رام مندر : مہنتوں اور شنکرآچاریہ کے درمیان پھر سے سر پھٹول

رام مندرکی تعمیر کے لیے زمین کوہموار کرنے کے لیے دو جے سی بی ایک کرین اور چار ٹریکٹر لگائے گئے ہیں مگر سادھو سنتوں کا دماغ درست کرنے کی کوئی ترکیب سرکار کے پاس نہیں ہے۔ پہلے تو ٹرسٹ کی تشکیل پر خوب سر پھٹول ہوئی اور اب مندرکے مجوزہ ماڈل پر ایک تنازعہ شروع ہوگیا۔ شری رام جنم بھومی نیاس کے سینئر ممبر ڈاکٹر رام ولاس ویدنتی اوردگمبر اکھاڑہ کے مہنت سریش داس نے ایک میٹنگ کرکے پرانے نقشے کو مسترد کردیا اور نئے خصوصی پتھروں سے دنیا کے بہترین مندر کی تعمیر کے لیے ایک قرارداد پاس کی۔ رام ولاس ویدانتی بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان ہیں اور رام مندر تحریک سے شروع میں ہی وابستہ ہوگئے تھے ۔ مئی کے درمیان میں انہوں نے رام مندر ٹرسٹ کے صدر کو نام نہاد کانگریسی کہہ کر الزام لگایا تھا کہ وہ رام مندر کے لیے کی جانے والی پہلی نشست میں حاضر بھی نہیں ہوا تھا اوربی ایس پی کے بملندرمشرا نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر رام مندر کی کھلے عام مخالفت کی تھی۔

ویدانتی نے ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے پر بھی خوب جم کر اپنا نزلہ اتارا۔ ان کو شکایت ہے کہ وہ دو مہینے سے ایودھیا میں بیٹھا ہے لیکن مقامی سادھو سنتوں سے بات تک نہیں کرتا۔ سیاسی لوگوں میں مصروف رہتا ہے اور جن لوگوں نے رام مندر کی تحریک میں اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا انہیں نظر انداز کرتا ہے۔ کل مودی کے پرم بھکت مہنت سریش داس کو بھی رام ولاس ویدانتی نے اس بار اپنے ساتھ لے کر یہ ویدانتی نے یہ الزام لگایا کہ فلک بوس رام منددر کا وعدہ کیا تھا لیکن کچھ لوگ چھوٹا مندر بنانا چاہتے ہیں ۔دگمبراکھاڑہ کے مہنت سریش داس نے ویدانتی کی تائید میں کہا ہے کہ تمام سنتوں کی خواہش ہے کہ 500 سال بعد رام جنم بھومی پر ایک عظیم الشان مندر تعمیر کرنے کا موقع ملاہے ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا مندر ہے اورچونکہ اب وسائل کی کمی بھی نہیں ہے اس لیے ایک نیا نقشہ تیار کرکے اس کے مطابق مندر کی تعمیر کا کیا جائے۔

