امریکانے تیل کی عالمی منڈی پراپنی اجارہ داری
برقراررکھنے کیلئےکی جانے والی کوششوں میں دھمکیاں بھی شامل کرلی ہیں ۔
12اپریل کوسعودی عرب،تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک اورروس کی
قیادت میں فعال تیل برآمد کرنے والے ممالک نے پیداوارمیں یومیہ کم
وبیش97لاکھ بیرل کے مساوی کٹوتی کااعلان کیا۔سعودی عرب اورروس کے درمیان
مارچ کے دوران تیل کی قیمت کے حوالے سے جوکشیدگی پیداہوئی اُس نے
امریکاکومداخلت کا موقع مل گیا۔2/اپریل کوٹرمپ نے سعودی ولی عہدمحمدبن
سلمان کوفون کیا،جس میں اُنہیں واضح دھمکی دی کہ اگرسعودی عرب نے تیل کی
پیداوارکم کرکے تیل کی قیمتیں مستحکم کرنے میں کلیدی کردارادانہ
کیاتوامریکی قیادت سعودی سرزمین کے دفاع کی ذمہ داری سے دست کش ہوتے ہوئے
وہاں سے افواج،پیٹریاٹ میزائل اورمیزائل ڈیفنس سسٹم ہٹالے گی۔یہ دھمکی اس
قدرہمہ گیر نوعیت کی تھی کہ ولی عہدحیران رہ گئے اورانہوں نے اپنے تمام
معاونین کوفوری طورپرکمرے سے نکال دیاتاکہ مزیدتوجہ اور رازداری سے بات
کرسکیں۔
اگلے ہی دن یعنی3/اپریل کوٹرمپ نے چندسینیٹرزاورامریکامیں تیل کی صنعت کی
نمایاں شخصیات کووائٹ ہاؤس مدعو کرکے تیل کے بحران سے متعلق امورپرتبادلۂ
خیال کیا۔اس ملاقات کابنیادی مقصدامریکامیں تیل کی صنعت کومکمل تباہی سے
بچانااورسعودی عرب سمیت تیل کے تمام بڑے برآمد کنندگان کوپیغام دیناتھاکہ
امریکی قیادت یہ معاملہ پوری سنجیدگی سے لے رہی ہے۔سعودی عرب،روس
اوردیگرممالک کی طرف سے پیداوارمیں کی جانے والی کمی کوامریکی ایوانِ صدرکی
بہت بڑی کامیابی کے روپ میں دیکھاجارہاہے۔امریکااورسعودی عرب کی اسٹریٹجک
پارٹنرشپ75برس پرمحیط ہے۔ 1945ءمیں امریکی صدرروزویلٹ نے سعودی عرب کے
سربراہ شاہ عبدالعزیز بن سعود سے ملاقات کی تھی۔امریکی بحریہ کے ایک
جہازپرہونے والی اس ملاقات میں طے پایاتھاکہ سعودی عرب اپنے تیل کے ذخائرتک
امریکاکورسائی دے گااوراس کے عوض امریکاسعودی عرب کی تیل کی تنصیبات کاتحفظ
یقینی بنائے گا۔سعودی عرب میں ساڑھے تین ہزارامریکی فوجی تعینات ہیں۔سعودی
عرب سے تیل کی برآمدات کی نگرانی کی ذمہ داری بھی امریکاکی ہے۔
ٹرمپ نے سعودی ولی عہدکوبتایاکہ اگر تیل کی پیداوارمیں کٹوتی کرکے امریکاکی
تیل کی صنعت کوبچانے کی کوشش نہ کی گئی توکانگریس میں اُس مسودۂ قانون
کومنظورہونے سے روکانہ جاسکے گاجس کامقصدسعودی سرزمین سے امریکی فوجی
اوردفاعی سازوسامان ہٹاناہے۔وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران جب میڈیاکے
نمائندوں نےٹرمپ سے ولی عہدکودی جانے والی مبینہ دھمکی کے بارے میں
پوچھاتوانہوں نے کہاکہ ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ٹرمپ پیوٹن سے بھی
خفاہیں کیونکہ انہوں نے معاملات کوبگڑنے سے نہیں روکا۔ٹرمپ کاکہناتھاکہ
سعودی عرب اورروس کے درمیان معاملہ طُول پکڑرہاتھاایسے میں کسی ڈیل
کیلئےمداخلت لازم تھی،سو اُنہوں نے مداخلت کی۔
