ہمارے ملک کامالی سال جب بھی شروع ہوتاہے عوام کے لیے دکھ
تکلیف لے کرآتاہے مگراس باران زخموں پرنمک چھڑکنے کاکام کرونانے کردیاحکومت
سے جوتھوڑی بہت امیدیں تھیں وہ بھی ختم اب چلوان زخموں یعنی بجٹ کی بات
کرلیں جو قومی اسمبلی میں پیش کیاگیا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم 71
کھرب 37 ارب روپے ہے جس میں حکومتی آمدنی کا تخمینہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو
(ایف بی آر) کی جانب سے محصولات کی صورت میں 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس
آمدنی کی مد میں 1610 ارب روپے رکھا گیا ہے اب یہ بجٹ عام آدمی دوست ہے
یاحکومتی نمائندوں کوخوش کرنے کیلئے بنایاگیاہے یہ توپوراآرٹیکل پڑھ کے پتہ
چلے گاسرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا
گیا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 71 کھرب 37ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش
کر دیا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس لگانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہیقومی
مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق صوبوں کو 2874 ارب روپے کی ادائیگی کرے گا جبکہ
آئندہ مالی سال کیلئے وفاق کی مجموعی آمدنی کا تخمینہ 3700 ارب روپے لگایا
گیا ہے اور کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7137 ارب روپے لگایا گیا ہے، آئندہ
مالی سال کے بجٹ میں 3437 ارب روپے کا خسارہ ہے جو کہ مجموعی ملکی پیداوار
(جی ڈی پی) کا 7 فیصد بنتا ہے،بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے آمدنی کا
تخمینہ لگایا گیا ہے،آئندہ مالی سال کے دوران براہ راست ٹیکسوں سے 2 ہزار
43 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے، آئندہ مالی سال کے دوران بلواسطہ ٹیکسوں سے
2 ہزار 920 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے،آئندہ مالی سال میں پیٹرولیم
ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 450 ارب روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے،
قابل تقسیم محصولات سے آمدن کا تخمینہ 2 ہزار 817 ارب روپے لگایا گیا ہے
جبکہ موٹر سائیکل اور رکشہ سستا ڈبل کیبن گاڑیاں،ای سگریٹ مہنگے، سگار،
سگریٹ، انرجی ڈرنکس مہنگے،مہنگے اسکولوں پر ٹیکس دگنا،مقامی موبائل فون
سستے اور بغیر شناختی کارڈ ٹرانزیکشن کی حد بڑھادی گئی،ٹڈی دل کے خاتمے کے
لیے 10 ارب روپے، کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 2 ارب روپے، فنکاروں کی
مالی امداد کے لیے 25 کروڑ سے بڑھا کر ایک روپے مختص کئے گئے،کورونا وائرس
کے تدارک کے لیے 12 سو ارب روپے سے زائد کے پیکیج کی منظوری دی گئی ہے، طبی
آلات کی خریداری کے لیے 71 ارب روپے اور غریب خاندانوں کے لیے 150 ارب مختص
کیے گئے ہیں،ہوٹل کی صنعت پر 6 ماہ کیلئے ٹیکس کی شرح ڈیڑھ فیصد سے کم کرکے
0.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے رکھے
گئے ہیں،آزاد جموں کشمیر کے لیے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب، خیبر
پختون خوا میں ضم اضلاع کے لیے 56 ارب، سندھ کے لیے 19 ارب، بلوچستان کے
لیے 10 ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔جمعہ کو اسپیکر اسد قیصر کی زیر
صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش
کیا۔قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر
مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا
دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔انہوں نے کہا
کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا،
ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں
شروع کی تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے،
ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان
بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گرزتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو
حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے
دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں
میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر
فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔حماد اظہر نے کہا کہ
