ڈاکٹر نبیل چودھری
ایک ڈر نہیں تو ان پرائیوٹ اسکول والوں کو نہیں اور ان کو جنہوں نے
ٹیکنالوجی پڑھنے والوں کی زندگیاں ویران کر کے رکھ دی ہیں۔
اسکول والوں کی اس بے اعتنائی پر ٹیکنالجسٹوں کی عدم شنوائی پر وزیر تعلیم
مراد راس،ہمایوں سرفراز راجہ اور جناب شفقت محمود،شفقت فرمائیں ۔
رکئے مرنا نہیں جانے سے پہلے بچوں کی فیس دے کے جائے گا۔پراؤیٹ اسکولز
مافیا ٹویٹر پر یہ ٹرینڈ آج پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا ۔یہاں
والدین نے اپنے دکھڑے بیان کئے بڑے بڑے اسکولوں نے والدین کا ناطقہ بند کر
رکھا ہے ان سے بچوں کی فیس طلب کرتے ہیں تنگ آمد بجنگ آمد وہ سوشل میڈیا پر
آ گئے عدالت کے حکم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پرائؤیٹ اسکولز کے مالکان نے
فیسوں کی وصولی پر زور دے رکھا ہے۔پاکستان اس وقت متعدد مافیاؤں کی زد میں
ہے کبھی چینی مافیا کا شور کبھی آٹے کی دہائی لگتا ہے قوم کو نادیدہ قوتیں
چلا رہی ہیں ۔پچھلے پورے ہفتے میں پٹرول نا پید رہا اس کی بنیادی وجہ یہ
تھی کہ حکومت نے ایک دم قیمت کم کر دی۔چند کمپنیوں کی اجارہ داری تھی انہیں
اربوں کا نقصان ہو رہا تھا لیکن فائدہ تو ہڑپ کرنے میں دیر نہیں لگاتی تھیں
انہوں نے پٹرول ہی غائب کر دیا ۔لوگ رل کے رہ گئے ۔ایک دم شور مچا پھر وزیر
توانائی عمر ایوب نے بڑھک لگائی کہ کمر توڑ کے رکھ دیں گے لیکن اس دوران
عوام کی کمر دہری ہو گئی۔مارکیٹ میں طلب اور رسد کے بنیادی اصولوں پر
کاروبار ہوتے ہیں ۔کیا ہمارے پالیسی ساز اس بات کو مد نظر نہیں رکھتے کہ
رات کے ایک منٹ گزرنے کے بعد پٹرول سات روپے سستہ ہو گا تو مالکان جو سات
روپے مہنگا خریدا ہوا ہے وہ کیسے سستا بیچیں گے۔اس سے قبل اس قدر سستا بھی
نہیں ہوا تھا عمران خان چاہتے ہیں کہ عوام کو ان کی عوام دوست پالیسیوں کا
فائدہ پہنچے لیکن ان کا سامنا ان چوروں سے ہے جو مدتوں سے مزے کرتے آئے ہیں
گنتی کی چار پانچ کمپنیاں ہیں جو پٹرول بیچتی ہیں ۔میری ذاتی رائے میں ان
سے بیٹھ کے بات کرنا ضروری تھا ۔چینی مافیا نے پچھلے دس پندرہ برس میں پچیس
روپے کلو کی چینی کو نوے اور سو روپے میں پہنچا دیا ۔کاروباری لوگوں کے
اپنے مفادات ہوتے ہیں اس میں پاکستان کے بڑے شامل رہے جو پاکستان کی مختلف
بڑی پارٹیوں کے طاقتور لوگ تھے ۔پچھلے اور موجودہ حکمرانوں میں بڑا فرق یہ
ہے کہ عمران خان کاروباری نہیں ہیں جبکہ دوسرے حکمرانوں نے تو کاروبار کر
کے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جائدادیں بنائی ہیں مجھے پورا یقین ہے
عمران خان کبھی کاروبار نہیں کرے گا اگر کرتا تو جہانگیر ترین انہیں کئی
ملوں کا مالک بنا دیتا اور زرداری اور نواز شریف بھی انہیں اپنی برادری میں
آمد پر پھولوں کے ہار پیش کرتے۔
اسکولز مافیا کہ خر مستیاں عروج پر ہیں عمران خان پاکستان کے ہر طبقے سے
اپیل کر رہا ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کریں نوے فیصد
