میاں نوازشریف لیفٹینٹ جنرل غلام جیلانی کی مہربانی
سے25اپریل1981 کو پہلی بار جب پنجاب کے وزیرخزانہ مقرر ہوئے توان کی دولت
کے انبار لگنے کا عمل بھی اسی دن سے شروع ہوتاہے اور جیسے جیسے ان کا
اقتدار آگے بڑھتا رہادولت کے انبار بھی اسی طرح بڑھنے لگتے ہیں۔میاں
نوازشریف کے قریبی ساتھی اورمہرباں دوست میاں زاہد سرفرازکا ایک انکشاف
بیان کرتا چلوجو کہتے ہیں کہ انیس سو پچاسی میں میاں نوازشریف کے وزیراعلیٰ
پنجاب بننے میں میرابھی ہاتھ رہاہے جب میں اٹھتر میں وزیرتجارت تھاتو
کابینہ میں میری اچھی بات چیت تھی ان دنوں لفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی ڈیفنس
سیکرٹری تھے ان کی میری اچھی دوستی تھی اور جب وہ گورنر کے عہدے پر فائز
ہوئے تو ہماری دوستی مزید مظبوط ہوگئی میاں زاہد سرفراز نے یہ انکشاف کیا
کہ میاں نوازشریف سے میری پہلی ملاقات کچھ ایسے ہوئی کی جنرل صاحب سے میں
نے کچھ کام کہا ہواتھا، کسی شخص کی رپورٹ غلط آئی تو جیلانی صاحب نے صبح
سویرے آٹھ بجے مجھے فون کیااور کہاکہ میرے پاس آجائیں اور ناشتہ میرے پاس
کیجئے ،میں جب وہاں گیا تو جیلانی صاحب لان میں موجود تھے مجھ سے کہا کہ
کیا کھاوگے تو میں نے کہا کہ انڈا پراٹھا منگوالیجے تو انہوں نے کہاکہ انار
کا جوس پی لیجے بہت اعلیٰ ہے تو میں نے کہا کہ مجھے شوگر ہے میں جوس نہیں
پی سکتا،انہوں نے بیرے کو ناشتہ لانے کو کہاتھوڑی بعد انہوں نے مجھے پھر
کہا کہ میرے کہنے پر انار کا جوس پی لیں ان کے اسرارپر میں نے کہا کہ
منگوالیجے جیلانی صاحب نے ایک لڑکے کو آوازدی جو سفید شلوارقمیض میں وہاں
پھررہاتھا،انہوں نے آوازدی کہ نواز۔۔وہ لڑکا بھاگتا ہوآیا توانہوں نے اس
لڑکے کوکہا کہ جاوبیرے کو کہو کہ میاں صاحب کے لیے بھی انارکا جوس لے آئے ،جس
پر میں نے پوچھا کہ یہ لڑکاکون ہے تو وہ کہنے لگے کہ یہ اتفاق فاونڈری والے
میاں شریف کا بیٹا نوازشریف ہے ۔ میاں زاہد سرفراز کہتے ہیں کہ اس روز میں
نے پہلی بار نوازشریف کو دیکھااس کے بعد انیس سو اکیاسی میں نوازشریف کو
وزیرخزانہ لگادیاگیا،بعد ازاں وہ مجھے سے دوستی بڑھا کر وزیراعلیٰ پنجاب کے
عہدے پر بھی جاپہنچے ۔ اب زرا چلتے ہے پیپلزپارٹی کے موجود سربراہ کی
طلسماتی دولت کی جانب بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت اپنی اگلی نسل کو منتقل
کرنے والے آصف زرداری کی دولت کا بھی ایک بڑا حصہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار
سے منسلک ہے انیس سو اٹھاسی کی دہائی سے لیکر بے نظیربھٹو کی دو حکومتوں کے
دوران یعنی انیس سو چھیانوے تک زرداری صاحب نے پیسہ بنانے میں خوب شہرت
کمائی اور اس قدر دولت سمیٹنے پر انہیں مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا
رہا،انہوں نے فرسٹ جنٹل مین کی حیثیت سے اپنے سیاسی اثرو رسوخ کا اس قدر
فائدہ اٹھایا کہ انیس سو نوے میں ہی محترمہ کی حکومت جانے کی وجہ بنے جبکہ
ان ہی دنوں دس اکتوبر 1990کو اغوا بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال
کی وجہ سے جیل کی سیر کرنے جانکلے ۔جس کی گواہی یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر کی
حکومت کے بعد عبوری وزیراعظم غلام مصطفی جتوتی نے بے نظیر حکومت میں ہونے
والی مالی بے ضابطگیوں کا بھانڈا پھوڑ دیااور قوم کو یہ انکشاف کیا کہ
حکومت میں ہر منصوبے کے آغاز سے قبل اس رقم کا دس فیصد حصہ آصف زرداری صاحب
کو دینا لازم تھا وگرنہ وہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہوجاتاتھا۔ان
تمام باتوں اور انکشافات کے باوجودیہ مرد آہن کان بند کئے دولت گننے میں
مصروف رہا اور پھر جب محترمہ کی شہادت کے بدلے میں انہیں 2008سے 2013تک کی
