امریکا کو الفاظ نہیں...اَب پاکستان سے ایکشن چاہئے جان کیری

کیا امریکا خطے میں بھارتی بالادستی قائم کر کے اِس کی چوہدراہٹ چاہتا ہے.....؟؟؟
پاکستان کا کیا مقام ہوگا......؟؟

صدر زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل کیانی سے امریکی سینیٹر جان کیری کی ملاقات کے بعد ایوان صدر سے جو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اِس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جان کیری کے پاکستان آتے ہی ہمارے حکمرانوں پر چڑھنے والا وہ امریکی غم و غصہ جو دو مئی کے سانحہ کے بعد اِن کے دل ودماغ سے نہیں اُتر رہا تھا وہ ترنت اُتر گیا اور یوں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے جو برف جم گئی وہ بھی پلک جھپکتے ہی پگھل گئی جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جان کیری کی پاکستان آمد سے چند روز قبل تک بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اَب یہ برف جو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کسی گلیشر کی صُورت اختیار کر گئی ہے یہ کبھی بھی نہیں پگھل سکے گی اور عوام میں بھی یہ حوصلہ پیدا ہوگیا تھا کہ اَب ہمارا ملک امریکا کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر بھیک مانگنے اور طرح طرح کی امداد لینے سمیت مختلف حیلے بہانوں سے سود کے ساتھ قرضے لینے سے بھی اجتناب برتے گا اور ہمارے حکمران اپنا سینہ چوڑا کر کے اور اپنی گردنیں تان کر اپنے ساڑھے سترہ کروڑ عوام سے یہ مطالبہ کریں گے کہ اَب ہم نے امریکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرنا چھوڑ دیا ہے اور ہمارے عوام بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر یہ عہد کریں گے یہ بھی اپنے ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ۔

مگر چند ہی دنوں بعد ملک کے عوام نے یہ خود دیکھ لیا کہ دو مئی کے سانحہ پر ہمارے حکمرانوں کا امریکا پر غم و غصہ محض دکھاوا تھا اِس کا احساس عوام کو اُس وقت ہوا جب بند کمرہ بریفنگ کے موقع پر پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر پاس ہونے والی ایک تاریخ ساز قرار داد پڑھتے ہوئے ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے فرمایا تھا کہ ”آج جب میں یہ قرارداد پڑھ رہا ہوں تو تاریخ بدل رہی ہے“ اِس لئے کہ یہ ہماری 63سالہ تاریخ میں پیش کی جانے والی اپنی نوعیت کے سب سے منفرد اور افضل واعلیٰ قراردار اِس لئے ہے کہ اِس قرار داد کو مرتب کرنے میں اراکین پارلیمنٹ اور عسکری قیادت نے بھی حصہ لیا ہے مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ اَبھی اِس قرار داد کی سیاہی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امریکی انتظامیہ کو ایک ایسا تجسُس پیدا ہوا کہ جیسے اِس قرارداد پر پاکستانیوں نے حقیقی معنوں میں عمل کر لیا تو پھر سمجھو کہ پاکستان ہمارے ہاتھ سے گیا اور ہم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کی آڑ میں پاکستان پر اپنا قدم جمانے کا جو منصوبہ بنا رہے ہیں اِس میں ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور پھر یہ ہوا جس کی امریکا سمیت شائد دنیا کو بھی توقع نہ تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے اور پھر وہ ہوگیا جس پر آج امریکا بہت خوش ہے ۔