ٹرسٹ والے بھی سنتوں کے ایک گروہ کو لے کر میدان میں کود پڑے اور یہ الزام لگا دیا کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ دو تین سالوں میں مندر بن جائے۔ یہ لوگ اس طرح کا مطالبہ کرکے 30 سال تک تعمیراتی کام روکنا چاہتے ہیں۔ مندر اسی ماڈل پر بنایا جائے گاجوجوکروڑوں لوگوں کے دلوں میں واقع ہے ، ۔ جو لوگ اس کو تبدیل کرنے کے درپے ہیں ، وہ خود اپنی زندگی بھررام مندر نہیں دیکھ پائیں گے۔ایودھیا سنت سمیتی کے صدر کنہیا داس کا کہناہے کہ مندر کا60 فیصد کام ہوچکا ہے۔ جلد ہی ایک عظیم الشان رام مندرتعمیرکیاجاسکتا ہے۔مہنت کنہیاداس نے سریش داس پر الزام لگایا یہ لوگ رام مندر کی تحریک میں ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کرتے رہے ہیں ۔ وی ایچ پی ویدانتی کی دگمبر اکھاڑے سے وابستگی کوکنہیا داس نے ان نادانی بتایا ۔ سنتوں کا سرکاری جتھا جلد سے جلد مندر بناکر مودی سرکار کو اگلے الیکش میں فائدہ پہنچانا چاہتا ہے۔ٹرسٹ کے صدرنرتیہ گوپال داس بھی دو تین سال کے اندر رام کے عظیم الشان مندر کا سپنا بیچ رہے ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی کو کلیان سنگھ سمیت ایودھیا آنے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔
حکومت کو اس معاملے میں مختلف سنکر اچاریہ کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سناتن دھرم کے تحفظکی خاطر ’آدی گرو شنکراچاریہ‘ نے ملک کے چار میں بنے چار سرکردہ پیٹھ (مراکز) قائم کیے تھے ۔ دھرم داس اور ستیندر داس کے علاوہ ملک کےان چار میں سے دو پیٹھوں کے شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی کو بھی اس ٹرسٹ پر شدید اعتراض ہے۔ ان کے مطابق ٹرسٹ میں شامل واسودیوانند سرسوتی جعلی شنکراچاریہ ہیں۔ جیوتش پیٹھ اور شاردا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی نے اعلان کیاہے کہ ’’سپریم کورٹ کے فیصلہ میں رام جنم بھومی کو ایک فرد کے طور پر قبول نہیں کیا گیا ہے۔ جب تک یہ فیصلہ مسترد نہیں ہوتا تب تک صرف پی ایم نریندر مودی کی حکومت کے کہنے سے وہ رام جنم بھومی تیرتھ نہیں بن جائے گا۔‘‘ سوامی سوروپانند کے شاگرد اور ترجمان سبدھانند کے مطابق اس ٹرسٹ کی ناقص تشکیل کے خلاف شنکراچاریہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں گے ۔ ویسے جعلی رام بھکتوں کے ذریعہ ایک نقلی شنکرآچاریہ کو ٹرسٹ میں شامل کرنا کسی حیرت کی بات نہیں ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے شنکراچاریہ سوروپ آنند نے کہا تھا کہ ’’اب تو یہ بھی قابل توجہ بن گئی ہے کہ ہندوستان کا وجود کب سے مانا جائے؟ آئین بنانے کے بعد یا 2014 سے، جب سے مودی وزیر اعظم بنے۔سپریم کورٹ نے اپنے چار فیصلوں میں واسودیوانند سرسوتی کو نہ تو شنکراچاریہ تسلیم کیا اورنہ سنیاسی مانا ہے۔ وشو ہندو پریشد اور سنگھ پریوار نے نہ تو پہلے عدالت کا ذرہ برابر احترام کیا اور نہ آگے کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ تو خیر آخری فیصلہ ان کے حق میں آ گیا ورنہ تو وہ اس کو بھی ماننے سے انکار کردیتے ۔ سوامی سوروپانند کے مطابق ’’ایودھیا علاقہ جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ کے حدود میں آتا ہے اور اس پیٹھ کے شنکراچاریہ وہ خود ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم مودی نے جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ کی شکل میں واسودیوانند سرسوتی کو ٹرسٹ میں جگہ دے کر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی بھارت کیا گل کھلاتی ہے اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ عدالت عظمیٰ اس بار اصلی شنکر آچاریہ کا ساتھ دے گی یا جعلی شنکر آچاریہ کا ؟ ویسے حقیقت پسندی کا تقاضہ یہ ہے کہ خود سوامی سوروپانند بھی عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں ۔

ایوان پارلیمان کےپچھلے بجٹ اجلاس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں یہ اعلان کرکے سب کو چونکا دیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی حکومت کو مندر کے تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنانے کا پابند کرتاہے ۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس کام کی خاطر تین ماہ کا جووقت دیا تھا اس کی میعاد۹ فروری (۲۰۲۰) کو ختم ہونے والی تھی لیکن اس کا اعلان دہلی میں صوبائی انتخاب کے پیش نظر ۵ فروری کو ہی کردیا گیا ۔ یہ اعلان وزیر قانون بھی کرسکتے تھے لیکن مودی جی نے خود یہ فریضہ انجام دیا تاکہ اس کا بھرپور سیاسی اٹھایا جاسکے ۔ یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے رام مندر کا فائدہ دہلی اور جھارکھنڈ میں اٹھانے کی کوشش کی گئی اور دونوں مقامات کو بی جے پی کو کراری ہار سے دوچار ہونا پڑا۔ بی جے پی رام جنم بھومی کے نام پرگزشتہ ۳۰ سالوں سے سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہےلیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے ترپ کا پتّے کو بھی بے اثر کردیا ہے بی جے پی کوسوچناچاہیے کہ آخریہ گائے سے کب تک دودھ دے گی اور یہ لوگ رس ملائی کھائیں گے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450145 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.