آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل ، جو اکیلا امریکن خفیہ
ایجنسی سی آئی اے کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا۔ جس نے بدنام زمانہ بلیک واٹر ،
ایف بی آئی ، سی آئی اے اور موساد کا نہ صرف نیٹ ورک توڑا , بلکہ امریکہ کو
آگاہ کئے بغیر انکے درجنوں ایجنٹس کو پاکستان کے حساس علاقوں کی ریکی کرنے
کے جرم پر آئی ایس آئی کے شارپ شوٹر سے شکار کروایا ...
فوجی#ڈانڈا جو چلتا رہے گا ،غداروں کے خلاف۔۔
شائد وہ بھول گئے تھے وطن کے محافظ خاموش ہیں، مگر اندھے نہیں ہیں۔
یہ تحریر۔۔۔
کیسے جنرل شجاع پاشا امریکہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھے......؟؟؟
" پاکستان سی آئی اے CIA کے نیٹ ورک پکڑنا جاری رکھے گا "
یہ فقرہ میرا نہیں آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل شجاع پاشا کا تھا۔
امریکہ اس وقت 2008 سے 2011 تک اپنے ہزاروں جاسوس زرداری حکومت کے ذریعے
داخل کر چکا تھا۔ بلیک واٹر اور پرائیویٰٹ کانٹریکٹر ایجنٹس کو لاہور ائیر
پورٹ کے رن وے سے ہی سرکاری حکومتی گاڑیوں میں بیٹھا کر بغیر کسی رکاوٹ کے
لاہور میں موجود امریکن کونسل خانہ پہنچایا جاتا رہا۔ اس سب کی منظوری براہ
راست اسوقت کی سیاسی حکومت نے دی تھی
(لیکن شائد یہ سیاسی فصلی بٹیرے بھول گئے تھے وطن کے محافظ خاموش ضرور ہیں
مگر اندھے نہیں ہیں۔)
، یہ شجاع پاشا تھا، جس نے سب خفیہ امریکن جاسوسوں کو بےنقاب کیا اور کچھ
کو ملک سے نکالا، باقیوں کو مارخوروں نے شکار کیا۔ اسی لیے امریکن نے ایک
کتاب لکھ کر شجاع پاشا کو بدنام کیا تھا۔۔۔۔۔
اس وقت سنہ 2011 میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل موریل نے شجاع پاشا کو
میٹنگ میں دھمکی دی کہ ہم پاکستان کی عسکری امداد کے آٹھ ارب ڈالر بند
کردیں گے... شجاع پاشا نے جواب دیا ہمیں نہیں چاہیے۔ ہم خود یہ جنگ جاری
رکھیں گے اپنے ریسورسز پہ اور سی آئی اے کے جاسوسوں کو یہاں نہیں رہینے دیں
گے...
یہ وہ تاریخی جواب تھا شجاع پاشا کا جسں کے بعد سی آئی اے اور امریکہ دشمن
بن چکے تھے ISI کے.....
بی بی سی کی ڈاکومنٹری " سیکرٹ پاکستان" کے مطابق امریکہ کے خلاف افغانستان
میں تمام تر جہاد کو آئی ایس آئی کنٹرول کرتی ہے اور افغانستان میں طالبان
کی دوبارہ اپ رائزنگ صحیح معنوں میں جنرل شجاع پاشا کے ڈی جی آئی ایس آئی
بننے کے بعد ہوئی۔
امریکہ کے لیےافغانستان میں مشکلات اتنی بڑھیں کہ امریکن دباؤ پر اس وقت
کے صدر پاکستان اور وزیراعظم نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے
کی کوشش کی۔ ناکامی ہوئی تو آئی ایس آئی کے سیکشن " ایس " کو بند کروانے کی
کوشش کی جس کو افغان جہاد کا ذمہ دار قرار دیاجاتا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹس
امریکی دفاعی تجزیہ نگار وبسٹر تھارپلے کے مطابق اس خطے میں امریکن سی آئی
اے اور پاکستانی آئی ایس آئی ایک دوسرے کے خلاف ایک خونریز پراکسی جنگ لڑ
رہی تھیں۔ دہشت گردی کے خلاف انکا اتحاد محض دکھاوا تھا۔
مفرور امریکن سی آئی اے ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈین کے مطابق امریکہ پاکستان کے
صرف نیوکلئر ہتھیاروں کی جاسوسی کے لیے سالانہ تقریبا 23 ارب ڈالر خرچ
کرتا ہے (جوپاک فوج کے کل بجٹ سے 4 گنا زیادہ ہے) لیکن اس کے باوجود وہ ان
ہتھیاروں تک رسائی میں ناکام ہے۔ جسکی وجہ آئی ایس آئی اور پاکستان کےدفاعی
ادارےہیں۔
جنرل احمد شجاع پاشا نے پاکستان کی سب سے اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس
آئی کے سربراہ کے طور پر انتہائی مشکل وقت میں ہر قیمت پر قومی مفادات کا
تحفظ کیا۔ تین سال کا یہ عرصہ پاکستان کےخلاف سازشوں، سازش اور بین
الاقوامی خفیہ منافقتوں کا دور تھا جس سے جنرل احمد شجاع پاشا نے بہادری سے
مقابلہ کیا اور ان بین الاقوامی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ان کو
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر روکا۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف امریکا کا ساتھ
دینے کی غیر مشروط پیش کش کی تھی لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
امریکا اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے نہ صرف پاکستان کےخلاف
