دہلی پولس نے دہلی فسادات کی تقریبا درجن بھر چارج شیٹ
داخل کردی ہے ۔ چارج شیٹ میں ہند و اور مسلمان دونوں کا نام شامل کیاگیاہے،
دونوں طرف سے گرفتاری بھی ہورہی ہے یہ الگ بات ہے کہ نامز د ملزمین اور
جنہیں گرفتار کیاجارہاہے ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن چارج شیٹ کی
کرونالوجی دہلی پولس نے جو سمجھائی ہے وہ پہلے سے لکھی ہوئی ہوئی اسکرپٹ لگ
رہی ہے ، اس کو یو ں بھی کہہ سکتے ہیں وزیر داخلہ امت شاہ نے مارچ میں دہلی
فسادات پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران جو خطاب کیاتھا اسی کو دہلی پولس نے
چارج شیٹ میں تحریر کردیاہے ۔چارج شیٹ میں پولس نے واضح طور پر فسادات
کیلئے ذمہ دار سی اے اے مخالفین کو ٹھہرایا ہے ۔ اور یہ بھی بتانے کی کوشش
کی ہے فسادمسلمانوں نے شروع کیاتھا ۔ ہندوسماج کی طرف سے جو حملہ ہوا تھا
وہ ایکشن کا ری ایکشن تھا ، اپنے بچاؤ اور تحفظ کے پیش نظر تھا ۔ اس کے
ثبوت میں کئی واقعہ کا بھی تذکرہ کیاہے تاہم اس واقعہ اور اس شخص کوچارج
شیٹ میں سرے سے نظر انداز کردیاگیاہے جس کی وجہ سے یہ فساد بھڑکاتھااور جو
شخص حقیقت میں اس کا ماسٹر مائنڈ تھا ۔
دہلی پولس نے چارج شیٹ میں فسادکی کرونالوجی کو سمجھاتے ہوئے سی اے اے
مخالف احتجاج کے دوران ہوئے تشدد کے کئی واقعات کا تذکرہ کیاہے ۔ 11؍دسمبر
2019کو پہلی مرتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے سڑکوں پر اتر کر سی اے اے
کے خلاف احتجاج شروع کیاتھا، 12؍دسمبر کو بھی احتجاج جاری رہا ۔13؍دسمبر
کواحتجاج کررہے طلبہ پر پولس نے آنسو گیس کا استعمال کردیا اور لاٹھی چارج
کردیا ۔ پولس نے اپنی چارج شیٹ میں یہاں سے ہوئے تمام واقعات کا تذکرہ کیا
ہے ۔
13؍دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسیٹی روڈ پر تشدد ہوا ۔
15؍دسمبر کو متھرا روڈ پر تشدد ہوا ۔
16؍دسمبر کو شاہین باغ احتجاج کی شروعات ہوئی ۔
15؍ دسمبر کو جامعہ کورڈنیشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا ۔
15؍جنوری سے 26؍جنوری تک مختلف علاقوں میں مظاہرین نے سڑکوں کو بند کردیا ۔
22؍فروری کو چندشیکھر آزاد نے بھارت بند کا اعلان کررکھاتھا جس کے پیش نظر
جعفرآباد کا 66 فیٹا روڈ بند کردیاگیا ۔
دہلی پولس نے ان واقعات کے بعد 23؍فروری کے چار واقعات کا ذکر کیاہے اور
اسی کو فساد کی اہم وجہ قرار دیاہے ۔
چارج شیٹ کے مطابق 23؍فروری کو یہ خبر ملی کہ جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے
سامنے کچھ لوگوں نے جاکر روڈ کھولنے کا مطالبہ کیاہے ۔
23؍فروری کی صبح خبر ملی کہ 2000/3000 مردو عورت نے روڈ کو بلاک کردیا ہے ۔
23؍فروری کو ہی رات کے بارہ بجے خبر ملی کہ یمنا وہار روڈ کو سی اے اے
مخالفین نے بندکردیاہے ۔
23 فروری کو ہی یہ خبر ملی کہ نارتھ ایسٹ دہلی کے متعدد علاقوں اور سڑکوں
کو مظاہرین نے بلاک کردیاہے۔
