جعفر رضا کے شعری افکار

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جعفر رضا کی شاعرانہ عظمت معنویت و اہمیت او رافادیت کی حامل ہے۔جعفر رضا اپنی شعری انفرادیت اور افکار کی بنا پر اپنے ہم عصر شعرا میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے ذہنی فکر و شعور اور آگہی کے ذریعہ اپنی شعری تخلیقات کی دنیا آباد کی ہے اور زندگی کے تجربات،مشاہدات اور خیالات کو شعری پیکر میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ انھوں نے نوحے، نعت،منقبت،دوہے، غزلیں اور نظمیں بھی لکھی ہیں ۔ان کو شعر و شاعری کا ذوق و شوق پندرہ برس کی عمر میں ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شعری سرگرمیوں میں وہ پیش پیش رہتے تھے اور انھیں خوش قسمتی سے ماحول بھی شاعرانہ نصیب ہوا۔ پروفیسر اعجاز حسین صاھب کی شاگردی میں انھوں نے شعر و شاعری کے ہنر سیکھے ۔شیعہ مسلک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کم عمری سے ہی مرثئے اور نوحے سننا اور پڑھنا ان کا مشغلہ ہو گیا تھا۔ جس کی بنا پر ان کی طبیعت میں بڑی روانی آ گئی تھی۔ابتدائی دور میں وہ زیادہ تر نوحے ہی لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے شعری سفر کا آغاز 1954 میں کیا ، جب ان کا پہلا نوحہ ’’تنویرِ غم‘‘ میں شائع ہوا۔جس کو انھوں نے ترتیب دے کر قصبہ اتراؤ شہرالہ آباد سے شائع کیا تھا۔
سال2006 میں جعفر رضا کا پہلا شعری مجموعہ ’’برف کی آگ‘‘ منظرِ عام پر آیا۔جس میں غزلیں اور دوہے شامل ہیں۔ اس شعری مجموعہ میں 62 غزلیں، چند دوہے اور دوہا نما شامل ہیں۔پروفیسر آل احمد سرور نے ’’برف کی آگ‘‘ کے فلیپ پرجعفر رضا کی شاعرانہ عظمت پر اپنے پُر مغز اور معنی خیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھاہے:
’’جعفر رضا کے اشعار میں حسن و کیفیت اور شعریت ہے۔ ان کے بادۂ سخن میں پختگی بھی ہے اور شمشیر کی سی تیزی بھی۔ اس مجموعے میں دوہے خاصے کی چیز ہیں۔ ان میں زندگی کے مسائل و مبا حث کامیابی سے پیش کیے گئے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ان کا دوسراا شعری مجموعہ’’احساس کا سفر‘‘ 2019 میں شائع ہوا ہے۔ اس شعری مجموعہ میں نعت،منقبت، نوحے،دوہے،غزلیں، اور نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔ ان شعری مجموعوں میں انھوں نے اپنے زندگی کے تجربات و مشاہدات اور جذبات و احساسات کو غزلیہ اور نظمیہ قالب میں ڈھال کر قارئین اور سامعین کے سامنے بڑی چابکدستی اور ہنرمندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جس سے ان کے فکر کی گہرائی اور گیرائی کابخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ان کی تمام شاعری ان کے برسوں کی تخلیقی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ جعفر رضا اپنے ذہنی فکر ا ور شعورو آگہی کے حوالے سے اپنے معنی خیزخیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ میرے ادبی نظریات میری ذاتی زندگی کے معتقدات سے مختلف نہیں ہیں۔ میں نظریاتی سطح پر دوسری زندگی جینے کا قائل نہیں ہوں۔ ادب و فن میں اعلیٰ اقدار کی پاسداری حسن و جمال کا روپ دھارن کرتی ہے۔ شعور و احساس سے تلاش و تفکر کی راہیں کھلتی ہیں۔ اچھے اشعار نفس میں طہارت، جذبہ میں خلوص اور روح میں بالیدگی کو پیدا کرتے ہیں۔ اچھی موسیقی کی طرح مجھے اچھے اشعار بھی، خواہ سمجھیں یا نہیں، سننے سے ہی روحانیت، تقدس اور وسعت و بلندی کا احساس ہوتا ہے۔ میری زندگی کے بیشتر معاملات کی طرح ہی میرے ادبی نظریات و تصورات میں مذہبی محرکات کی کارفرمائی رہی ہے جو آپ کو میرے بعض اشعار میں نظر آئے گی ۔ اکثر دوہوں/ دوہا نما کا منبع فکر نھج البلاغہ ہے۔ اسی طرح بعض مقامات پر معاملہ بندی کو چھوتی ہوئی تغزل آفرینی ملے گی، جس کے پردے میں کوئی سماجی،سیاسی، ثقافتی، تاریخی یا مذہبی مسئلہ ہوگا یا پھر میری ذاتی زندگی کا کوئی المیہ ہو سکتا ہے جس کو میں نے براہ راست بیان کرنے سے گریز کیا ہو لیکن تخلیقی عمل نے شعر کا قالب اختیار کرکے مجھے اظہار پر مجبور کر دیا ہو۔
(احساس کا سفر: صفحہ 9)
ابتدائی دور میں جعفر رضا نے لا تعداد نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔ انھوں نے کربلا کے واقعہ کو اپنی شاعری کا عنصر بنایا ہے۔ کربلا کا واقعہ تاریخ انسانی میں ایک ایسا دل ہلا دینے والا واقعہ ہے کہ اس سے متاثر ہونے کے لیے شیعہ اور مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں۔ نہتے انسانوں پر تیر و تلوار کے وار، پیاسوں کا پانی بند کر نا، معصوم بچوں کے گلے کو تیروں سے چھلنی کرنا، سر کاٹ کر نیزے پر چڑحانا، یہ ایسے رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات ہیں کہ پوری نسل انسانی ان سے متاثر ہوئی۔ کربلا کے واقعات کا جعفر رضا پر بھی شدید اثر پڑا۔ انھوں نے اپنے نوحوں میں کربلاکے واقعہ کوبڑے درد انگیز اور فکر انگیز طریقے سے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ 1954 میں’’تنویرِ غم‘‘ میں شائع نوحہ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
اہلِ حرم کے نالے، گردوں بلا رہے ہیں
شبّیر ہو کے رخصت، میداں کو جا رہے ہیں
بچوں پہ شہ کے، اعدا یہ ظلم ڈھا رہے ہیں
سیلی لگا لگا کے، ان کو رُلا رہے ہیں
ٹوٹی کمر سے، میّت عبّاس کی نہ اُٹھتی
پُر خوں علم، شہِ دیں خیمے میں لا رہے ہیں
جعفر رضا کو اس بات کا احساس ہے کہ دورِ نو ایک نئے قسم کے کربلا میں تبدیل ہو چکا ہے اور وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ وہ تشنہ لبی کل میدانِ کربلا میں جو صرف بہتّر اہل بیت کا مقدر تھی، آج اس بنی نوع ِ انسانی کے ایک بہت بڑے طبقے کا نصیب بن چکی ہے۔ شاعر نے کربلا کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔اس بات اظہار انھوں نے اس شعار میں بہ حسن و خوبی پیش کیا ہے:
تشنہ لبی کی حیات دیکھئے کب تک رہے
پیاس کی نہر فرات دیکھئے کب تک رہے

