اسمبلی انتخابات کے نتائج

آسام، مغربی بنگال، کیرالہ ، تمل ناڈو اور پانڈیچیری میں ریاستی اسمبلیوں کے علاوہ کرناٹک اسمبلی کی تین ، یوپی کی ایک اور اندھراپردیش اسمبلی کی ایک سیٹ پر چناﺅ کے نتائج گزشتہ جمعہ کو آگئے ۔اسی کے ساتھ اندھرا اور چھتیس گڑھ سے ایک ایک پارلیمانی سیٹ پر بھی چناﺅ ہوئے۔ یہ انتخابات ہمارے جموری نظام کی بنیاد ہیں۔ ہندستان کے الیکشن کمیشن نے بڑی ہی خوش اسلوبی سے چناﺅ کرائے ہیں،جو ہمارے لئے باعث فخر ہیں۔

اگرچہ ملک میں بدعنوانی کا بول بالا ہے مگر کمیشن کی تندہی کی وجہ سے چناﺅ پر اس کا کالا سایہ نہیں پڑا ۔ انتخابی مہم کے دوران کمیشن نے ۴۷ کروڑ سے زیادہ کیش ضبط کیا جو خلاف قانون الیکشن میں استعمال کیا جانے والا تھا۔سکیورٹی کا بندوبست اس قدر چوکس تھا کہ انتخابات کے دوران کہیں سے تشدد کی اطلاع نہیں آئی اور کسی بھی پولنگ بوتھ پر دوبارہ پولنگ نہیں کرانی پڑی۔ حتٰی کہ ان علاقوں میں بھی جو ماﺅ نوازوں کے زیر اثر ہیں، کامیابی سے چناﺅ ہوئے۔ایک خاص بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ کہیں سے فرقہ ورانہ یا ذات برادری کی منافرت پھیلانے کی شکایات کمیشن کو موصول نہیں ۔ اس شاندار کارگزاری کے لئے چیف الیکشن کمیشن ڈاکٹر شہاب الدین یعقوب قریشی اور ان کے رفقاء مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے اس مرتبہ کسی نے ای وی ایم پر بھی شک کا ا ظہار نہیں کیا حالانکہ گزشتہ پارلیمانی شکست کے بعد بھاجپا مدتوں ان مشینوں کے خلاف پروپگنڈہ کرتی رہی۔

کل ملاکر 824اسمبلی سیٹوں کےلے چناﺅ ہوئے جن میں تمل ناڈو کی234، کیرلہ کی140، مغربی بنگال کی 294 ، آسا م کی126 اور پانڈیچیری کی30 سیٹیں شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ہی کرناٹک اسمبلی کی تین، یوپی اور اندھرا پردیش کی ایک ایک اسمبلی سیٹ کے لئے اور اندھرا و چھتیس گڑھ سے ایک ایک لوک سبھا سیٹ کے لئے بھی ضمنی چناﺅ ساتھ میں ہوئے۔

یہ خبریں اخباروں میں تفصیل کے ساتھ آچکی ہیں کہ ان انتخابات میں مسلم ممبران کی تعداد بڑھی ہے۔مغربی بنگال میں یہ تعداد سابقہ اسمبلی کی 46 کے مقابلے میں59، کیرلہ میں25 سے بڑھ کر36اور آسام میں25 سے 28 ہوگئی ہے۔ جبکہ تمل ناڈو میں سات سے گھٹ کر6 اور پانڈیچیری میں دو سے گھٹ کر ایک رہ گئی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہوئی ہے کہ آسام اسمبلی میں کانگریس کے بعد سب سے بڑی پارٹی مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے آل انڈیا یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بن گئی ہے جس کے18 ممبران ہیں۔آسام میں کانگریس تیسری بار برسراقتدار آگئی ہے ۔ کیرلہ میں مسلم لیگ کی پوزیشن بھی مضبوط ہوئی ہے۔

ان نتائج کا تجزیہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے دونوں بڑی قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کی فکر مندی بڑھنی چاہئے۔ کانگریس کے لئے تو ان میں کچھ پہلو اطمینان کے بھی ہیں لیکن بی جے پی کے لئے یہ نتائج انتہائی شرمناک اور مایوس کن ہیں۔ ان نتائج سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ پارٹی کے لئے مسٹر گڈکری کی قیادت راج ناتھ کی صدارت سے زیادہ مایوس کن ہے جن کو آر ایس ایس نے اس منصب پر پہنچایا ہے۔ ان انتخابات کو مسٹر گڈکری نے بڑی اہمیت دی تھی اور خصوصاً جنوبی ہند کی ریاستوں میں پارٹی کے بڑے لیڈروں سشما سوراج اور ارن جیٹلی وغیرہ کو خاص طور سے متعین کیا تھا۔ جاﺅڈیکر اور مسزسوراج نے کیرلہ ، تمل ناڈو اور پانڈیچیری میں کامیابی کا دعوا بھی کیا تھا مگر حیرت انگیز طور پر ان ریاستوں میں بھاجپا کو ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی۔ بی جے پی نے کیرلہ میں138، تمل ناڈو میں 131 اور پانڈیچیری میں 19 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں اکثر کی ضمانتیں ضبط ہوگئی۔ یہ پارٹی کے لئے سخت جھٹکا ہے جو جنوب میں قدم جمانے کے لئے کوشاں تھی۔