حکومت ملی تو اس کے بعد جوملکی خزانے کا حال ہوا ہوگا اسے یہاں بیان کرنا
ایک مشکل کام ہوگا،کیونکہ اس آخری حکومت میں زرداری صاحب کا حکومت کے ساتھ
براہ راست رابطہ رہا یعنی حکومت ہی ان کی تھی ۔ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دنوں
جو شوگر رپورٹ آئی ہے اس میں اپوزیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کی حکومت کے
خلاف ایک بے معنی پروپیگنڈہ شروع کردیا گیاہے اور کہا یہ جارہاہے کہ
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شوگر ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی گئی ،پہلی
بات تو یہ ہے کہ یہ اجازت وزیراعظم نے زاتی حیثیت سے نہیں دی ہے بلکہ ایک
کمیٹی اور کابینہ کے زریعے ہی ایسا ممکن ہوتاہے لیکن اپوزیشن کے لیڈران جب
شوگر ایکسپورٹ کا رونا روتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں ،کہ اس قسم کے معاملات
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دور میں بھی ہوتے رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ
اپوزیشن والے پہلے اپنے دور کے فیصلوں کے احتساب کی بات کریں پھر ان کا شور
شرابا جائز قراردیا جاسکتاہے ،شاہد خاقان عباسی جب حادثاتی طور پر وزیراعظم
بنے تو انہوں نے سلمان شہباز کے ایما پربیس ارب روپے کی سبسڈی دی اور یہ ہی
نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی ،اور اس
ہی دور میں سلمان شہباز کی شوگر مل نے کسانوں کو بھی نہیں بخشا جس میں
انہوں نے سو ارب روپے کی کم ادائیگی کی ۔ملک میں چینی کے چھوٹے اور بڑے
88کارخانے ہیں اگر اس کے مالکان کسی سیاسی طاقتور گروپ سے تعلق رکھتے ہیں
تو معلوم کرنا ہوگا کہ ان کے تانے بانے کہا جاکر ملتے ہیں ،یقینا یہ سب کچھ
تحریک انصاف کی دو سالہ حکومت میں تو نہیں ممکن ہوا ہوگا ۔میں یہ سمجھتا
ہوں کہ حزب اختلاف کی دونوں جماعتیں اپنے دور کے اس قسم کے فیصلوں کو چھپا
نہیں سکتے ۔اور اگر مسلم لیگ ن اور پی پی والے اپنے دور کے فیصلوں کی
تفاصیل نہیں دینا چاہتے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک کا جو
وزیراعظم ہے اسے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں،وزیراعظم عمران خان کی نظر میں
احتساب سب کا ہونا چاہیے والا نظریہ ہی ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ ہے اس
سلسلے میں انہوں نے یہ واضح بھی کردیا ہے کہ1985سے شوگر مافیا کے احتساب کا
عمل شروع کیا جائے گا،اور بدعنوانی کے کیسز قومی احتساب بیورو،اور ایف آئی
کو بھیجے جائینگے ایک معاملے کی تفصیل تو میڈیا کے پاس ہے دوسرا معاملہ بھی
جلد بے نقاب ہوگا خواہ وہ نصف صدی کا قصہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس سے قبل
اپوزیشن کی جانب سے اس قسم کی اچھل کود کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ
اپنے گریبان میں جھانک کر اگر موجودہ وقتوں کی بات کریں تو زیادہ بہتر
ہوگا۔تاریخ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ کس کس طرح سے ان دونوں جماعتوں
نے اپنے اپنے ادوار میں ریاستی وسائل اور قومی دولت کو زاتی اور پارٹی
مفادات کے لیے استعمال کیا اورکس طرح عوام کے خون پسینے کی کمائی کو اپنے
مداح سراہوں پر بے دریغ لٹایاگیا ،آج یہ سب کے سب مکے کی اینٹیں بنے پھرتے
ہیں،مگر اب ان تمام بدعنوان اور چاپلوسیوں سے اقتدار حاصل کرنے والے
سیاستدانوں کا وقت پورا ہواچاہتاہے ،کیونکہ ملکی اقتداراس وقت زرداریوں اور
شریفوں کے پاس نہیں ہے بلکہ جو شخص اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہے اسے لوگ
عمران خان کہتے ہیں اور خان جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے ۔ختم شد
|