2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران تھا، اس وقت ملکی قرض 5
سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس
پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20
ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات
میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا
تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔حماد اظہر نے کہاکہ
حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت پبلک فنانس منیجمنٹ اصلاحات شروع کیں، جس
سے وفاقی حکومت کی مالی انتظامی معاملات میں بہتری آئی ہے۔وزیر صنعت نے
کہاکہ اس کے علاوہ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کرکے شفافیت لائی
گئی جبکہ پاکستان پورٹل کا آغاز کرکے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری لائی گئی۔
پاکستان کاروبار میں آسانیوں کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں
136ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے ایک سال میں 108ویں نمبر پ پہنچ گیا
ہے۔انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں
لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے،
خاص طور پر ترقیپذیر ممالک کے لیے پہلے تو اسے انسانی صحت کے لیے مسئلہ
سمجھا گیا، لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضرمات بھی سامنے آئے جس کی
وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوااور بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک
کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا، مالی 20-2019
کے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے۔
تقریباً تمام صنعتیں، کاروبار بری طرح متاثر ہوئے، جی ڈی پی میں اندازاً
3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کر منفی
0.4 فیصد تک رہ گئی، مجموعی بجٹ خسارہ جو ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا وہ 9.1
فیصد تک بڑھ گیا، ایف بی آر محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے،
وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہوا، ترسیلات زر اور برآمدات
بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ 50 ارب روپے
یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر اشیا کی فراہمی کے لیے مختص کیے گئے،
100 ارب ایف بی آر اور وزارت تجارت کے لیے مختص ہیں تاکہ وہ برآمد کنندگان
کو ری فنڈ کا اجرا کر سکیں، 100 ارب روپے بجلی اور گیس کے موخر شدہ بلوں کے
لیے کسانوں کو سستی کھاد، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کے لیے 50 ارب کی
رقم دی گئی۔ 280 ارب روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی مد میں ادا کیے گئے،
پیٹرول کی قیمتوں میں 42 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں 47 روپے فی
لیٹر کمی کر کے پاکستان کے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیا۔وفاقی وزیر نے
کہا کہ بجٹ 21-2020 میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں
لگایا گیاٍ۔حماد اظہر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2 ہزار
874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ نیٹ
وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے، کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7
ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس طرح بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے تک
رہنے کی توقع ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس منفی 0.5
فیصد ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی
معاونت ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، اس کے لیے ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے
جس کے تحت تمام متعلقہ اداروں کو پوورٹی ایلیویشن ڈویڑن بنا کر اس میں ضم
کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس غریب پرور پروگرام کے لیے پچھلے سال 187
ارب روپے رکھے گئے تھے جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا
کہ اس میں سماجی تحفظ کے بہت سے پروگرامز شامل ہیں جیسے بی آئی ایس پی،
