اقوام متّحدہ

دنیا میں جب اقوام متّحدہ کے ادارے کا قیام ہوا تو یہ اقوام عالم کو غلام بنانے کا ایک ایجنڈا تھا۔ در اصل یہ One World Order کی ابتدا تھی۔اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ادارے نے انسانوں کی بھلائی کا کوئی کام کیا ہو۔امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیئے اسکو استعمال کیا۔تاریخ کا مطالع کریں تو پتہ چلتا ہے کہ امن کے نام پر ترکی کی جو بندر بانٹ کی گئی، وہ آج تک ترکی بھگت رہا ہے۔ انہوں نے جس طرح سو برس گزارے ہیں ۔ان کا ہی دل جانتا ہے۔ گورا اب آخر کے تین سالوں میں بھی کسی نہ کسی طرح کی ریشہ دوانی کے بغیر نہیں رہے گا۔ اللہ مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔ گوروں نے امّت، مسلمہ کی یک جہتی کو تہس نہس کر دیا۔ اور دنیا میں جہاں بھی موقع ملا۔ اپنی طاقت اور حکم کو مقدّم رکھّا۔اقوام متحدہ نے قبرص اور کشمیر کے لیئے کیا کیا؟ جی ہاں ! اپنے تعصب کی بنیاد پر انڈونیشیاء میں تیمور کو آزاد مملکت بنوا دیا اور سوڈان میں جنوبی سوڈان کی حکومت بنا ڈالی۔ا س کے ذیلی ادارے دنیا میں اپنے اقتصادی مفاد کی خاطر اپنی مرضی کے قوانین بناتے رہے۔ساری دنیا پر دہشتگردی کا الزام لگا تے رہے اور نائن الیون کی دہشتگردی مسلمانوں کے نام ڈالدی۔ سب سے زیادہ تباہی کے ہتھیار امریکہ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہیں کیا؟ مگر الزام عراق پر ڈال دیا۔ اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین کی اقوام متحدہ نے کیا مددکی، سوائے اسکے کہ نسل کُشی اور قتل عام ہوتا رہا۔ آج تک کسی نے کیا کر لیا؟

غلاموں کی سرشت ہوتی ہے کہ اگر انہیں آزادی مل جائے اور یہ طاقت بھی پکڑ لیں۔ تو ہمیشہ اپنے آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔یہودی اس کی ایک واضح مثال ہیں۔انکا آقا فرعون انکے لڑکوں کو مار دیتا اور انکی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ بلگیٹ کا منصوبہ ہے کہ عورت مرد کی کیا تفریق ۔ کل آبادی کو ماردو۔ ویسے تو یہ طاقت ور ہونے سے پہلے ہی پس پردہ ریشہ دوانیوں میں متحرّک تھے۔ ابOne World Order کے لیئےکرونا کی سازش کی ہے۔ ایک تو سات ارب آبادی کو دو ارب کرنے کا ایجنڈا ہے۔ اسکے لئے ان کی جو مرضی ہو گی یہ کریں گے۔ انہوں نے جو ایس او پیز بنائی ہیں ۔ بہت سوچ سمجھ کر بنائی گئی ہیں۔سوشل ڈسٹنسنگ عوام النّاس کی یکجہتی کو برباد کرنے کا بڑا ہتھیار ہے۔انکو کرونا سے بڑی کامیابی ملی ہے ۔ اب یہ وقت کے اعتبار سے۔ ایسی وائرس بناتے رہیں گے اور پینڈمک بتا کر اموات کی کمنٹری کرتے رہیں گے۔ عوام النّاس ہزاروں اور لاکھوں مرتے رہیں گے۔صاحب، کردار اب کہاں؟ کرونا کے کاروبار میں

بہت پیسہ ادھر ادھر ہو رہا ہے۔ مَیں تفصِیلات کیا بتاؤں تمام خبریں زبان زد عام ہیں۔

جن ڈاکٹروں کا ضمیر زندہ ہے انہوں نے ساری دنیا سے اس ایجنڈے پر لکھا ہے۔ آگاہی کی خاطر ویڈیو بنائی۔ثبوت کے ساتھ بتایا کہ یہ صرف فراڈ ہے ڈر بیچا جا رہا ہے۔ لوگ کرونا سے نہیں مر رہے بلکہ پھیلائے ہوئے خوف سے مر رہے ہیں۔ اور یو ٹیوب پر اپ لوڈ بھی کیں۔ یوٹیوب نے ہٹادیں۔ اظہار رائے پر پابندی کے خلاف بولنے والے چیمپین کہاں مر گئے؟ یو ٹیوب کا موقف ہے کہ وہ WHOکے موقف کے خلاف کچھ بھی پبلیش نہیں ہونے دیئں گے۔ WHO کو اب بلگیٹ تنہا فنڈنگ کر رہے ہیں۔اگرچہ کہ اب وہ بلگیٹ کا ہے مگر اقوام عالم کو اقوام متحدہ کی دھونس دے کر بلگیٹ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا۔

