔ اور پر یہ ہیکرز، جو اپنا شوق پورا کرنے کے لئے دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں۔ کچھ ہیکرز صرف شوق پورا کرنے کے لئے ہیکینگ نہی کرتے، بلکہ وہ ان لوگوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کے لئے ہیکینگ کرتے ہیں جن کو وہ خوش نہیں دیکھ سکتے۔ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنے کی اجازت تو ہمیں ہمارا مذہب بھی نہیں دیتا۔ اور ہم ہیں کے ہر وقت دوسروں کی زندگی برباد کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہی کے ہمیں اس سائنس اور ٹیلنالوجی سے بہت فایدہ ہوا، لیکن ہم اس ہقیقت کو بھی تو جھٹلا نہیں سکتے کے اسی کی وجہ سے آج انسانیت نہیں رہی۔ انہی چیزوں کی وجہ سے نہ تو ہم خود خوش رہتے ہیں نہ ہی دوسروں کو خوش رہنے دیتے ہیں۔ وہی دور اچھا تھا جب کچھ نہیں تھا لیکن انسانیت تھی، لوگ محبت سے رہتے تھے، رشتوں میں احساس تھا، اپنوں کی قدر تھی۔ لوگ دور تھے لیکن اپنے تھے۔ آج کوگوں کو زندگی گزانے کے لئے موبائل کا ساتھ چاہیۓ اور آکسیجن کی جگہ انٹرنیٹ۔ کیا ہم میں کوئی ایسا ہے جو اس موبائل اور انٹرنیٹ کے بغر رہ سکتا ہو؟ بچہ ہو یا بوڑھا، آجکل تو سب ہی اس نئی دنیا میں گم ہیں۔ ایک وقت تھا جب بچوں کو کھلونوں اور کتابوں کا شوق تھا، اور اب ہر بچے کہ ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے۔اور ہمارے نوجوان ہیکنگ جیسے فضول کام کا شوق رکھتے ہیں۔ نہ تو ہم دین کے رہے اور نہ دنیا کے۔ ﷲ نے انسان کو علم اس لئے دیا تھا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاۓ، نہ کہ اپنا ہی نقصان کرے۔

ہمارے ارد گرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو غلط ہے، اور ہمیں خود کو بدل کر اسے بدلنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہم روز ہی کچھ ایسا سنتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں خوشحالی نہیں۔ ہمارے نوجوان ان چیزوں میں اتنا گم ہو گۓ کہ انہیں اپنا بھی نہیں پتہ۔ یہ نوجوان صرف اپنا ہی نہیں بلکہ دوسروں کا بھی نقصان کر رہے ہیں۔

موبائل فون، انٹرنیٹ اور موبائل اپیز، ان سے متعلق ہم روز ہی کچھ نیا سنتے ہیں۔ اور ان سے متعلق کہانیاں بھی بہت ہیں لیکن، یہاں میں ذکر کروں گی ان دو لوگوں کا جنہوں نے اپنی زندگی ایک موبائل اپ کی وجہ سے برباد کر دی اور یہ بھی نہ سوچا کہ ان چیزوں کے پیچھے اس طرح رشتے ختم نہیں ہوتے۔

ہم روز سوشل میڈیا پہ رشتوں کو بنتا ہوا دیکھتے ہیں اور پھر ان کو ٹوٹتا ہوا بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں میں نے جن کا ذکر کیا، ان کا رشتہ ختم ہونے کی وجہ یہ ہیکرز، انٹرنیٹ، اور یہ موبائل فون بنا۔

یہ سب سن کر یقین کرنا تو مشکل ہے لیکن ہم حقیقت کو تو نہیں بدل سکتے۔ کہتے ہیں نہ کہ۔۔۔۔
کچھ باتیں سمجھانے سے نہیں
خود پر بیت جانے پر سمجھ آتی ہیں