یہی حشر بھاجپا امیدواروں کا مغربی بنگال میں بھی ہوا ہے جہاں اس نے294 میں سے 287 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے مگر ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی۔ آسام میں بھی اس کو ہزیمت اٹھانی پڑی جہاں 50میں سے اس کے صرف پانچ امیدوار جیتے ہیں جبکہ سابق اسمبلی میں اس کے دس ممبر تھے۔ پارٹی کو صرف کرناٹک کی تین اسمبلی سیٹوں اور چھتیس گڑھ کی بستر پارلیمانی سیٹ کی کامیابی پر اکتفا کرنا پڑا۔ ان میں اس کو کرناٹک میں دو سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔

یہ نتائج کانگریس کے لئے بھی بعض پہلوﺅں سے ناخوشگوار ہیں۔تمل ناڈو اور پانڈیچیری سے وہ اقتدار سے باہر ہوگئی ہے اور کیرلہ میں اگر چہ اقتدار حاصل ہوگیا ہے مگر پوزیشن کمزور ہے۔ البتہ آسام میں واضح اکثریت کا حصول پارٹی کی بڑی کامیابی ہے جس کا قیاس نہیں کیا جارہا تھا۔

مغربی بنگال میں بیشک ترنمول کانگریس کے ساتھ مل کر اس نے بایاں بازو محاذ کو اکھاڑ پھینکا ہے مگر اس حقیقت کو کیسے بھلایا جائے کہ جون1977ء کے انتخاب میں اگرچہ بایاں بازو محاذ نے کانگریس سے اقتدار چھیننا تھا مگر اب جب34 سال بعد کمیونسٹ اقتدار ختم ہوا ہے تو اقتدار کانگریس کو نہیں ملا ہے بلکہ ایک علاقائی پارٹی کو ملا ہے اور اس کو سرکار میں ایک چھوٹے پارٹنر کی حیثیت حاصل ہوگی۔ ترنمول کانگریس نے 294رکنی اسمبلی میں 184 سیٹیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی اور حکومت سازی کے لئے اس کو کانگریس کے سہارے کی ضرورت نہیں۔البتہ یہ سوچ کر اطمینان ضرور کیا جاسکتا ہے کہ ٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی بنیادی طور سے کانگریسی ہی ہیں۔کانگریس سے ان کا اختلاف اس بات پر تھا کہ وہ بائیں بازو محاذ کے تئیں بے لچک سخت رویہ چاہتی تھیں مگر کانگریس قیادت کمیونسٹوں کے تئیں نرم گوشہ رکھتی تھی۔ اس کی ایک وجہ کمیونسٹ سوویت یونین کے ساتھ ہند کے دوستانہ تعلقات بھی تھے۔پارٹی کے ممبران کی تعداد گزشتہ کے مقابلے 21سے بڑھ کر42 ہوگئی ہے۔ یہ نتیجہ اس اعتبار سے بھی اچھا ہے کہ کانگریس نے صرف 65 سیٹوں پر چناﺅ لڑا تھا۔لیکن یاد رہے کہ یہ کامیابی ٹی ایم سی کی لہر کی بدولت ممکن ہوسکی ہے جس میں بائیں بازو محاذ کو صرف 63پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ممتا بنرجی ریاست کی معیشت اور انتظامی مشینری کو پٹری پر لاسکیں گی یا نہیں؟ کمیونسٹ پارٹیوں نے ٹریڈ یونیوں کی بیجا حوصلہ افزائی کر کے ریاست کی صنعت اور تجارت کو تباہ کردیا ہے اور انتظامیہ پر پارٹی کیڈر کی بالادستی کی وجہ سے 34 سالوں کی طویل مدت میں انتظامی ڈھانچہ قطعاً مفلوج ہوچکا ہے۔کمیونسٹ کیڈر اپنی زور زبردستی کی اس روش کو، جس کے وہ34 سال سے عادی ہوگئے ہیں آسانی سے چھوڑنے والے نہیں اور انتظامی نظام آسانی سے متحرک ہونے والا نہیں۔ ممتا بنرجی اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ کس طرح اس پورے ماحول کو بدلیں گیں۔ اگر سال دو سال میں انہوں نے اس میں کامیابی حاصل کرلی تو یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہوگا۔ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج انتظامیہ کو نظم و ضبط کا پاپند کرنا اور پارٹی کیڈر سے محفوظ رکھنا ہی ہوگا۔