اب عرض کروں کہ کرونا کی خوفناکی کیا ہے؟ جعلی ٹسٹنگ کٹ سے کرونا پازیٹیو دکھا کر سرکاری مدد سے قرنطینہ مِیں ڈال دیں۔ اس شخص کی نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔ پھر سرکاری سر پرستی میں اسکے مر جانے میں فائدہ ہے۔ یا زندہ رہنے میں ۔اس بھیانک صورتحال میں اس کا دم گھٹنے کا احساس فطری ہے۔ یہی موقع ہے جب اسکو ونٹیلیٹر پر ڈالنا ہے۔ اس منزل سے کتنے لوگ واپس آئے ہیں کوئی ریکارڈ ہے؟

یہ ایسی کیفیت ہے جب میرا جسم میری مرضی بھی نہیں چلے گی۔اور مریض کو اپنی موت کا پورا یقین ہو جاتا ہے۔اس پر محبت کرنے والوں کا قریب نہ ہونا ۔ مرنے کے بعد غسل میت اور نمازِ جنازہ اور لاش کے گڑھے میں پھینکے جانے کا تصور۔کیا اس سب سوچ کے بعد بھی زندہ رہنا آسان ہے؟

ڈاکٹر بھی جانتے ہیں کہ ونٹیلیٹر جان بچاتا کم ہے اور اموات زیادہ ہوتی ہیں۔تکنیکی طور پر اس مشین پر ایمانداری سے تحقیق ہونی چاہیئے۔

ریاست کی ذمّہ داری ہے کہ ا پنی عوام کی حفاظت کرے ۔مگر کیسے؟مثلا، عوام اور ملک کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کا کیا خوب مقابلہ کیا۔ ہمارے ہاں تو صاحب علم نا پید ہیں۔لِہٰذا انہوں نے آبرو اس طرح بچانےکی کوشش کی کہ سازشیوں کے ہم زبان ہو گئے۔ جیسے نواز شریف کے پلیٹیلٹس کے معاملے میں کیا تھا۔ سب نے ملکر ایسے بڑھائے کہ نواز شریف اب گئے اور اب گئے۔ اور وہ ان سب کی آشرواد سے آخر لندن چلے گئے۔ اتنے کم پلیٹیلٹس پر بھی وہ شیر کی طرح پیدل چلکر نام نہاد ہوائی ایمبولینس پر سیڑھیوں سے چڑھ گئے۔ آج کل لندن میں ہوا خوری اور چائے نوشی سے محظوظ ہو رہے ہیں۔

ہمارے یہ نام نہاد صحت کے ماہرین، کرونا کرونا کھیل رہے ہیں۔ اور ملکی معیشت اور عوام کا ستیا ناس کردیا۔ ایسا لاک ڈاؤن ویسا لاک ڈاؤن،اسمارٹ لاک ڈاؤن، نہ جانے کتنی قسم کے لاک ڈاؤن بنا ڈالے۔ یوروپ، امریکہ، سے ڈاکٹروں نے، حقائق بتائے، مگر ہمارے بڑوں کو پتہ ہی نہ چلا۔ تنزانیہ(دارالسلام) کے صدر نے اس کرونا سے جان چھڑائی۔ کوئی لاک ڈاؤن نہ کیا۔ ہاں انہوں نے غیر ملکیوں پر پا بندی لگا دی کہ یہی کرونا ٹریفکر ہیں اور انہی کی بنیاد پر بلگیٹ بڑی خوشی سے اموات کی پیش گوئی کرتا رہتا ہے۔ آپ ذرا تصوّر کریں کہ کرونا کی تصویر کس نے ڈزایئن کی ہے۔ ذرا اندازہ کریئں کہ اصل کرونا کا سائز کیا ہے ۔ اٹلی کی زبان میں وائرس جسم میں بننے والے زہر کو کہتے ہیں اور وہ رقیق ہوتا ہے۔کسی پانی جیسی چیز کی کیا شکل ہو گی۔مغرب کی سائنسی معلومات کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں رہی۔انکی علم و دانش اکثر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ آپ کو کیا کیا بتاؤں۔ جب خشک دودھ بنایا تو بڑے دعویٰ سے اسے ماں کے دودھ کا بدل بتاتے رہے۔ چاند پر کتنے ڈھڑلّے سے گئے اور ساری دنیا کو ماموں بنا دیا، کیا کسی کو اب بھی یقین ہے کہ یہ چاند پر گئے تھے تو اسکی ویڈیو دوبارہ دیکھیں آپ کو نظر آئے گا کہ امریکی پرچم ہوا سے لہرارہا ہے۔ کیا چاند پر ہوا ہے ؟ انکا ماضی قریب میں جھوٹ نائن الیون ہے ۔جسے انہوں نے مسلمانوں پر ڈال دیا۔

