مودی کی طاقت ’’آر ایس ایس ‘‘!۔

آر ایس ایس کی سوچ و فکر، مقاصد و عزائم اور اس کے لٹریچر اور کارگزاریوں سے واضح ہے، اس گروہ کی سرگرمیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، گاندھی کے قاتل ناتھو رام گاڈسے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)کی سرکردہ رہنما پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے نہ صرف دیش بھکت بلکہ ہیرو بھی قرار دیا ۔لیکن آج کے بھارت میں گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد کے برعکس نفرتوں، تقسیم در تقسیم، تشدد برائے تشدد پر مبنی سوچ و فکر پھیلانے والوں کا راج چل رہا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے بالخصوص آر ایس ایس و دیگر سنگھ پریوار گروہوں کے بطن سے 1980 ء میں جنم لیا، تو آر ایس ایس کے نظریہ ہندوتوا کے مطابق ہندو یونٹی کا نعرہ لگایا لیکن اس جماعت کا یہ نعرہ و نظریہ اس قدر پست خیالی پہ مبنی تھا، کہ ان کے نزدیک ہندو اتحاد کے لئے مسلمان، سکھ و عیسائیوں سے نفرت کرنا ضروری تھا۔ اپنے وجود کے ساتھ ہی بی جے پی نے نفرتوں کو فروغ دینا شروع کردیا اور اس ضمن میں تین اسکیموں کا عملی پرچار کیا، جو بھارتیوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئیں، سب سے پہلے بی جے پی نے ’’اک ماتا یجنا’’کی اسکیم کا آغاز کیا جس کے تحت بھارت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یاترا کی گئی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں وشوا ہندو پریشد و آر ایس ایس کے شدت پسندوں نے شرکت یقینی بنائی اور بھارت ماتا کی پوجا کی، اس اسکیم کے مطابق اس نظریہ کا پرچار کیا گیا کہ جو بھارت ماتا کی پوجا کا منکر ہے، وہ ہندوؤں اور ہندو مذہب کا دشمن ہے، مسلمان و عیسائی ایک خدا پہ یقین رکھتے ہیں، وہ بھارت ماتا کو بطور خدائی روپ میں کسی طور بھی قبول نہیں کرسکتے تھے۔یوں بی جے پی کا پہلا تیر نشانے پہ لگا اور مذہبی تفاوت ابھارنے میں کامیاب ہوگئی، اسی کے ساتھ دوسری طرف بی جے پی نے ایک اور اسکیم ’’رتھ یاترا’’کا پروگرام بنایا جس میں ارجن و دیگر ہندو بادشاہوں کا چیریاٹ بناکر اس بات کو فروغ دیا کہ یہ بادشاہ خدا کا روپ تھے اور ہندوؤں کی مقدس و مذہبی جنگ کے قافلے کے نمونے کی صورت سومناتھ سے یاترا کا آغاز کرکے ایودھیا پہ اختتام کیا، یاترا کے آغاز سے ہی ایل کے ایڈوانی جو کہ ارجن کا کردار ادا کررہے تھے و دیگر بی جے پی رہنماؤں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی اور شدت پسندی کو فروغ دیا، تو ساتھ ہی یاترا میں شامل آر ایس ایس ویشوا ہندو پریشد کے کارکنوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کردئیے، جس کے نتیجے میں متعدد ہندو مسلم تصادم ہوئے، نامور بھارتی مورخ کے این پنیکر کے مطابق اس یاترا کے اختتام تک کل 116 فسادات ہوئے، جن میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 564 افراد مارے گئے جبکہ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔رہی سہی کسر بی جے پی کی تیسری اسکیم رام جنم بھومی کی آڑ میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اور بابری مسجد کو تباہ کرنے کی اسکیم نے پوری کردی، جس کے نتیجے میں پورا ہندوستان فسادات کی لپیٹ میں آگیا اور ہزاروں افراد جان سے گئے، غیرمعمولی معاشی نقصان ہوا اور بھارت میں نفرتوں کی پختہ دیوار قائم ہوگئی۔