کربلا دھوپ ہے تو پیاس ہے دریائے فرات
اک صداقت یوں ہی تحریر ہوئی ہے بابا

خاک پر سجدہ ہو قاتل کی چھری شہ رگ پر
ہر صدا نعرۂ تکبیر ہوئی ہے بابا

تشنگی میرا مقدر ہے مجھے پانی سے کیا
جانتا تھا پھر بھی خیمہ نہر پر برپا کیا
جعفر رضا کا مسلک، کشادہ دلی، غمگساری، برابری اور انسانیت کا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سبھی مذاہب کا مقصد فلاح انسانیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رام اور رحیم کے درمیان فرق کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ دونوں دراصل ایک ہی ہیں۔ اس بات کو انھوں نے اپنے ایک دوہے میں بیان کیا ہے۔ اردو میں ہر حرف کے عدد طے ہیں۔ اس کی بنیاد پر کوئی نام یا کسی مصرعہ کے حروف کے اعداد جمع کرکے کوئی تاریخ دکھاتے ہیں۔ اسے تاریخ نکالنا کہتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ مسلمان ’’اوم‘‘ کی جگہ ’’786 ‘‘ لکھتے ہیں ،کیونکہ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم کے تمام حروف کے اعداد کا مجموعہ 786 ہوتا ہے۔ جعفر رضا نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ہرے کرشن‘‘ کے تمام حروف کے اعداد کا مجموعہ بھی 786 ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جعفر رضا کا ایک دوہا خاطر نشیں ہوں:
سات سو چھیاسی میں رام اور رحیم مل جائیں
بسم اﷲ کے وہی اعداد جو ہرے کرشنا میں آئیں
جعفر رضا کی غزلیہ شعری میں وطن پرستی اور ان کا حبّ وطن نمایاں نظر آتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آمد کا حوالہ گنگا سے دے کر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان بھی پاک ہیں۔ اس ضمن میں ایک شعر ملاحظہ ہو:
ہم ملکوں ملکوں اپنے سفر میں گرد کدورت لائے تھے
ہند آئے نہائے گنگا میں اب پاک یہ جسم ہمارا ہے
بھارت ماتا سے عقیدت جعفر رضا کو ورثے میں ملی ہے۔ بھارت،بھارتیہ اور بھارتیتا کا نام ’’ہندوتو‘‘ چاہے کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر اختلافی ہو لیکن جعفر رضا کی شاعری میں ’’ہندوتو‘‘ کا ایک الگ ہی روپ ہے۔ مشہور و معروف فارسی شاعر حافظ شیرازی نے ’’خالِ ہندوش‘‘ کہہ کر ’’ہندو‘‘ کو ’’کالا ‘‘ بتایا ہے۔ جعفر رضا نے کعبہ شریف کے کالے پردے اور کالے پتھر (سنگِ اسود) کے حوالے سے ایمان کی ’’ہندوتو‘‘ سے تشبیہ دے کر خیال کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اس ضمن میں جعفر رضا کا فکر انگیز اور فکر آلود شعر خاطر نشیں ہو:
کعبے کی سیہ پوشش، اس میں حجر اسود
ایمان ملا مجھ کو، خال ِرخِ ہندو میں
جعفر رضا کا کہنا ہے کہ سچّے دل سے خدا کی عبادت خواہ ہندو کرے یا مسلمان، دونوں یکساں ہیں۔ اس پرُ مغز اور معنی خیز خیال کو جعفر رضا نے بڑی خوش اسلوبی اور چابکدستی کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ شعر خاطر نشان ہو:
پُر نور عبادت سے مسلم کی ہے پیشانی
رخشندہ ریاضت ہے خالِ رخِ ہندو میں
ؓ بقول جعفر رضا اگر تمہیں مقابلہ آرائی کرنا ہے تو نیک کاموں میں کرو۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں کمیاں ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
با حسنِ وفا سبقت، ہے مقصدِ ہر مذہب
کیوں ڈھونڈھتے ہو کمیاں، تم مسلم و ہندو میں
مسلمانوں کے لیے مقدس کعبہ میں جو سنگِ اسود نصب ہے وہ مسلمانوں کے نزدیک نہایت متبرک ہے اور حج کے موقع پر اس چومنا لازمی ہے۔ کئی ہندو عالموں کی رائے ہے کہ سنگِ اسود حقیقت میں ’’شیو لنگ‘‘ ہے۔ اسلام میں مورتی پوجا مکمل طور پر حرام ہے لیکن جعفر رضا نے کعبہ والوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
اب دل میں بسا رکھئے، اک سانولی مورت کو
کہتا حجر اسود ہے، اہل حرم آہستہ
سانولی مورت شری کرشن کی صورت یاد دلاتا ہے۔ شری کرشن جعفر رضا کو بھی مرغوب ہیں۔ ان کی شری کرشن بھکتی دیکھئے:
کرشن کی بنسی میں جادو ہے،کوئی رادھا ہو!
موجِ رفتار لچک جائے گی، پائل ہی نہیں