کیوں کہ امریکیوں کے نزدیک بھلا ہو مسٹر جان کیری کا جو افغانستان سے اپنے دورے کے بعد جیسے ہی پاکستان آئے اور اُنہوں نے آتے ہی پاکستانی صدر زرادی، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقات اور اِس ملاقات میں اُنہوں نے سانحہ دو مئی کے بعد پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے پیدا ہونے والی نازک صُورت حال کو کم کرنے اور اِنہیں معمول پر لانے کے لئے ا مریکی انتظامیہ کا موقف کچھ یوں پیش کیا کہ پاکستانی حکمران جو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے پہلے ہی مصالحتوں کے شکار رہتے ہیں یہ ایک بار پھر کسی مصالحت کا شکار ہوکر جان کیری کی پٹائی (بہکاوے)میں ایسے آگئے کہ اِنہوں نے ایوان صدر سے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ایک ایسا تاریخ ساز اور مصالحتوں سے بھر پور دھواں دار مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا جس کے جاری ہونے سے آج امریکی انتظامیہ خوش ہے اور یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کو منانے کا سارا کریڈٹ سینیٹر جان کیری کو جاتا ہے جنہوں نے ایک خاص قسم کی امریکی ڈپلومیسی سے ناراض پاکستانیوں کو منا لیا یو ں ایک ایسا پاک امریکا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا جس سے یہ اندازا بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اِس میں جس انداز سے زبان استعمال کی گئی ہے اور جیسے جملے پروئے گئے ہیں و ہ واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جیسے یہ پاکستانی حکمرانوں کی دلی خواہش رہی ہو کہ کوئی موقع اِن کے ہاتھ دوبارہ لگے تو وہ ناراض امریکا کو منانے کے لئے کچھ ایسا کریں جیسا کہ اِنہوں نے اِس اعلامئے میں کر دکھایا ہے ۔

اور آج امریکا یہ بات اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے پاک امریکا مشترکہ اعلامئے میں جس طر ح کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آئندہ کسی بھی اہم ہدف کے خلاف دونوں ممالک مل کر کاروائی کریں گے ،دہشت گردوں کے خلاف تعاون جاری رہے گا، پاکستان اور امریکا کے مابین تمام رابطوں کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے گا اور بہت سے ایسے اہم نکات بھی شامل ہیں جنہیں یہاں بیان کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔

مگر ہمارے قارئین یہاں یہ ضرور سمجھے لیں کے پاک امریکا مشترکہ اعلامئے سے پاکستان سانحہ دو مئی کے بعد اپنے اُس مقصد میں ضرور کامیاب ہوگیا ہے جو صرف یہ تھا کہ امریکا نے دو مئی کے واقع کی اِسے پیشگی اطلاع کیوں نہیں دی جبکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ایک بڑا اتحادی بھی ہے اور اَب تک ہر لحاظ سے امریکا سمیت اِس کے دوسری اتحادیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہر قسم کی قربانیاں بھی دے چکا ہے اِس کے باوجود بھی امریکی انتظامیہ اور امریکی فورسز نے جب دو مئی کا آپریشن کیا تو پاکستان کی اِس کی کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی اور یوں اِس طرح پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وہ سب کچھ کردیا جس سے نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں بھی پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے حوالے سے انگنت سوالات نے جنم لیا ہے جس سے ایک طرف تو دنیا بھر میں پاکستان کے کردار کی جگ ہنسائی ہوئی ہے تو وہیں امریکا نے اپنے سب سے بڑے اتحادی پاکستان کا کردار بھی ساری دنیا میں مشکوک بنا دیا اور یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پاکستان ہمارا اتحادی ضرور ہے مگر ہمیں اِس کے کردار پر شک ہے۔

بہرکیف!اِس ہی مشترکہ اعلامیے میں صدر زرداری کے اُس عزم وہمت اور حوصلے کا بھی پُرتپاک انداز سے تذکرہ کیا گیا ہے جس میں اُنہوں نے امریکا سمیت ساری دنیا کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ ”دہشت گردی کے
خاتمے اور دنیا میں قیام امن کے لئے پاکستان دنیا سے اپنا تعاون جاری رکھے گا اِس پیغام میں صدر کا خصوصی طور پر دنیا سے یہ کہنا بڑی اہمیت کا حامل ہے ”تاہم اَب تک پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے خاتمے اور دنیا میں قیام امن کے لئے اَب تک اربوں ڈالر اور 38ہزار انسانی جانوں کی جو قربانی دی ہے اور آئندہ بھی دیں گے اِس لحاظ سے دنیا اِن کی عزت ووقار کو ترجیح دے اور پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرے“ اِس کے ساتھ ہی مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ امریکا کے نزدیک صدر زرداری کے کہے کی کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ امریکا یہ بات اچھی طرح سے جانتا بھی ہے اور خوب سمجھتا بھی ہے کہ پاکستانیوں کا غم وغصہ تھوڑی دیر کا ہوتا ہے یعنی صرف اُس وقت تک جب تک امریکا اِنہیں امداد، قرض یا بھیک کی شکل میں کچھ دینے کا اِن سے وعدہ نہیں کرلیتا.... پاکستانی حالات غم و غصے میں رہتے ہیں اور جیسے ہی امریکا نے اِن سے کچھ دینے کا وعدہ کیا بس سمجھو کہ پاکستانی حکمرانوں اور عوام کی امریکا سے ناراضگی ختم اور غصہ بھی غائب ہوجاتا ہے اور ایسا ہی کچھ جان کیری کی پاکستان آمد پر بھی ہوا ہوگا یقیناً جس کے ثمرات آنے والے دنوں میں سامنے آنے شروع ہوجائیں گے اور پاکستانی عوام سمیت ساری دنیا کو بھی پتہ چل جائے گا کہ جان کیری کی پاکستان آمد کے کیا مقاصد تھے اور اِس سے پاکستان کو کیا کیا فوائد حاصل ہوئے اور امریکا کو کیا ملا....؟؟

