حرف لکھتی ہوں اور مٹا دیتی ہوں۔ ایک ایک لفظ جیسے منوں وزنی ہے لیکن حرف
ہی تو شناس ہے اور حرف کو ہی تو ثبات ہے۔ حرف کی گواہی تو القلم اور حرف کا
انعام ہی کتاب ہے۔ سو حرف کی قسم کہ سچ مگر تلخ اور کڑوا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے چند دنوں سے اکتاہٹ سی ہو گئی ہے۔ جس طرح کے
ٹرینڈز سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ گٹر اُبل پڑے ہوں۔ تعفن سا
تعفن ہے کہ دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں بلوچستان کی بیٹیوں اور بہنوں
کی لاپتہ بھائیوں کے لیے پکار نے دل اور بھی بوجھل کر دیا ہے۔
22 مارچ 2005 کو پاکستان کی پارلیمان کا ایک وفد ڈیرہ بگٹی روانہ ہوا۔ اُس
وفد کے ہمراہ ہم چند صحافی بھی تھے۔ اس دورے کے دوران نواب اکبر بگٹی جن کا
آخری انٹرویو جیو ٹی وی کے لیے میں نے کیا تھا کئی ایک اہم باتیں سامنے لے
آئے۔
کبھی وقت ملا تو تفصیلاً تحریر کروں گی کہ نواب اکبر بگٹی کس طرح ڈاکٹر
شازیہ کے ساتھ زیادتی پر ناراض تھے اور اُن کا یہ غصہ وقت کے ساتھ بڑھتا
چلا گیا تاہم وہ کبھی بھی آئین پاکستان کے مخالف نہ رہے۔
یہاں تک کہ ڈیرہ بگٹی کے اس دورے کے دوران بھی وہ پارلیمان اور سیاسی
جماعتوں سے بات چیت کرتے رہے البتہ جنرل مشرف کے حد درجہ مخالف تھے شاید
اسی لیے اُنھیں غدار بنانے کی کوشش کی گئی۔ نواب اکبر بگٹی نے واشگاف لفظوں
میں آئین پاکستان کی سربلندی کے لیے آواز اٹھائی تاہم آئین کو پامال کرنے
والے کیسے اُنھیں محب وطن مانتے؟
کورونا کے معاملے پر نااہلیت کے پردے میں عوام کے ساتھ کی جانے والی
مجرمانہ غفلت ہو یا لاپتہ افراد پر خاموش بیٹھا کمیشن، لاتعلق حکومت ہو یا
با اختیار ریاست۔۔۔ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک ایسا داغ ہے جس پر نہ کسی کو
ندامت نہ ہی کوئی شرمندگی۔
|