2/اپریل کوٹرمپ کی طرف سے سعودی ولی عہدکوفون کال سے دوہفتے قبل ری پبلکن
سینیٹرزکیون کریمراورڈین سلیون نے کانگریس میں وہ مسودۂ قانون متعارف
کرایاتھا،جس کابنیادی مقصد تیل کی پیداوارنہ گھٹائے جانے پرسعودی سرزمین سے
امریکی فوجیوں اوردفاعی سازوسامان کوہٹاناتھا۔تیل کی قیمت کے حوالے سے
سعودی عرب اورروس کی جنگ نے امریکی کانگریس میں شدیداشتعال
پیداکردیاتھاکیونکہ امریکامیں تیل کی صنعت کواس جنگ کے ہاتھوں شدیدمشکلات
کا سامنا تھا۔جب روس نے پیداوارمیں کٹوتی سے انکارکیاتوسعودی عرب نے
بھی’’نل‘‘کھول دیایعنی مارکیٹ میں اتناتیل ڈال دیاکہ قیمت کوگرنے سے
روکناکسی بھی طور ممکن نہ رہا۔کوروناوائرس کی روک تھام کیلئےکیے جانے والے
لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھرمیں تیل کی کھپت بہت کم ہوگئی۔رسد میں کمی نہ
لائے جانے سے امریکامیں تیل کی منڈی بالکل بیٹھ گئی،قیمت صفر تک آگئی۔تیل
کی یومیہ پیداوارمیں97لاکھ بیرل کی جوکمی کی گئی،اس میں سعودی عرب اورروس
کاحصہ50لاکھ ہے۔دونوں ممالک کی معیشت کامدارتیل اورگیس کی آمدن پرہے۔
30مارچ کوسینیٹرکیون نےٹرمپ سے ٹیلی فون پربات کی تاکہ سعودی عرب کے حوالے
سے معاملات طے کرنے کے بارے میں کوئی لائحۂ عمل تیارکیاجاسکے۔امریکی وزیر
توانائی ڈین برولیٹ کاکہناتھاکہ امریکی صدرقومی مفادات کاتحفظ یقینی بنانے
کیلئےکوئی بھی اقدام کرسکتے ہیں یعنی سعودی عرب سے اسٹریٹجک پارٹنرشپ بھی
ختم کی جاسکتی ہے۔اُسی دن ٹرمپ نے کیون کوجوابی فون کال کی۔وزیرتوانائی ڈین
برولیٹ،سینئراکنامک ایڈوائزرلیری کڈلواورتجارتی نمائندے رابرٹ لائتھیزر بھی
لائن پر تھے۔کیون نے شکوہ کیاکہ وزیردفاع مارک ایسپر کوبھی لائن
پرہوناچاہیے تھا۔
16مارچ کوکیون سمیت 13/سینیٹرزنے سعودی ولی عہدکوخط لکھاجس میں ان پرواضح
کردیاگیاکہ امریکامیں تیل کی صنعت کو تباہی سے بچانے کیلئےسعودی عرب کوتیل
کی پیداوارنیچے لاناہوگی۔عالمی منڈی میں تیل ضرورت سے بہت زیادہ آجانے سے
صورتِ حال بگڑی اورتیل کی قیمت بالکل گرگئی۔ساتھ ہی ساتھ امریکی وزیر تجارت
ولبرراس پرسینیٹرزنے زوردیاکہ وہ اس امر کی تحقیقات کریں کہ عالمی منڈی میں
بہت زیادہ تیل پہنچاکرسعودی عرب اورروس نے بین الاقوامی تجارتی قانون کی
خلاف ورزی تونہیں کی۔
18مارچ کوڈین سلیون اورٹیڈکروزسمیت امریکی سینیٹروں کے ایک وفدنے امریکامیں
سعودی سفیرشہزادی ریمابن بندربن سلطان سے ملاقات کی اوران پرزوردیاکہ وہ
امریکامیں تیل کی صنعت سے متعلق قانون سازوں کی تشویش سے سعودی قیادت
کوآگاہ کردیں۔امریکی سینیٹرزنے سعودی سفیرکویہ بھی بتایاکہ یمن میں سعودی
عرب کی قیادت میں جواتحادی جنگ میں مصروف ہیں، اُس کے حوالے سے کانگریس میں
شدیداشتعال پایاجاتاہے کیونکہ یمن میں انسانی المیے نے جنم لیاہے۔بڑے
پیمانے پرہلاکتیں ہوئی ہیں اورملک کابنیادی ڈھانچا مکمل طورپرتباہ
ہوگیاہے۔یہ دہمکی اونٹ کی کمرپرآخری تنکے کے طورپراستعمال کی گئی ہے۔
|