مجھے حیرت ہے کہ ہمارے سیانوں نے کرونا پر اسکی تمام جھوٹی تفصیلات کے ساتھ پورا یقین کیا اور ہمارا میڈیا اموات کے جھوٹے اعداد و شمار بڑے فخر سے بتاتا ہے جیسے یہ خبر صرف انکے پاس ہے۔ اور ہماری انتظامیہ کے پاس وہی پلیٹیلٹس والے لوگ ہیں۔ یہ بھی انہیں کے دئیے ہوئے اعداد و شمار پر کرونا سے نمٹنے کی حکمت عملی طے کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ ان لوگون سے ڈرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے بڑی رازداری سے کھانا بانٹ دیا۔ جنکے پاس کتوں کے کا ٹے کی ویکسین میسر نہیں ۔وہ کرونا کی ویکسین کے لیے بڑے بے چین ہیں۔

در اصل ویکسین ہی کی تجارت کی خاطر کرونا کا ڈر پھیلایا گیا ہے۔ایس او پیز کا مقصد غلاموں کی ٹریننگ ہے۔میڈیا اب یہ پرپگنڈا کر رہا ہے کہ اب ہمیں کرونا کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ میں آپکو بتاؤں کہ ایک میڈیکل پر بڑا سیمینار تھا ۔ وہاں دو میا ں بیوی ڈاکٹر تھے۔ جن کی عمریئں ساٹھ سال کے آس پاس نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے بڑے افسوس سے یہ کہا کہ ہم ڈاکٹروں نے ۵۰؁ اور ۵۵؁ کے بعد علاج نہیں کیا۔ اس بیان کو سن کر ڈاکٹر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ انہوں نے پو چھا کہ کیا۔ چشمہ لگا دینا علاج ہے۔ کیا انسولین کی عادت ڈالنا ذیابیطس کا علاج ہے۔کیا دانتوں کی بتّیسی بنا کر دینا علاج ہے۔اور انہوں نے ایک لمبی فہرست بتائی اور پھرکہا کہ ہم ڈاکٹروں نے علاج کے بجائے Substitution پر توجہ کی اور اسی کو علاج کے بجائے خود ہی کمال سمجھا، حالانکہ فطرت کو سمجھ کر علاج کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔


جب گورے انڈیا آئے توہر فاتح کی طرح اپنے آپ کو بہت قابل سمجھتے تھے۔ ہندوستانیوں کو فالج کے علاج میں جونک لگانے کو دیکھ کر کہا کہ تم لوگ جاہل ہو۔ آج امریکہ میں سالانہ دس لاکھ جونکیں در آمد کی جا تی ہیں۔ اور طرح طرح کی بیماریوں میں ان کا استعمال کیا جا تا ہے۔

میں حیران ہوں کہ لوگ ولایت میں پڑھنے کیوں جاتے ہیں، وہاں کونسی ایسی خاص بات ہے جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔ آپ کو ایک حیرت ناک بات بتاتا ہوں کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار واقعی ہمارے ہیں۔ بھلا کیوں؟ اللہ عبدالقدیر خان صاحب کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ انہوں نے اس کے بنانے میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی ہے وہ خان صاحب کی اپنی ایجاد ہے نہ کسی کے فارمولے کو چرایا ہے نہ کسی کی نقل کی ہے۔ اور انکا ہتھیار زیادہ موثر اور مقابلے مِیں سستا بھی ہے۔

جو علم ہمارے ہاں ہے گورے آج بھی اس سے نا واقف ہیں۔ خدارا سمجھیئے کہ کرونا ایک عام زکام سے بھی کم ہے مگراس میں جھوٹ اور ہراسمنٹ سے بچایئے۔ کورونا سے کوئی نہیں مرے گا۔اور یہاں بھی کرپشن بہت خرابی پیدا کر رہی ہے۔

Syed Haseen Abbas Madni
About the Author: Syed Haseen Abbas Madni Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madni: 58 Articles with 44910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.