1999 ء میں اقتدار میں آکر بی جے پی نے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے عمل کو تیز کردیا، مرلی منوہر نے تعلیم کی وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہی ٹیکسٹ بک بورڈ، تحقیقی و دیگر اہم پوزیشنوں پر شدت پسند ہندو بٹھا دیے، جس نے بھارت کے تعلیمی ڈھانچہ کو ہندوتوا نظریہ کے مطابق قائم کردیا، جس سے اس نسل کو تو کوئی فرق نہ پڑا جنہوں نے یا تو براہ راست آزادی کے لئے قربانیاں دیں یا دیکھیں یا وہ جنہوں نے اپنے بزرگوں سے یہ باتیں سنیں لیکن نسل نو اس زہر کا شکار ہوگئی اور آج بھارت جل رہا ہے، 2002 ء میں مودی کی حکومت میں گجرات میں ہزاروں مسلمان شہید کئے اور لاکھوں کو گھر بار چھوڑنے پہ مجبور کردیا گیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بی جے پی مودی سے سنگین بدانتظامی، نااہلی و کوتاہی پہ سوال کرتی لیکن الٹا نریندر مودی کو ہیرو کے طور پر جانا جانے لگا جسے انعام کے طور پر 2014 ء میں بھارت کا وزیراعظم بنادیا گیا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر بھارت اس وقت ہندو توا نظریے کی لپیٹ میں ہے اور تعصب میں گھرا ہوا ہے ۔مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کو ہندو راشٹر بنانے پہ تیزی سے عمل شروع کردیااور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے لگا۔ مودی، امیت شاہ اور اجیت دوول کی تکون نے بھارت کے جلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، پہلے گائے ماتا اور جے شری رام نعرے کی آڑ میں مسلمانوں و عیسائیوں پہ خوب ظلم کے پہاڑ توڑے اور اب CAA اور NRC جیسے کالے قوانین کے ذریعے سیکیولر بھارت کو دنیا میں شدت پسند ہندو دیش کے طور پر مشہور کردیااس کے علاوہ مسلمانوں پر ایک اور الزام تھوپ دیا کہ وہ بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے قصور وار ہیں جس کے بعد پورے بھارت میں ایک بار پھر ہندو مسلمانوں کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں ۔ بھارت کی حالات اس وقت نہایت سنگین ہیں ، ایک طرف تو وہ چین سے شکست کھائے ہوئے ہے ، دوسری طرف نیپال کا سرحدی تنازعہ اور اس کے علاوہ بھارت پاکستان آزادکشمیر کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی بھی کررہا ہے ایسے میں بھارت اپنی ہی تباہی کو بارہا دعوت دے رہا ہے۔ بھارت کا ہندوتوا وزیراعظم اس وقت پورے بھارت میں نفرت کے بیج بورہا ہے ، جس کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک نفرت کے اصولوں پہ رہ کر ترقی تو دور زیادہ عرصے تک اپنا وجود بھی قائم نہیں رکھ سکتا، یہی وجہ ہے کہ آج کے بھارت میں بیروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچ چکی ہے، کاروبار ٹھپ ہیں، لوگ غریب سے غریب تر ہونے کا سفر تیزی سے طے کررہے ہیں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔مودی اپنے جارحانہ عزائم پر بدستور قائم ہیں، جہاں لوگ غربت سے مر رہے ہوں، وہاں ملکی خزانے کا بڑا حصہ ہتھیاروں میں جھونکا جارہا ہے، 2013 ء تک بھارت کی امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری پر 2 ارب ڈالر خرچ کرچکی تھی، جو مودی سرکار میں چھ ماہ کے اندر اندر 19 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اپنے پہلے دور میں مودی نے 41 ہتھیاروں کی خریداری کی اسکیمیں منظور کیں، رافیل طیاروں کی اربوں ڈالر کی ڈیل کے علاوہ غیرمعمولی رقم کی روس کے ساتھ ڈیل نے بھارت کے عوام پر بوجھ کو کئی سو گنا بڑھادیا ہے، آج بھارت ہتھیار خریدنے والا دنیا کا ٹاپ ملک ہے، مودی سرکار کی شدت پسندانہ اور جارحانہ پالیسیوں کی بدولت بھارت آج آتش فشاں کے دہانے پہ پہنچ گیاجو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
 

Syed Noor Ul Hassan
About the Author: Syed Noor Ul Hassan Read More Articles by Syed Noor Ul Hassan: 44 Articles with 33576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.