پاک فوج کے مشرف دور کے کردار سے
ہزار اختلاف رکھنے کے باوجود کوئی بھی محب وطن پاکستانی موجودہ حالات کے
تناظر میں فوج اور آئی ایس آئی کو طعن و تشیع کا نشانہ بنانے اور ان کے
خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کی حمایت نہیں کرسکتا۔ اب جبکہ سبھی لوگ کم و بیش یہ
بات جانتے ہیں کہ ہماری فوج اور آئی ایس آئی کی قیادت اس وقت امریکہ کو ایک
آنکھ نہیں بھاتی تو اس کا مطلب یقینی طور پر یہی لیا جاسکتا ہے کہ فوج اور
خفیہ ادارے کی قیادتوں میں حب الوطنی پائی جاتی ہے اور Enough is Enough کے
مصداق اب وہ اس طرح امریکی پالیسی کو من و عن قبول کرنے کو تیار نہیں جس
طرح مشرف دور میں ہوا کرتا تھا فوج اور فضائیہ کی قیادت پہلے بھی یہ کہہ
چکی ہے کہ ہمارے پاس ڈرون گرانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن فیصلہ سیاسی حکومت
نے کرنا ہے۔ فوج کو اس سے پہلے بھی موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد
متعدد مواقع مل چکے ہیں کہ ضیاءالحق یا مشرف کی طرح عنان حکومت سنبھال لے ،
حالات بھی کسی حد تک سازگار تھے ، یار لوگ خواہش بھی ر کھتے تھے اور دن بھی
گنے جا رہے تھے ۔ یہ کہانیاں اور تھیوریاں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں کہ
عدلیہ، بیورو کریسی اور فوج کو ساتھ ملا کر چار پانچ سال کے لئے ٹینکو
کریٹس کی حکومت تشکیل دیدی جائے لیکن شاید یہ فوج کا ہی ” جمہوری“ رویہ تھا
یا اپنی کریڈیبلٹی کی بحالی کی خواہش تھی جس نے بوٹوں کی آواز کو ایوان صدر
، وزیراعظم ہاﺅس اور پی ٹی وی کی عمارت سے دور رکھا۔
تازہ ترین حالات بہت دگرگوں بھی ہیں اور انتہائی نازک بھی۔ پاکستان کے تمام
ادارے اس وقت بوجوہ تنزلی کی شاہراہ پر ناکامیوں کے جھنڈے گاڑتے نظر آتے
ہیں ۔ ایبٹ آباد آپریشن نے جہاں بہت سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے وہیں
دوررس نگاہیں رکھنے والوں کو امید کی ایک کرن بھی نظر آتی ہے ۔ 9/11 کے بعد
امریکی قوم اکٹھی ہوگئی۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارتی قوم میں اتحاد نظر آیا۔
حالانکہ بہت سے ماہرین ، تجزیہ نگار اور میڈیا دونوں واقعات کو ” ڈرامہ“
بھی کہتے رہے لیکن مجموعی طور پر دونوں ممالک کے عوام، حکومتیں ، افواج اور
میڈیا اپنے ملکوں کی پالیسی کے مطابق عمل پیرا رہے اور اکا دکا لوگوں کو
چھوڑ کر پوری قوم یک زبان نظر آئی ، ایبٹ آباد آپریشن میں واقعی اسامہ بن
لادن کی شہادت ہوئی یا یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا؟ کیا پاکستان کے اداروں
کو واقعی اس کا علم اس وقت ہوا جب امریکی ہیلی کاپٹر واپس سرحد پار کر گئے
تھے یا امریکہ کے ان F-16 جہازوں نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے تھے جو مبینہ
طور پر اس وقت افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر اڑ رہے تھے۔ کیا شجاع پاشا
نے واقعی پارلیمنٹ کے سامنے اپنے آپ کو ”سرنڈر“ کیا ہے یا وزیراطلاعات نے
کوئی سابقہ ” ادھار“ چکانے کی کوشش کی ہے ، کیونکہ ” سرنڈر“ کا لفظ
پاکستانی تاریخ میں بہت بھیانک پس منظر رکھتا ہے ۔ ان سوالوں کے جواب شائد
مستقبل میں کبھی مل جائیں ۔ سردست معاملہ انتہائی نازک اور گھمبیر ہے۔
پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کو شائد آج سے پہلے ایسے خطرات سے واسطہ
نہیں پڑا تھا ۔ ان دگرگوں حالات اور سنہری موقع کے باوجود اگر عسکری قیادت
اور خفیہ ایجنسی نے دل بڑا کر کے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری خیال
کیا تو اس سے یقیناً پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں بھی اضافہ ہوا اور افواج
پاکستان کی بھی !