ان چار واقعات میں پہلا واقعہ جس کا چارج شیٹ میں تذکرہ ہے وہ کپل مشرا کے
بارے میں ہے ۔ تین بجے کے قریب کپل مشرا نے ہی ایک گروپ کے ساتھ جعفر آباد
پہونچ کر دھمکی دی تھی اورپولس کے سامنے کہاتھاکہ اگر پولس نے تین دنوں میں
یہ روڈ خالی نہیں کرایاتو میں اپنے دم پر اسی خالی کراؤں گا ۔ جب کپل مشرا
یہ دھکمی دے رہے تھے تو ان کے پیچھے ڈی سی پی بھی کھڑے تھے ۔ وہ ویڈیو اور
تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور دنیا بھر کی میڈیا میں وہ خبر بھی چھپی۔
اسی کے بعد رات سے ہی فساد بھڑکنا شرو ع ہوا لیکن پولس چارج شیٹ میں نہ تو
کپل مشرا کا نام لیا گیاہے ۔ نہ ہی اس کی تقریر اور دھمکی کا تذکرہ ہے صرف
اتنا کہاگیاہے کہ کچھ لوگوں نے روڈ خالی کرانے کا مطالبہ کیاتھا ۔
چارج شیٹ میں 24؍فروری کو کپل مشرا نے جو اشتعال انگیز بھاشن دیاتھا اس کا
بھی ذکر نہیں ہے ۔ آؤ ٹ لک کی ایک رپوٹ کے مطابق موج پور میں کپل مشرانے
شدت پسندوں کے ایک گروپ سے کہاتھا کہ ’’یہ اچھا موقع ہے بھنا لو اسے ،اب
اگر چوک گئے تو دوبارہ موقع نہیں ملے گا ‘‘۔ کپل مشرا کے اس بیان کا تذکرہ
دی کوئنٹ نے بھی اپنی ایک رپوٹ میں کرتے ہوئے لکھاہے کہ کئی سارے صحافیوں
نے اسے سناتھا ۔موج پور اور جعفر آباد کے علاقے میں اسی صبح کو فساد بھڑ
کاتھا۔
دہلی پولس نے اپنی چارج شیٹ میں ایک میٹنگ کا بھی تذکرہ کیاہے جس میں
لکھاہے کہ 8؍جنوری کو شاہین باغ اور جامعہ مظاہرین کے ساتھ طاہر حسین کی
میٹنگ کرائی گئی جس میں خالد سیفی ، عمر خالد وغیرہ شریک تھے ، اسی میٹنگ
میں ٹرمپ کی آمد پر فساد کرانے کا منصوبہ بنایاگیاتھا جبکہ یہ بھی حقیقت کے
خلاف ہے ۔ دی کوئنٹ نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپوٹ میں بتایاہے کہ ڈونالڈ
ٹرمپ کی آمد کی پہلی خبر 12؍جنوری کو جاری ہوئی ہے ۔ اس سے پہلی ٹرمپ کی
آمد کی کوئی خبر کہیں نہیں تھی پھر 8؍جنوری کو کیسے اور کس طرح یہ منصوبہ
تیار کرلیاگیاکہ ٹرمپ کی آمد پر سی اے اے مظاہرین ایک بڑا احتجا ج اور فساد
کریں گے تاکہ پوری دنیا کی توجہ اس طرف مبذول ہوجائے ۔
دہلی پولس نے اپنی چارج شیٹ میں پوری تفصیل کے ساتھ چاند باغ میں واقع طاہر
حسین کے مکان کا تذکرہ کیاہے کہ وہیں سے حملہ کیاگیا ۔پہلے سے پوری تیار ی
تھی ، پٹرول بم ،ریوالوار اور دیگر چیزیں وہیں رکھی ہوئی تھی ۔طاہر حسین کو
پورے فساد کا ماسٹر مائنڈ بتار کھا ہے ۔جبکہ طاہر حسین خود فسادیوں کے
درمیان پھنسے ہوئے تھے ۔ انہوں نے باربار فون کرکے پولس سے تحفظ مانگاتھا ،
ویڈیو بھی بنائی تھی لیکن نہ پولس پہونچی ، نہ ان کی مدد کی گئی ، چند دنوں
بعد میڈیا ٹرائل کرکے ان کے گھر کو سینٹر بنادیاگیا اور طاہر حسین کو پورے
واقعہ کیلئے ماسٹر مائنڈ بتادیاگیا ۔
دہلی پولس کی چارج شیٹ یمنا وہار روڈ پر واقع موہن نرسنگ ہوم کا کوئی ذکر
نہیں ہے جہاں سے 24؍فروری کو فائرنگ ہوئی تھی ۔ نرسنگ ہوم سے فائرنگ کی
ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں صاف دیکھا جارہاتھا کہ ماسک
لگاکر بڑی تعداد میں لوگ چاند باغ کی طرف فائرنگ کررہے ہیں ۔ پتھر پھینک
رہے ہیں ۔ملت ٹائمز نے وہاں پہونچ کر ایک رپوٹ بھی بنائی تھی کہ یہ نرسنگ
ہوم ہے جہاں سے لگاتار فائرنگ ہوئی لیکن پولس نے اسے مکمل طور پر نظر انداز
کردیاہے ۔ ابھی تک نہ تو نرسنگ ہوم کے مالک سے پوچھ تاچھ ہوئی ،نہ کسی کی
گرفتاری اور نہ ہی اب اس کا نام لیاجارہاہے ۔ یہ نرسنگ ہوم جہاں پر ہے اسی
کی پیچھے کپل مشراہ کی والدہ کا گھر ہے ۔
دہلی پولس نے چارج شیٹ میں مصطفی آباد میں موجود رراجدھانی اسکول کا ذکر
کیاہے کہ یہاں سے فائرنگ ہوئی لیکن اسی سے 50 میٹر کے فاصلہ پر موجود شیو
وہار نالہ روڈ پر واقع مندر کا کوئی ذکر نہیں کیاہے جہاں لگاتار میٹنگ ہوئی
۔ فائرنگ ہوتی رہی اور ایک ہجوم ہتھیاروں کے ساتھ مصطفی آباد میں داخل ہونے
کی کوشش کررہاتھا۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دہلی فساد میں54 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور
تقریبا 456 افراد زخمی ہوئے تھے ۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ دکان
اور مکان کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہواتھا خاص طور پر شیو وہار
کو دنگائیوں نے مکمل طور پر لوٹ لیاتھا ، گھروں کو منہدم کردیاتھا ، تمام
قیمتی سامان لوٹ لیاتھا ۔ گھروں کے ساتھ مسجدوں کو بھی آگ لگادیاتھا ، قرآن
کریم او ر مذہبی کتابوں کو نذر آتش کردیاتھا، 18 مسجدوں کو دنگائیوں نے
نشانہ بنایاتھا اور توڑ پھوڑ کیاتھا جس میں10 مسجدوں شدید نقصان پہونچاہے
اور وہ سب تقریبا ناقابل مرمت ہے ۔ دوسری طرف مسلم محلوں میں کسی بھی
مندرکو ایک خراش تک نہیں آیا ۔ کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہونچا ، نہ ہی
مسلم محلوں میں موجود ہندؤں کے گھروں پر کوئی حملہ ہوا ۔ دہلی پولس کی چارج
شیٹ میں ان واقعات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے ۔ دہلی پولس کی چارج شیٹ مکمل
طو ر پر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ فساد سی اے اے مخالفین نے کیاتھا
۔دومہینہ سے جاری احتجاج کا مقصد ہندؤوں پر حملہ اور ان کا قتل کرنا تھا ۔
چارج شیٹ میں وہی بات ہے جسے مجموعی طور پر 12؍مارچ کو وزیر داخلہ امت شاہ
نے راجیہ سبھا میں اور 10 مارچ کو لوک سبھا میں بیان کیاتھا ۔
دہلی پولس کی چارج شیٹ پڑھنے کا بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں پولس کی
آزادی اور خود مختاری شامل ہے ۔آؤٹ لک کی ایک رپوٹ میں یہ بات بھی سامنے
آچکی ہے کہ دہلی پولس کی خفیہ رپوٹ میں اصل ماسٹر مائنڈ کپل مشرا ہے اور
اسی کے بیان کے بعد فساد بھڑ کاتھا۔
دہلی پولس نے اپنی رپوٹ میں صرف کپل مشرا کو بچانے کاکام نہیں کیاہے بلکہ
پوری اسکرپٹ ہی بدل دی ہے ۔اس بارے میں اور بھی کئی سارے حقائق ہیں جس کا
تذکرہ ہم اگلی قسط میں کریں گے ۔ |