یہ کہانی دو ایسے لوکوں کی ہے جن کے رشتے کی بنیاد محبت اور یقین پہ تھی۔ یہ کہانی شاہزین کے اسلام آباد انے کہ بعد شروع ہوئی تھی جب اس نے ابرش کو پہلی دفعہ دیکھا۔ شاہزین نے ابرش سے محبت تو کی لیکن دل میں کہیں شک بیٹھا لیا۔ وہ شک کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ، ان موبائل اپیز کی وجہ سے تھا۔ شاہزین پہلی دفعہ اسلام آباد آیا تھا، اور اس نے ابرش کو بھی پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ وہ ابرش کو جانتا نہیں تھا، صرف کوگوں سے اس کے بارے میں سنا۔ ہمارے یہاں ایک خرابی ہے کہ ہمارے معاشرے کہ کوگ کبھی کسی کہ بارے میں اچھا بتا ہی نہیں سکتے، یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ابرش کے گھر والوں سے مل کے اور انہیں جان کہ شاہزین کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس نے ابرش اور اس کے گھر والوں کے بارے میں جو سنا وہ غلط تھا۔ دونوں کے گھروں میں ان کے رشتے کی بات چلنے لگی۔ سب کچھ ٹھیک سے چل رہا تھا۔ پھر ایک دن کسی نے شاہزین کا فیس بک آکاونٹ ہیک کر لیا۔ فیس بک ایپ کا مقصد تو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنا تھا، لیکن یہ ہیکرز اپنا شوق پورا کرنے کے لیئے دوسروں کی زندگی کے ساتھ بھی کھیل جاتے ہیں۔
اور کچھ لوگ ہمارے دل کے ساتھ نہیں،
روح کے ساتھ کھیل جاتے ہیں!!

وہاں فیس بک آکاونٹ ہیک ہوا اور یہاں رشتہ ختم ہوا۔ جہاں شاہزین نے ابرش کے خلاف اتنے باتیں سن کر بھی اسے نہ چھوڑا، وہاں اس نے صرف ایک فیس بک آکاونٹ ہیک ہونے پر اس سے رشتہ ختم کر دیا کیونکہ اسے شک تھا کہ یہ کام ابرش کا ہے ۔ کتنی ترقی کر لی ہے ہم نے، اب رشتے اتنی سی بات پہ بھی ختم ہوا کرتے ہیں۔ اگر یہ سب ان دونوں کے نکاح کے بعد ہوا ہوتا تو کیا وہ اسے طلاق دے دیتا؟ کیا اسے اتنا بھی یقین نہیں تھا اس پہ؟ کیا یہ وجہ کافی تھی رشتہ ختم کرنے کے لئے؟ کیا سائنس نے ترقی اسی لئے کی تھی؟

آکاونٹ ہیک ہوا۔۔۔۔پھر اس میں موجود ڈیٹا کا غلط استعمال کیا گیا۔ ہماری بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مجرم آذاد گھومتے ہیں اور بے قصور سزا کاٹتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ شاہزین نے اپنے ذرائع سے معلوم کروایا تو اس ہیک آکاونٹ کی لوکیشن ابرش کے گھر پر دکھائی دے رہی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہی سب کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ہماری نوجوان نسل اب ان چیزوں پہ یقین کرتی ہے، انسان کی زبان پر نہیں۔ ابرش اور اس کے گھر والے اسی بات کا یقین دلاتے رہے کے کام ان کا نہیں، یہاں تک کہ انہوں نے اف آئی اے کے سائبر کرائم شعبہ میں شکایت بھی درج کروائی لیکن اس کا بھی کوئی فایدہ نہ ہوا۔ چوری تو پھر چوری ہے، اور پھر جب نظام اس طرح کا ہو تو یہ سب تو ہو گا۔

شاہزین نے نہ تو اپنی محبت پہ یقین کیا اور نہ ہی اس لڑکی کی اس قسم پہ جو اس نے ﷲ کو گواہ رکھ کے اٹھائی۔ آج کہ اس جدید دور میں انسان اس قسم کو جھٹلا دیتا ہے جو ﷲ کے نام پہ اٹھائی جاتی ہے اور اس ثبوت پر یقین کرتا ہے جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے۔ صحیح کہتے ہیں کہ:
دلوں میں فرق آجاۓ تو اتنا یاد رکھنا تم
دلیلیں، منتیں، اور فلسفے بیکار جاتے ہیں ۔۔۔!!

اور پھر یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت ساری زندگی بھی خود کو بے قصور ثابت نہیں کر پاتی۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ بے قصور روتی ہی رہ گئی اور یہ سب کرنے والا اپنی زندگی سکون سے جی رہا تھا۔ شاہزین نے ایک بار بھی نہ سوچا کہ وہ ایک بے قصور پر تہمت لگا کر کتنا بڑا گنہا کر رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ پہاڑ کا اتنا بوجھ زمین پر نہیں ہوتا جتنا بے قصور پر تہمت لگانے کا ہوتا ہے۔