مذہب اسلام میں اعمال کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گناہ و ثواب اور نیک و بد۔ ہندو دھرم اس طرح کی تقسیم نہیں کرتا ہے۔ گناہ ثواب میں بدل سکتا ہے اور ثواب گناہ میں بدل سکتا ہے۔ بنیادی طور پر ’’پاپ‘‘ ممکن ہی نہیں ہے۔ ہمادری کے مطابق گناہ کو تباہ کرنے والی سپتمی (ساتویں تاریخ) ساون ماہ کے کرشن پکش میں پڑتی ہے۔ ’’کرم‘‘ کے نتیجہ کے طور پر مبارک، نا مبارک دونوں طرح کے اعمال پیدا ہوتے ہیں لیکن نجات کا ذریعہ ’’کرم‘‘ نہیں ہے۔ اس کا راستہ علم اور تعلیم ہے۔ جعفر رضا گناہ کو انسانی زندگی کی قیمت مانتے ہیں، جس کی بنا پر انسان کو دوسری مخلوقات پر ترجیح حاصل ہوئی ہے۔ اس خیال کو انھوں نے اپنے اس غزلیہ شعر میں بڑی لطافت اور ہنر مندی کے ساتھ ہمارے سامنے بیان کیا ہے:
اسی گنہ نے ملائک پہ فوقیت بخشی
یہی گنہ بشریت کی آبرو،یاراں!
پھر اس کی پاکیزگی کو شری کرشن کی لیلاؤں سے جوڑ کر ایمان کا کعبہ کہتے ہیں:
سازِ گنہ کانہا کی بنسی،سوز گنہ مدھوبن میں گوپی
ہم نے گنہ کو صورت بخشی، ہم ہیں کعبۂ ایماں، یاراں
ایک اور شعر میں اس طرح رازپر سے پردہ اُٹھانے کی کامیاب ترین کوشش کرتے ہیں:
تم اسے کفر کہو میں اسے ایماں سمجھوں
ایک ہی بات کہنے میں اسرار بہت
لاعلمیت کے سبب سے دیر و حرم کے جھگڑے ہیں۔ اگر معابد کے اسرار سے تعارف ہو جائے تو سبھی جھگڑے ختم ہو جائیں ۔ جعفر رضا کاایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہو جائیں اگر واقف اسرار معابد سے
ہٹ جائیں دماغوں سے دیر و حرم آہستہ
اسلام کے نام پر دہشت گردی کو جہاد کا نام دینا جعفر رضا کو سخت نا پسند ہے۔ وہ اس جہاد کو توسیع پسندی کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کی توسیع پسندی کو للکارتے ہوئے کہتے ہیں:
اپنی توسیع پسندی کو سمجھتے ہو جہاد
ہم کو دکھلاؤ تو قرآں میں کہاں دیکھا ہے
جعفر رضا کا عقیدہ ہے کہ سیاسی مفاد پرست بھارت اور پاکستان کے عوام کے بیچ جتنی بھی کھائی کھودیں، دونوں کے دلوں کے بیچ جو رشتہ ہے وہ انھیں ایک دوسرے کی جانب کھینچتا رہے گا۔ اس ضمن میں جعفر رضا کا ایک شعر خاطر نشان ہوں:
وہ روکتے رہے ملکوں کی سرحدوں کے پرے
کشش دلوں کی تو پُروائی تھی کہاں ٹھہری
جعفر رضا کو اپنے وطن کی مٹّی بیحد عزیز ہے۔وہ چاہے کشمیر کے مرغزاروں کی سیر کر رہے ہوں، پریاگ راج میں سنگم کے کنارے چہل قدمی کر رہے ہوں یا اپنے وطن سے دور ہوں۔ وہ اپنے وطن کو کبھی فراموش نہیں کرتے ۔ ان کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں ہندوستانیت کے پہلو جا بجا نظر آتے ہیں۔ جعفر رضا اپنے مختلف اشعار میں اپنے وطن کی تعریف مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں۔ کبھی انھیں بھارت کی تہذیب و ثقافت کی یاد آتی ہے تو اس انداز سے بیان کرتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
تمدن کی آویزشوں کی امیں ہے
بڑی رازداں ہے بھارت کی دھرتی
اپنے وطن ہندوستان سے اس قدر محبّت ہے کہ ہزار مایوسیوں اور نا امیدیوں کے باوجود وہ اپنے دل میں وطن کے مٹّی کی خوشبو آس اور امید کو جگائے رکھتی ہے۔وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا ہے:
ہجوم یاس میں بھی آس جاوداں ٹھہری
یہ اپنی دھرتی کی بو باس ہے گراں ٹھہری
جعفر رضا کا تعلق پریاگ راج کی دھرتی سے ہے۔ جہاں گنگا، جمنا اور سرسوتی کا مقدس ملن ہوتا ہے۔ وہ انھیں کے ساحل کی ریت پر کھیل کود کر جوان ہوئے ہیں، انھیں مقدس ندیوں کی لہروں میں ڈُبکی لگا کر تروتازہ ہوئے ہیں اور ان مقدس ندیوں کا نظارہ انھوں پوری زندگی دیکھا ہے اور ترو تازگی محسوس کی ہے۔ یہ نظارے ان کی نظروں میں رچ بس گئے ہیں۔ انھوں نے پریاگ راج کی تین مقدس ندیوں کا فائدہ اُٹھا کر بہترین شعر کہا ہے۔ انھوں نے اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
دیر و حرم مں ہم نوا، اہلِ وفا الگ الگ
پھیلا ہے نور ایک سا، جلتا دیا الگ الگ