یہ ایسا نازک وقت ہے کہ اگر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر موجود سیاسی
قیادت نے ہوشمندی سے کام نہ لیا ، اپنی پرانی روش نہ چھوڑی، پوائنٹ سکورنگ
سے دستبردار نہ ہوئی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے احتمال نہ کیا تو
خاکم بدہن پاکستان کہیں واقعی غار کے دور میں واپس نہ چلا جائے۔ موجودہ
چلینجز سے نمٹنا افواج پاکستان ، خفیہ اداروں یا حکومت، کسی بھی ادارے کے
اکیلے بس میں نہیں ہے ۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں ، ان کے لیڈروں کا یہ
امتحان ہے کہ وہ ان تمام معاملات کو کتنا سنجیدہ لیتے ہیں ۔ عسکری قیادت نے
تو کسی حد تک بال کو حکومت اور پارلیمنٹ کی کورٹ میں بھیج دیا ہے ۔ فوج
یقیناً نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے اور اس نے ان کی حفاظت کا
حلف بھی اٹھا رکھا ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے اگر حکومتی ادارے اور پوری قوم
ان کے پیچھے کھڑی ہو۔ اگر شجاع پاشا کے مطابق اللہ ہی ان کا ” بگ باس“ ہے
تو انہیں اللہ کا سپاہی بن جانا چاہیے اور جس دن فوج کی قیادت اپنے آپ کو
اللہ کا سپاہی سمجھ کر کوئی کام کرے گی تو یقیناً پاکستان کے عوام اور پوری
دنیا کو پتہ چل جائے گا اور یہ تاثر بھی زائل ہو جائے گا کہ ہماری فوج
امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے ۔ جس دن ایسا ہوگیا تو یقین رکھیں کہ ہماری
فوج کی تعداد پانچ چھ لاکھ نہیں بلکہ سولہ سترہ کروڑ ہو جائے گی۔ یہ پوری
قوم اللہ کے سپاہیوں کے روپ میں ڈھل جائے گی۔
اگر ہم آج بھی متحد نہ ہوئے تو شاید دوبارہ ایسا موقع نصیب نہ ہو ، اگر ہم
ایک قوم بن جائیں، اگر پاکستان کے سترہ کروڑ لوگ اس ملک کو بچانے اور یہاں
اللہ کا نظام قائم کرنے پر متفق ہوجائیں، اگر اس سر زمین کے بیٹے اپنی ماں
پر قربان ہونے کو تیار ہو جائیں، اگر ہم فیصلہ کرلیں کہ پورے پاکستان میں
بسنے والے، سب بھائی بھائی ہیں، رنگ و نسل ، فرقے، زبانیں سب ثانوی چیزیں
ہیں، اصل بات یہ ہے کہ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں۔ اگر ہم یہ عہد کرلیں کہ
کسی دشمن یا دوست نما دشمن کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے ملک پر کسی
بھی صورت میں حملہ آور ہوسکے، وہ ڈرون حملے ہوں ، خودکش حملے ہوں یا ریمنڈ
ڈیوس جیسے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل کی وارداتیں اور اگر ہم سولہ سترہ کروڑ
لوگ اپنے اللہ کو اپنا آقا ، رب اور ” بگ باس“ سمجھ کر مرنے کا عزم کرلیں
تو یقین کیجئے کہ امریکہ کیا پوری دنیا بھی اکٹھی ہوجائے تو ہماری طرف
ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اکٹھے ہوں ، متحد
و متفق ہوں اور زندگی اور موت کا مالک اللہ تعالیٰ کو سمجھیں، اگر اللہ کے
پرچم تلے سب سپاہی اکھٹے ہو جائیں تو دنیا بھی ہماری ہے اور آخرت
بھی........ ( انشاءاللہ) |