اسکول مالکان ویسے ہی ان مہینوں کی تنخواہیں اپنے سٹاف کو نہیں دیتے ۔یہ
دور کرونا کا تھا اس دور میں تو انہیں آگے بڑھ کر والدین کو سہارا دینا
چاہئے تھا جو اپنے کاروبار کھو چکے ہیں زندگی کے کسی شعبے کا والد اپنے
کاروبار کو برقرار نہیں رکھ سکا۔اس والد کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے دوسری جانب
اسکولز مالکان کا دباؤ ہے کے فیس دی جائے اور جتھوں مرضی لے کر دی جائے۔
میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ چند اسکولز کے مالکان کو فیس نہیں مل رہی اور
انہوں نے مالکان کو کرایہ بھی نہیں دیا۔یہ بات تو کسی حد تک ٹھیک ہے ۔چھوٹے
اسکولوں کے والدین نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ ہمارے پاس کوئی فیس نہین ہے
مالکان جو کرائے پر تھے انہوں نے آگے کرایہ دینے سے انکار کردیا ہے۔لیکن
بڑے اسکولز جن کی چینز ہیں انہیں کسی کے کاروبار کے تباہ ہونے کا ذرہ برابر
احساس نہیں
آج پاکستان کے طول و عرض سے یہ چیخ اور پکار اٹھی ہے کہ ان مالکان کو لگام
دی جائے۔موجودہ حکومت ایک نصاب کے نعرے کے ساتھ وجود میں آئی تھی لیکن وہ
تو دور کی بات ہے دس نصابوں والوں نے کانپکڑوا دئے ہیں اٹھارویں ترمیم کوئی
ڈکٹیٹر ہی ختم کر سکے گا ۔ لوگوں کو ہم پر توقع ہے ان برے حالات میں بھی
لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک کی گرداب میں پھنسی
کشتی کو نہیں نکال سکتا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمران خان کے ساتھ
چمٹے ہوئے وزراء کام ہی نہ کریں۔میں گزشتہ چند دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ
ٹویٹر پر ٹیکنالوجسٹ حضرات چلا رہے ہیں مجھے تفصیل کا تو علم نہیں لیکن یہ
سنا ہے کہ یہ لوگ سات سال ٹیکنالوجی پڑھنے کے بعد بھی چھ سال بی ایس سی
پڑھنے والوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔میں ان کے احتجاج کو دیکھ رہا ہوں ۔میں
نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ چودھری شفقت محمود سے اپیل کر رہے ہیں کہ ہماری
سنیں ۔پتہ نہیں ان کی کیوں نہیں سنی جا رہی۔لگتا ہے اس ملک میں پرانے
پاکستان کا حربہ چلے گا جب کوئی کسی گاڑی کا شیشہ کسی عمارت کی کھڑکی اور
کسی کا کھنا نہیں کھولے گا اس سنی نہیں جائے گی۔میں سمجھتا ہوں وزیر تعلم
اور ایچ ای سی کو ان کی لیڈر شپ کو بٹھا کر بات سن لینا چاہئے۔
وزیر تعلیم پنجاب مراد راس اور راجہ ہمایوں سرفراز کو فیسوں کے بارے میں
غور کرنا چاہئے۔یا پھر عمران خان کہیں گے کہ میں اس مسئلے کو خود دیکھوں گا
ایک عمران خان ہی نے ہر کام کرنا ہے تو یہ لوگ کس لئے جھنڈے لہراتے پھر رہے
ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف سے لوگوں کی توقعات کل بھی تھیں اور آج بھی ہیں ۔آپ نے
دیکھ لیا ہو گا کہ میاں شہباز لندن سے جھومتے گاتے آئے کہ جاتے ہی وزیر