شاہزین کا تو ایک فیس بک آکاونٹ ہیک ہوا تھا، وہ آکاونٹ تو پھر بن سکتا تھا۔ لیکن یہ رشتہ ختم ہونے پہ جو ابرش اور اس کے گھر والوں پر گزری، وہ صرف وہی جانتے ہیں۔ سب قسمیں وعدے بھول کر وہ ایسے پیچھے ہٹا جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔
وعدوں کے پاسدار تھے باتوں سے پھر گئے
دل کے قریب لوگ تھے نظروں سے گر گئے

آٹھ ماہ کا یہ رشتہ ایک پل میں ختم ہو گیا۔ پھر نہ تو کبھی شاہزین وآپس آیا اور نہ ہی کبھی ابرش میں اتنی ہمیت ہوئی کہ وہ آگے بڑھے۔ اسے تو اس بات کا در تھا کہ اگر اتنی سی بات پر رشتے توڑے جا سکتے ہیں تو اسی طرح ہر چھوٹی بات پہ طلاق بھی ہو سکتی ہے۔ غلطی ہماری ہی ہے، ہم نفرتوں کےاتنے عادی ہو چکے ہیں کہ محبت بانٹنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

رشتوں میں محبت سے بھی زیادہ اہم یقین ہوتا ہے۔ رشتے یقین سے بنتے ہیں، اسکرین شاٹ اور موبائل ریکارڈ سے نہیں۔ کتنا فضول لگتا ہے یہ سوچنا بھی کہ ایک موبائل اپ آکاونٹ ہیک ہونے پر بھی رشتے ختم ہوتے ہیں۔ ہمارے لۓ تو یہ ایک فضول سی کہانی ہے لیکن ، جس پہ گزری وہی جانتا ہے کہ یہ کیا تھا۔ شاہزین کی غلطی اتنی ہے کہ اس نے ایک موبائل اپ کی وجہ سے شک کو اپنے دل میں جگہ دی اور اپنا ہی نقصان کر دیا۔

ہم اپنے ساتھ ہوئی ذیادتی پر ہمیشہ دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں دوسروں کے ساتھ ۔ شاہزین کہ ساتھ برا ہوا، تو کیا اس نے ابرش کے ساتھ اچھا کیا؟ کیا اسے یہ کرنا چاہۓ تھا؟ کیا یہ سب ٹھیک ہو رہا ہے؟ کیا اسے بدلنے کی ضرورت نہیں؟ کیا شاہزین کو یہ سب بھول کر آگے نہیں بھر جانا چاہیۓ تھا یہ سوچ کر کہ اس نے ابرش کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرنی ہے؟

یہ کوئی ایسی کہانی نہیں جو ہمارے لیۓ نئ ہو۔ روز ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ دوستی سوشل میڈیا پہ ہوئی، یقین کی جگہ اسکرین شاٹ تھے اور پھر کچھ ہی وقت میں سب ختم۔ اس کے علاوہ عام طور پر تصاویر لیک ہو جاتی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں کے نام سے اور لڑکیاں لڑکوں کے نام سے فیک آکاونٹ بنا کر استعمال کر رے ہوتے ہیں۔ اور پھر جب کچھ غلط ہوتا ہے تو دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔ اسی طرح اس ہیکر کے ساتھ ساتھ شاہزین کی بھی تو غلطی ہے جس نے اپنا ذاتی ڈیٹا اس آکاونٹ میں رکھا، یہ جانتے ہوۓ کہ آکاونٹز ہیک ہوتے ہیں۔ برا کوئی نہیں ہوتا، برا ہم بنا دیتے ہیں۔

اب بھی کچھ نہیں بگڑا، ہم چاہیں تو خود کو بدل سکتے ہیں اور ان سب کو ہونے سے روک سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہمارا شوق کسی کو تکلیف نہ پہینچاۓ۔ یہ کہانی ایک فیس بک ہیکنگ کی نہیں، بلکہ اس ترقی کی ہے جس کو ہم نے اپنے نقصان کی وجہ بنایا اور جس میں ہم اتنا کہو گئے کہ رشتوں کی پہچان تک نہ رہی۔ ہمیں چاہیۓ کہ ہم ان چیزوں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرئں، نہ کہ اسے اپنے اور دوسروں کے نقصان کی وجہ بنائں۔ " زندگی میں جو چاہو حاصل کر لو، بس اتنا خیال رکھنا کہ تمہاری منزل کا راستہ کبھی لوگوں کے دلوں کو توڑتا نہ گزرے"

 

Afshaal Kiani
About the Author: Afshaal Kiani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.