ہے تربینی ملانے کی نگری
کبھی تم بھی آؤ وہیں میرا گھر ہے
یا پھر گنگا جمنا کی لہروں کو دیکھ کر وہ فطرت کے حسن و جمال کی داد دینے لگتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
سر پٹکتی ہیں سدا گنگ وجمن کی موجیں
سِّرِ فطرت کا عجب حسنِ بیان دیکھا ہے
جعفر رضا کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی تصویرصاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے ہندوستانی تہذیب اور رسم ورواج کو بھی اپنی غزلیہ شاعری میں بڑی ہنرمندی اور فنّی لطافت کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔چند اشعار خاطر نشیں ہوں:
جو پھولی ہے سرسوں تو لگتا ہے جیسے
چلی نازنیں پہنے جوڑا بسنتی

پہن کے بچھوا، کڑا، کردھنی و پاجبیا
ہمارے گاأں کے بچے ٹھمک کے چلتے ہیں

راکھی ہے ! یہ دھاگا نہیں، یہ رشتۂ جاں ہے
یہ بھائی کا وعدہ ہے، بہن یاد رکھے گی
جعفر رضا نے اپنی شاعری کے ذریعہ ملک میں اتحاد و اتفاق کا پیغام دینے کی مستحسن کوشش کی ہے اور جس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ان کی تمام زندگی دو فرقوں میں اتحاد کی جڑیں تلاش کرنے میں گزری ہے، جس کی ہر سانس دو مختلف فرقوں میں ایک دوسرے کے تعلق سے پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں صرف ہوئی ہے۔ جس کے قلم نے اردو،ہندی اور انگریزی زبانوں میں اتحاد و اتفاق کے پیغامات سے دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے ہیں۔ وہ بھلا اپنی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں اتحاد بین المسلمین اور ہندو و مسلمانوں کے درمیان قومی اتحاد اور یگانگت کو کیسے بھول سکتے ہیں اور وہ بھولے بھی نہیں ہیں۔اس ضمن میں چند اشعار خاطر نشان ہوں:
تم اسے کفر کہو میں اسے ایماں سمجھوں
ایک ہے بات مگر کہنے میں اسرار بہت

ہو جائیں اگر واقف اسراِ معابد سے
ہٹ جائیں دماغوں سے دیر وحرم آہستہ

اپنی بات بھی کیجئے، اس کی بات بھی سنئے
دشمنی میں چاہت کا اک در کھلا ہے

با حسن وفا سبقت ہے مقصد ہر مذہب
کیوں ڈھونڈھتے ہو یکساں تم مسلم و ہندو میں

دل کے آئینہ میں کعبہ بھی ہے، بُت خانہ بھی
وحشتِ دل تری تفسیر ہوئی ہے اکثر
جعفر رضا کے یہاں عصری حسیت کے پہلو بھی نظر آتے ہیں۔وہ اپنے آس پاس کے ماحول اور زندگی کی تلخ اور حقیقی سچائی سے آنکھیں نہیں چراتے ہیں بلکہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں اور اس کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی بھی اب مرتی جا رہی ہے، مٹتی جا رہی ہے اور اب آدمی، آدمی سے گریزاں ہے۔عام طور پر جب بھی کوئی حادثہ لوگ دیکھتے ہیں تو تیزی سے گذر جاتے ہیں یا نظراندازکہ کہیں کوئی مصیبت گلے نہ پڑے۔ اب تو لوگ محض تماشہ دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی جعفر رضا نے بڑی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اپنی ہنر مندی اور چابک دستی کا عمدہ ثبوت پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اب آدمی بنے ہیں اک دوسرے کے سائل
اب آدمی گریزاں رہتا ہے آدمی سے

جب آگ لگی گھر میں تھا کون بجھانے کو
اب تک تو ملا ہم کو ہر شخص تماشائی

خاموش کھڑا تھا میں سب قتل کے در پے تھے
جب غور سے دیکھا تو ان میں تھا مرا بھائی

گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثے چہرے کی پہچان مٹا دیتے ہیں