اعظم بنوں گا آ کر ٹائیں ٹائیں فش ہوتے دیر نہیں لگی ۔اب چودہ دن اور لے
لئے ہیں۔میں عوام میں رہتا ہوں اور اس شہر میں رہتا ہوں جہاں کرونا کا سورج
طلوع نہیں ہوا حالنکہ اس شہر کی سب سے پہلے جان دینے والی ایم پی اے تھی جو
گجرانوالہ سے عازم لاہور ہوئی اور راستے میں جان دے گئیں ۔ان شہریوں نے تو
قسم کھا رکھی ہے اور سر عام نکلتے ہیں اور کہتے ہیں جاؤ کرونا جو کرنا ہے
کر لو ہم تو باز نہیں آئیں گے۔
ہم ڈاکٹر تو اب ان کی نظر میں مجرم ہیں ہم زہر کا ٹیکہ لگا کر بندے کو مار
دیتے ہیں آج ہی ایک چوبیس سالہ مریض کی موت ہوئی ہے اس کا مدعا بھی ڈاکٹروں
پر ڈال دیا گیا ہے۔
ہمارے چالاک لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ امریکہ میں سیاہ فام کے مرنے کے
بعد جو مظاہرے ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں ان لوگوں کو کچھ نہیں ہوا تو ہمیں
کیا ہو گا۔مذہبی طبقے نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ کسی چیز کو تسلیم نہیں کرنا
زمین ابھی تک ان کے نزدیگ گول نہیں ہے ۔چپٹی زمین پر پھیلے چپٹوں نے تو
کرونا کو وہان میں ہی دبوچ لیا مگر اہل ایماں نے سناء مکی کے پتوں کی قیمت
چار سو سے چار ہزار کلو تک پہنچا دی قہوہ پی پی کر ڈرپیں لگوا لیں۔کسی نے
سچ کہا ہے کہ اس قوم نے سانڈے کے تیل سمیت دنیا بھر کے تیل پتے ،ساگ،ٹہنیاں
کھا جانی ہیں لیکن ماسک نہیں پہننا۔ڈاکٹر جب مریض کا علاج کر رہا ہوتا ہے
تو اسے مریض کی زندگی اس لئے بھی پیاری ہوتی ہے کہ خدانخواستہ یہ لڑھک گیا
تو بڑی مار پڑے گی۔ان حالت میں ڈاکٹر اپنی زندگی کو خطرے میں کیوں ڈالے
گا؟سوسائٹی میں نفرت عام ہے۔پاکستانی معاشرہ سخت قوانین اور عمل درامد کا
متقاضی ہے۔دوسرے معنوں میں ایک خونی انقلاب ہی اس ٹیڑھے میڑھے معاشرے کا حل
ہے۔یہی پاکستانی سعودی عرب میں ہوتے ہیں ان کا ڈسپلن دیکھنے والا ہوتا ہے
اور یہی جب ائر پورٹ لاؤنج میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں دیکھیں تو پتہ چلے
گا کہ عبدالرشید اب شیدے کی شکل میں آ گیا ہے ان حالات میں جب لوگ اس
بیماری اور اس وباء کو حقیقت ہی نہیں سمجھتے تو تو ہم کیا کریں اس وقت
مریضوں کی تعداد استعداد سے زیادہ ہوتے جا رہی ہے۔ابھی تو ان گنت لوگ گھروں
میں اس لئے قید ہیں انہیں یہ ڈر ہے کہ زہر کا ٹیکہ لگا کر مارنے کے بعد
گردے آنکھیں اور بہت کچھ نکال لیا جائے گا اور بعد میں مریض بھی نہیں دیا
جائے گا۔
آج کل لوگ موت اتنا نہیں ڈرتے جتنا اپنے جنازے کے خراب ہونے سے ڈرتے ہیں وہ
شان و شوکت سے قبرستان جانا چاہتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ جب مریں تو لوگوں
کو سکتہ ہو جائے بڑی رونق سے اﷲ کے پاس پہنچیں۔قل دسویں چالیسویں پر محفلیں
سجیں لیکن کرونا کی موت ایک بے رونقی موت ہے جس سے انہیں ڈر لگتا ہے اگلے
جہان کی وہ اتنی فکر نہیں کرتے کہہ دیتے ہیں کہ رب تو ستر ماؤں سے زیادہ
پیار کرتا ہے وہ کیوں مارے گا؟
|