اگرچہ اِس کے ساتھ ہی اَب کوئی اِس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلا سکتا ہے کہ پاکستان نے امریکی سینیٹر جان کیری کی جانب سے امریکا کی اُس دھمکی نما پیشکش جس میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں اُنہوں نے کہا تھا کہ کوئی اِس گمان یا خوش فہمی میں نہ رہے کہ میں دومئی کے سانحہ پر معافی مانگنے آیا ہوں بلکہ میں تو اِس لئے آیا ہوں کہ میں یہ بات صاف اور واضح طور پر پاکستان سے یہ کہہ سکوں کہ امریکا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے اور امریکا بالخصوص یہ چاہتا ہے کہ خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے جس قدر جلد ممکن ہوسکے پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام میں مزید پیش رفت کو روکے ....تاہم جان کیری نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے ”امریکا کو الفاظ نہیں بلکہ اَب پاکستان سے ایکشن چاہئے“ اور پھر چند ہی روز بعد امریکا سمیت ساری دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا کہ پاکستان نے اِس دھمکی نما امریکی پیشکش پر لبیک کہا اور اکیلے ہی کاروائی کرتے ہوئے القاعدہ کے اہم رہنما محمد علی قاسم یعقوب عرف ابوصہیب المکی کو کراچی سے گرفتار کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اگر امریکا پاکستان پر مکمل اعتماد کرے تو پاکستان وہ سب کچھ کرسکتا ہے جس کا امریکا سوچ بھی نہیں سکتا مگر پھر بھی پاکستان کے حکمران اور عوام اِس افسوس اور دکھ سے آج تک نہیں نکل سکے ہیں کہ امریکا نے دو مئی کو ایبٹ آباد کے واقع کے حوالے سے پاکستان کو اعتماد میں نہ لے کر ایک بڑی غلطی کی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کے کردار پر دنیا بھر میں شک کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ پاکستان ایسا نہیں ہے جس سے متعلق امریکی انتظامیہ اور امریکی میڈیا نے اپنی منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے ۔ جس کی بازگشت سانحہ دو مئی کے بعد یہ بعد بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ امریکی انتظامیہ اور امریکی میڈیا کی جانب سے پاکستان کی کردار کشی کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والا ایک بڑا ملک قرار دلوا کر اِس کی ترقی اور خوشحالی کی راہ روکی جائے اور اِسے دنیا کی ایک خطر ناک ترین ریاست کے روپ میں پیش کر کے نیٹو افواج کے ہاتھوں اِس کا کنٹرول دے دیا جائے یا پھر کچھ کا خیال یہ ہے کہ امریکا کا پاکستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے جس کا افغانستان ایک بہانہ ہے اور یا پھر اگر امریکا ایسا نہیں کرسکا تو اِس حوالے سے امریکا یہ چاہتا ہے کہ یہ اپنے سے زیادہ افغانستان میں بھارتی مفادات کو عزیز جانے اور اِس طرح یہ پاکستان پر آہستہ آہستہ اپنا دباؤ کم کرتے ہوئے بھارت کا اثرورسوخ اِس پر بڑھا کر اِسے بھارت کے طابع کردے اور اِس طرح خطے میں بھارتی چوہدراہٹ اور بالادستی قائم ہوجائے بالفرض اگر امریکا اپنے اِس منصوبے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو سمجھو پاکستان کا خطے میں کیا مقام ہوگا .....؟؟
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 895873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.