پاکستان بیت المال کے محکمے شامل ہیں، ۔حماد اظہر نے کہا کہ توانائی، خوراک
اور مختلف شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کے لیے 180 ارب روپے کی رقم
مختص کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو
فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈیز کا رخ درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بجٹ تجاویز
پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تعلیم کے شعبے کے لیے 30 ارب روپے کی رقم
مختص کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام،
امتحانات وضع کرنے، اسمارٹ اسکولوں کا قیام، مدرسوں کی قومی دھارے میں
شمولیت سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی، جس کے لیے رقم مختص کردی
گئی ہے اور ان اصلاحات کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، مزید برآں
ہائر ایجوکیشن ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہے۔حماد اظہر نے کہاکہ 21ویں صدی
کے معیاری تعلیم پر پورا اترنے کے لیے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلات
آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس، آٹومیشن اور اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے تحقیق
اور ترقی کے لیے کام کیا جاسکتا، لہٰذا تعلیم کے شعبے میں جدت اور اس حصول
کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ای گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر
چلنے والی سروسز، 5 جی سیلولر سروسز کے آغاز پر حکومت کی توجہ ہے۔انہوں نے
بتایا کہ ان شعبوں میں منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔حماد
اظہر نے کہا کہ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیمیکل،
الیکٹرانک، پروسیجن ایگری کلچرل کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا اور
آر این ڈی کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی
بجٹ میں دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار
963 ارب روپے، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے، این ایف سی ایوارڈ کے
تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی،وفاقی حکومت
کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے، اخراجات کا تخمینہ 7
ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے، مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے
تجویز، وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز، سبسڈیز کی
مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز، پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی
تجویز، صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز، دیگر
گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز، آئندہ مالی سال کا وفاقی
ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز، نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30
ارب روپے مختص کرنے کی تجویز، احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے
کی تجویزاور سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی
ہے۔اگرمختصراً بات کی جائے توبجٹ تماشاکچھ یوں ہوا:نئے بجٹ کا حجم 7ہزار
294 ارب روپے مقرر.،تمباکو 20 فیصد مہنگا،جوتااورکپڑا 10.34 فیصد
مہنگا،دستیاب مالی وسائل کا تخمینہ 8 ہزار 314 ارب لگایا گیا،اٹو رکشہ،
موٹر سائیکل رکشہ اور 200 cc موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم،پیٹرولیم
مصنوعات میں 70 ارب کا ریلیف دیا گیا،بنا شناختی کارڈ سے خریداری کی حد 50
ہزار سے بڑھا کر 1 لاکھ کردی گئی،ڈبل کیبن اور SUV گاڑیوں پر ٹیکس میں
اضافہ،پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل-فونز پر عائد ٹیکس میں
کمی،امپورٹڈ سیگریٹ، بیٹری، اورسگار کی قیمتوں پر عائد ایکسائز ڈیوٹی 65
فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کردی گئی،بچوں کے سپلیمنٹس اور ڈائت فوڈز پر
درآمدی ٹیکس ختم،فنکاروں کی مالی امداد کیلیے ارٹسٹ فنڈ کی رقم 25 کروڑ سے
بڑھا کر 1 ارب کردی گئی،سٹیٹ بنک نے پالیسی ریٹ 13.25 فیصد سے کم کرکے 8
فیصد کردیا ہے،سال کا جاری مالی اکاونٹ خسارہ 73 فی صد کم ہوا،تجارتی خسارہ
