اس خدائے ذوالجلال و الاکرام کے بابرکت نام سے جو دلوں کے
بھید خوب جانتا ہے۔ آہ!! یہ دل چھوتے اور تنبیہ کرتے خوبصورت الفاظ جو طارق
عزیز صاحب اپنے ہر شو کے آغاز میں دہراتے تھے ۔
طارق عزیز عبدالستار ایدھی کی طرح ان بزرگان پاکستان میں شامل تھے جنہوں نے
اس مملکت خداد کو اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا ۔ بلاشبہ ایدھی صاحب اور جنید
جمشید کے بعد وہ تیسرے آدمی تھے جن کے انتقال پر ہر مکتب فکر اور شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والے اشکبار تھے۔
1936 اپریل میں پیدا ہوئے ۔ کالم کا مجموعہ داستان اور شاعری کا مجموعہ "ہم
زاد دا دکھ" شائع ہوئے ۔ ریڈیو اور پھر ٹی وی میں کام کیا۔ پاکستان میں سب
سے پہلے ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے۔ بہترین اینکر اور پی ٹی وی کے بانیان
میں شامل تھے۔ نیلام گھر چالیس سال تک جاری رہنے والا دنیا کا واحد شو ہے
جسے فرد واحد نے اس مدت تک ہوسٹ کیا۔
وہ سچے اور پکے مسلمان تھے۔ پاکستان کا اصل چہرہ تھے۔ ان کی کتاب 'فٹ پاتھ
سے پارلیمنٹ تک' آپ کے سیاسی کیرئیر پر روشنی ڈالتی ہے۔ احسان دانش کی طرح
انہوں نے بھی عہد شباب میں بے گھری ، تنہائی اور غربت دیکھی۔ ان کا ذاتی
گھر تک نا تھا جس گھر میں مقیم تھے وہ ان کی مرحومہ بیگم کی ملکیت تھا جو
بہت پہلے انہیں داغ مفارقت دے گئی تھیں۔ ایک شو میں انہوں نے اس بات کا ذکر
بھی کیا تھا۔
اگر بیگم مجھے اپنے گھر سے نکال دے تو طارق عزیز کے پاس رہنے کو صرف فٹ پات
ہو گا۔
خوش گفتار اور چست دکھائی دینے والےدر اصل تنہائی کا شکار تھے۔ کہتے تھے کہ
سکرین کا پردہ جیسے ہی ہٹتا ہے تو ایک اداس طارق پیچھے رہ جاتا ہے اور ایک
ہنس مکھ انسان اس کی جگہ سامنے آ جاتا ہے۔
پاکستان سے محبت ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو
دو لخت کرنے کی بات کر رہے تھے تو طارق عزیز نے ان کے سامنے جھولی بچھا دی
تھی کہ خدارا اپنے اقتدار پر دو قومی نظریہ قربان نا کریں۔ آپ کے اقتدار سے
زیادہ ملت کا اتحاد ہے اسے نا توڑیں۔
بعد ازاں مسلم کی پارٹی رکنیت اور لاہور کا ٹکٹ لینے نواز شریف کو انٹر ویو
دینے گیے۔ نواز شریف بھی ان کا قدردان تھے کہنے لگے میں آپ کو ٹکٹ نا دوں
تو؟؟ عاجزانہ جوب دیا ' اگر آپ مجھے ٹکٹ دپں تو پہ اچھا ہوگا اور اگر نا
دیں تو وہ بھی اچھا ہے۔ نوازشریف نے کہا بخدا آپ سے زیادہ اس کے قابل اور
کوئی نہیں۔
گو کہ سیاست کی قباحتوں سے چڑ تھی لیکن وطن کا درد تھا جو پارلیمنٹ لے گیا۔
اور تاریخ نے دیکھا کہ اس لاہور شہر نے جہاں ایک پارک میں پناہ گزین تھے
لوگوں نے دل کھول کر ووٹ دیئے اور مقدس ایوان تک پہنچایا۔
آہ!! وہ محب وطن وہ شیدائے ملت وہ مصنف درد وہ شاعرِ غم غریبان وطن !!!! وہ
پیکر اخلاق وتمدن تھے جنہوں نے انٹر ٹینمنٹ کے میدان میں بھی شائستگی کا
دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔
بلاشبہ ان کا ٹی وی کیرئیر لائق تحسین اور قابلِ تقلید ہے ۔ان کا شو دیکھنے
والے تہذیب و ثقافت اور تاریخ اسلاف سے آشنائی حاصل کرتے تھے۔ ان کے شو کا
مقصد عوام میں تفریح کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق بیدار کرنا تھا۔ ایک عام سے
موٹر سائیکل کے لیے کئی دنوں تک کوئیز ہوتا تھا۔ شرکاء علم و ادب سے مستعد
ہوکر آتے اور بہت سا علم سمیٹ کر جاتے۔ مزاح ایسا کہ کسی کے پاس قینچی ہو
تو تشریف لائے، نکاح نامہ کسی کے پاس ہے؟؟ جس کے پاس سے نکلتا اسے کتابوں
اور پھولوں کا تحفہ دے کر رخصت کرتے۔ بر عکس اس کے آج کل کے شو میں ناچنے
پر موٹر سائیکل دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے سامنے اینکر غیر خواتین کو موٹر
سائیکل پر بٹھا کر جھولے لیتا ہے۔ ایسے لاغر اور لایعنی شو !!! ، بھائی
مجھے بائیک دے دیں ، بھائی مجھے لیپ ٹاپ دے دیں ، مجھے جوڑا دے دیں ، مطلب
کیا اس قوم سے خود داری اور شائیستگی کا جنازہ نکل چکا ہے؟؟؟
میں عرض کروں گی کہ حلال انٹر ٹینمنٹ عوام کا حق ہے ۔ پیمرا کو چاہئیے کہ
ایسے انعامی پروگرامز میں علمی و ادبی سیگمنٹ کو لازمی قرار دے۔ قومی وقار
اور معاشرتی تمدن کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ بد تہذیبی اور بد اخلاقی کے
آگے بند باندھا جائے۔طارق عزیز کہتے تھے" ایک ہمارا دور تھا اور ایک آپ کا
دور ہے"۔ اور وہ کیا بہترین دور تھا جب خبریں دینے والیاں سر پر دوبٹہ لے
کر بیٹھتی تھی۔ اللہ اس ملک کو حقیقی اسلامی جمہوریہ پاکستان بنائے۔
وطن عزیز کو دعا
پاکستان زندہ باد |