پہلے بھی لوگوں کو انصاف کہاں ملتا تھا
حق سے بیگانہ عدالت مگر ایسی تو نہ تھی

اداس ٹوٹے بجھے بکھرے فاقہ کش محروم
جہاں بھی جائیے بے چہرہ لوگ ملتے ہیں
جعفر رضا کی غزلیہ شاعری میں تغزل کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کے سینے میں بھی دل ہے ۔ شاعر اپنے سماجی اور معاشرتی حالات سے خواہ کتنا ہی متاثر ہو وہ حسن و عشق کے نازک جذبات و خیالات سے بے نیاز نہیں رہ سکتا ہے۔’’برف کی آگ ‘‘اور ’’احساس کا سفر‘‘ میں اس دل کی کرشمہ سازیوں کے نشانات جلوہ گر ہیں لیکن ان کا اندازِ بیان دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔انھوں نے اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار بڑی خوش اسلوبی اور فنّی بصیرت کے ساتھ کیا ہے۔تغزل کے چند اشعار خاطر نشان ہوں:
تمہارے آنے کی آہٹ تو کب سے سنتا ہوں
چلے بھی آؤ مرے پاس مہرباں تنہا

تھی شدتِ جذبات چھپائے سے نہ چھپتی
اس شوخ کے چہرے کی پھبن یاد رہے گی

بری بات ان کو ہماری لگے
ہمیں ان کی ہر بات پیاری لگے

مانا اس شہر میں ہر شخص ہی دلبر ہے مگر
دل بجز تیرے کسی اور سے قائل ہی نہیں
جعفررضا نے کافی عرصہ کشمیر میں گزارا ہے۔ تقریباً تین برس تک انھوں نے وہاں پر ملازمت کی ہے۔ اس دوران انھوں نے وہاں کا دلفریب حسن بھی دیکھا ہے اور وہاں کے حالات سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی تمام غزلیہ شاعری میں کشمیر کا دلفریب حسن، وہاں کی آب و ہوا اور اس کا پس منظر بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں جعفر رضا کے فکر انگیز اور فکر آلود اشعار خاطر نشان ہوں:
دل جو مردہ ہو تو یہ رشکِ جناں، کچھ بھی نہیں
لالہ ہو سبزہ ہو یا آبِ رواں کچھ بھی نہیں

یہ دہکتے ہوئے غنچے یہ سلگتے ہوئے دل
ہر طرف سوزِ دروں، حرفِ زباں کچھ بھی نہیں

پیارے دامن سے جدا ہو گئے، میں نے دیکھا
حسرتیں بولیں، میاں! عمر رواں کچھ بھی نہیں

زمانہ بدلا ہے رنگ چمن بھی بدلے گا
چنار اب نظر آتے ہیں شعلہ رو،یاراں
جعفر رضا کی غزلیہ شاعری میں تمثیل نگاری کے عنصر خاص طور پر پائے جاتے ہیں۔ شاعری میں تمثیلات، تشبیہات اور استعارات خالصتاً شاعر کے ذاتی تجربات و مشاہدات کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ندرت بیان اور تازہ کاری کا احساس جعفر رضا کی غزلیہ شاعری سے ہوتا ہے۔ انھوں نے تمثیلات، تشبیہات اور استعارات کا بڑی خوش اسلوبی اور ہنر مندی کے ساتھ کیا ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:
رازِ فطرت قلب میں اترے
جیسے گوری سیج پر آئے

موت پکارے لمحہ لمحہ
جیسے مہاجن کنڈی ہلائے

موسمِ گل میں یہ پتّوں کے کھڑکنے کی صدا
نفس عمر کی آواز ہو مدھم جیسے

امید ہے یوں کل کی،جیسے نظر آتی ہے
برسات کی راتوں میں جگنو کی ضیا مجھ کو
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جعفر رضا نے حبّ الوطنی، قومی اتحاد و یگانگت، عصری حسیت، حسن و عشق، کشمیر کا بیان، تمثیلات، مذہبیات اورنوحے وغیرہ پر اپنے دل کے درد و کرب اور رنج وغم کا اظہار بڑی بیباکی اور چابکدستی کے ساتھ کیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام شاعری ان کے ذہنی فکر اور ذہنی رویہ کا خوبصورت عکس ہے۔ جس میں انھوں نے اپنے دلی جذبات و احساسات،تجربات و مشاہدات اور خیالات و تصورات کا اظہار بڑے ہی فنی بصیرت اور فنی لطافت کے ساتھ سامعین اور قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ مختصر یہ کہ ان کے تمام غزلیہ اور نظمیہ اشعار اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں معنویت و اہمیت کی حامل ہے۔

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 72049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.