21 ارب سے 9 ارب ڈالر رہ گیا،مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ایف بی ار ریونیو
میں 17 فیصد اضافہ ہوا،6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کیے گئے،ماضی کے
قرضوں پر 5000 ارب سود دیا،10 لاکھ پاکستانیوں کیلیے بیرون ملک ملازمت کے
مواقع پیدا کیے گئے،مووڈیز نے ہماری معیشت کی درجہ بندی میں اضافہ
کیا،ائیدہ مالیاتی سال میں 1600 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے کا حدف،آئی
ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کی فنڈز فیزیبلٹی کی منظوری دی ہے،احساس پروگرام سے
8 لاکھ 20 ہزار جعلی افراد کو نکالا گیا،پاکستان کی بزنس رینکنگ میں 136 سے
108 نمبر پر ترقی ہوئی، کورونا کی افت سے پاکستانی معیشت کو شدید دھچکا
لگا،جی ڈی پی گروتھ ریٹ اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا،جی ڈی پی میں 3390
ارب روپے کمی ہوئی،جی ڈی پی کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہوکر منفی 0.4 فیصد
پر اگئی،جی ڈی پی کا مجموعی بجٹ خسارہ 7.1 فیصد سے 9.1 فیصد بڑھ گیا،وفاق
کا ریونیو ٹیکس کلیکشن 102 ارب روپے کم ہوا،چھوٹے کاروبار کیلیے 3 ماہ
کیلیے 96 ارب کی رقم 4 فیصد کم سود پر دی گئی،بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں
لگایا جائیگا،احساس پروگرام کا عمل جاری رکھا جائیگا،احساس پروگرام کے بجٹ
کی مختص رقم 187 ارب سے بڑھا کر 208 ارب روپے کردی گئی،توانائی، خوراک اور
دیگر شعبوں کیلیے 180 ارب روپے کی سبسڈی مقرر،ایچ ای سی کی الیوکیشن کی رقم
60 ارب سے بڑھا کر 64 ارب کردی گئی،نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی کو 30 ارب
روپے فراہم کیے جائیں گے،ازاد جموں کشمیر کیلیے 55 ارب روپے اور گلگت
بلتستان کیلیے 32 ادب روپے مختص،خیبر پختون خواہ کے ضم شدہ اضلاع کیلیے 56
ارب روپے مختص،سندہ کو 19 اور بلوچستان کو 10 ارب روپے کی مختص شدہ حصے سے
زائد خصوصی گرانٹ،ریلوے کیلیے 40 ارب روپے مختص،کامیاب نوجوان پروگرام
کیلیے 2 ارب مختص،لاہور اور کراچی میں وفاق کے زیر اہتمام ہسپتالوں کیلیے
14 ارب روپے مختص،زرعی شعبے میں ریلیف اور ٹڈی دل کی روک تھام کیلیے 10 ارب
مختص،جی ڈی پی گروتھ کومنفی 0.4 سے بڑھا کر 2.1 فیصد تک لانے کا حدف
مقرر،کرنٹ اکاونٹ خسارہ 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائیگا،مہنگائی کی شرح 9.1
فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد کی جائیگی،بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد اضافہ
لایا جائے گا،وفاق اور صوبائی مجموعی ترقیاتی اخراجات کا حجم 1 ہزار 324
ارب روپے ہے،پبلک سیکٹر کیلیے 650 ارب روپے مختص،سماجی شعبوں کی مختص رقم
206 ارب روپے سے بڑھا کر 250 ارب روپے کردی گئی،بجلی کی طلب اور پیداوار
کیلیے 80 ارب مختص،پانی کے شعبے کیلیے 70 ارب روپے مختص،این ایچ اے اور سی
پیک کے منصوبوں کیلیے 118 ارب روپے مختص،ریلوے کے دیگر منصوبوں کیلیے 24
ارب روپے مختص،مواصلات کے منصوبہ جات کیلیے 37 ارب روپے رکھے گئے،شعبہ صحت
اور طبی آلات کی تیاری کیلیے 20 ارب روپے کی رقم مختص،تعلیمی شعبے میں
سمارٹ سکولوں کا قیام، یکساں نصاب تعلیم کیلیے 5 ارب روپے مختص،تعلیم میں
جدت اور ترقی کیلیے 30 ارب روپے مختص،موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلیے 6 ارب
روپے مختص،ازاد کشمیر گلگت بلتستان میں 40 ارب کے ترقیاتی فنڈز مختص،ایس ڈی
پی گولز کیلیے 12 ارب روپے مختص،افغانستان کی بحالی معاونت کیلیے 2 ارب
روپے مختص،ہوٹلوں پر ٹیکس کی شرح ستمبر تک 1.6 فیصد سے کم کرکے 0.17 فیصد
کردی گئی ہے،کورونا وبا کے باعث ایف بی ار کا ٹارگٹ کم کرکے 3900 ارب روپے
مقرر،ڈومیسٹک ٹیکس محصولات میں 27 فیصد اضافہ ہوا،کینسر ڈائگنازٹک کٹس پر
درامدادی ٹیکس ختم،انرجی ڈرنکس پر ایف ای ڈی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد
کردی گئی،درمیانے اور چھوٹے مینوفیکچررز کیلیے خام مال کی درآمدات پر ٹیکس
5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کردیا گیا،مشینری کی درامدات پر شرح ٹیکس ساڑھے 5
سے کم کرکے 1 فیصد کردیا گیااب اس بجٹ کودیکھ کے عوام کے ہوش تواڑگئے ہوں
گے اب الیکشن کاانتظارہے جس کے بعدپتاچلے گاعوام نے اس بجٹ کوپاس کیایافیل۔
|