اگرچہ کانگریس اتحاد (یو ڈی ایف )کو کیرلہ میں بھی کمیونسٹوں کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں کامیابی مل گئی ہے اور پارٹی کے وزیر اعلیٰ نے اقتدار بھی سنبھال لیا ہے مگر ان کے لئے یہ کانٹوں کا تاج ہی ہوگا۔ ریاست میں کانگریس نے82 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور صرف 38 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ کے 24میں سے20 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور وہ دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے۔جبکہ اتحاد میں شامل کیرلہ کانگریس نے 15 سیٹیںحاصل کی ہیں۔اس طرح کانگریس کے وزیر اعلا کو ان چھوٹی پارٹیوں کے دباﺅ میں رہ کر ہی کام کرنا ہوگا۔

کانگریس کو بڑی ہزیمت پانڈیچیری میں اٹھانی پڑی ہے جہاں این رنگا سامی کی زیر قیادت ’این آر کانگریس ۔انا ڈی ایم کے‘ مورچہ نے کانگریس کا 12سالہ اقتدار ختم کردیا اور اسمبلی کی30 میںسے20 سیٹیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی ہے۔مسٹر رنگا سامی اصلاً کانگریسی تھے وہ ریاست کے وزیر اعلا بھی رہ چکے ہیں۔ جب ریاستی قیادت نے ان کو نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کیا تو وہ انہوں نے مرکزی قیادت سے رابطہ قائم کیا مگر مرکزی قیادت بھی ان کے سیاسی قد کو سمجھنے میں ناکام رہی ۔ چنانچہ انہوں نے چند ماہ قبل کانگریس چھوڑ کر اپنی پارٹی بنالی اور سترہ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے جن میں سے 15جیت گئے۔ کانگریس کو اس سے بھی بڑی ہزیمت اندھرا پردیش میں اٹھانی پڑی جہاں ریاست کے سابق وزیر اعلا وائی ایس ریڈی کے بیٹے جگن موہن ریڈی نے کڈپا لوک سبھا سیٹ کا ضمنی چناﺅ 5لاکھ 12 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیتا ہے۔ اور ان کی والدہ وائی ایس وجے لکشمی نے پولی وندولا اسمبلی سیٹ پر 85 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے جیتی ہے۔ کڈپا کی سیٹ خود مسٹر جگن کے استعفے سے اسوقت خالی ہوئی تھی جب انہوں نے پارٹی میں نظر انداز کئے جانے پر کانگریس چھوڑ دی تھی۔ اب انہوں نے پارٹی کو چیلنج دیا ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کر کے چناﺅ کرا لے اور دیکھ لے عوام کی طاقت کس کے ساتھ ہے۔ یہ صورتحال کانگریس کے کئے سخت تشویش کا باعث ہوگی۔ کہا جاسکتا کہ پارٹی کے لیڈر جگن کے بارے میں رویہ طے کرتے وقت عوام کے رجحان کو سمجھنے میں ناکام رہے۔یہی صورتحال تمل ناڈو میں بھی ہوئی ۔وہاں بھی قیادت کو عوام کا رجحان سمجھنے میں بھی زبردست دھوکہ ہوا ہے۔ کانگریس نے اپنی شریک پارٹی ڈی ایم کے ساتھ خاصے طویل سیاسی ڈرامے کے بعد63 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے مگر صرف چھ جیت سکے۔

یہ صورت حال سیکولر جمہوریت کے لئے بھی اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی ہے۔ نتائج سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ علاقائی طاقتوں کا دبدبہ بڑھ رہا ہے۔ ہم این ڈی اے کے دور اقتدار میں یہ دیکھ چکے ہیں چھوٹی علاقائی پارٹیاں اپنے محدود مفادات پر زیادہ متوجہ ہوتی ہیں جس سے وسیع ترقومی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔

آسام میں بیشک کانگریس اقتدار میں واپس لوٹی ہے اور دس مسلم امیدوار بھی کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ہیں، مگر وہاں انتخابی مہم کے دوران اس کی سیکولر شبیہ پر نرم ہندو توا کا رنگ غالب آگیا ۔ اے جی پی اور بی جے پی کی شرمناک شکست کا راز یہ ہے کہ انتخابی مہم کا رخ ایسا رہا جس میں اصل نشانہ بھاجپا یا اور اے جی پی کے بجائے اے آئی یو ڈی ایف کی بااثر موجودگی بن گئی اور وہ ہندو ووٹ جو سنگھ پریوار کی فرقہ ورانہ سیاست سے متاثر تھا، گو گوئی کی قیادت میں مجتمع ہوگیا ۔ مسٹر گوگوئی کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے برگشتہ اور باغی عناصر سے مذاکرات کا عمل شروع کرکے ان کی ہمدردی حاصل کرلی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی حکومت اقلتیوں کے تئیں کیسا رویہ اختیار کرتی ہے؟یہ بات قابل ذکر ہے آسام کی مسلم آبادی وہاں کی کانگریس حکومتوں کی مسلم مخالف پالیسیوں کی بدولت ہی سخت آزار میں رہی ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.