معاندانہ کردار ادا کرنا شروع کردیا بلکہ پاکستان کی اعلیٰ انٹیلی جنس
ایجنسی آئی ایس آئی پر بھی بد اعتمادی شروع کردی۔ قومی مفادات پر امریکا
اور پاکستان کے مابین واضح اختلاف تھا۔ اسی وجہ سے امریکی قیادت میں نیٹو
افواج اور خاص طور پر سی آئی اے نے آئی ایس آئی کو ایک دشمن اور بدمعاش
ایجنسی قرار دیدیا اور آئی ایس آئی کے مطالبات کو رد کرتے ہوئے تعاون کرنے
سے انکار کیا۔
جنرل احمد شجاع پاشا نے جرات مندی سے دنیا کی طاقت ور سی آئی اے کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر ان کے پاکستان میں آپریشنز سے متعلق سوالات کئے اور ان
کے مقاصد کے متعلق پوچھا، جنرل پاشا نے پاکستان میں متعدد سی آئی اے کے
جاسوسوں کی موجودگی کا انکشاف کیا جو کہ پاکستان کی سرزمین پر مختلف
سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ جو یہاں پر پاکستان کے احساس علاقوں کی ریکی کر
رہے تھے۔ سی آئی اے نے آئی ایس آئی چیف کے ان مطالبات کا تمسخر اڑایا اور
ان مطالبات کو نہ صرف رد کیا بلکہ ان انکشافات کو سبوتاژ کیا۔
نتیجتاً آئی ایس آئی نے درجنوں امریکن ایجنٹس کو مارنا شروع کیا۔ جن کو
بغیر ویزہ پاکستان میں اسوقت کی سیاسی قیادت نے ڈالروں کے عوض داخل کروایا
تھا۔ اور یہ ایجنٹس پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی ریکی کرنے آئے تھے۔ جن کو
بلوچستان اور کہوٹہ کے آس پاس تصویریں نکالتے ہوئے آئی ایس آئی کے مختلف
تربیت یافتہ سنائپرز نے اپنا شکار بنایا ، تو امریکہ کی چیخیں نکل گئی لیکن
اب امریکہ کھل کر نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ ہمارے خفیہ ایجنٹس کو مارا جا
رہا ہے کیونکہ وہ سب غیر قانونی تھے اور امریکن سی آئی اے کی ناکامی اور
بدنامی کا باعث تھی اس لئے امریکہ نے دنیا میں شور کیا کہ پاکستان میں
ہمارے ٹوریسٹ غائب ہورہے ہیں۔
یہ شجاع پاشا کا دماغ تھا جس نے امریکہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ پھر
شجاع پاشا نے مزید امریکن ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو پکڑوا دیا۔ جس نے پاکستان کی
سرزمین پر امریکا کی آزادانہ اور دیدہ دلیری سے کی جانے والی سرگرمیوں کو
بے نقاب کیا۔ خاص طور پر اس سے پاکستان میں سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز کا
پتہ چلا۔ درحقیقت جنرل احمد شجاع پاشا پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کے
لئے امریکا اور سی آئی اے کے سامنے ایک چٹان کی طرح کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے
پاکستان کی سرزمین پر خفیہ سرگرمیوں میں مصروف سی آئی اے کے جاسوسوں کو
نکالا اور سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز بند کروائے۔
جنرل احمد شجاع پاشا کی اس جرات مندانہ اقدام نے انہیں پاکستان کا قابل فخر
سپوت بنا دیا ہے۔
انہوں نے سی آئی اے کے اس وقت کے چیف لیون پنیٹا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر پاکستانی مفادات کے تحفظ کی بات کی اور کسی بھی لمحے سپر طاقت کی بہترین
خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ جنرل پاشا حقیقی معنوں
میں ایک فوجی ہیں۔ ان کی نظر ہمیشہ اپنی پیشہ وارانہ امور پر رہی جیسے ایک
فوجی ہر معاملے کو صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کے تناظر میں دیکھتا ہے
اسی طرح جنرل پاشا بہت پُرسکون رہ کر بلاخوف و خطر غیر معمولی حالات کے
باوجود اپنے پیشہ وارانہ امور سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان کے مفادات کی
بہترین حفاظت کرنے پر بلاشبہ پوری قوم ان پر فخر کرتی ہے۔ پوری قوم اس بات
سے آگاہ ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہر بات پر اپنے وطن عزیز
کے مفادات کو مقدم رکھتی ہے اور اس کے سربراہ جنرل پاشا نے کمال عقلمندی،
جرات، محب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ملازمت کے دوران اس فرض کو
بخوبی نبھایا۔ یہ جنرل احمد شجاع پاشا ہی تھے جنہوں نے سی آئی اے کے
منافقانہ منصوبوں اور سازشوں کا پتہ چلایا اور اس حقیقت کو تشت ازبام کیا
کہ سی آئی اے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اسی لئے جنرل احمد شجاع
پاشا نے پاکستان میں سی آئی اے کے اہلکاروں کی نقل و حرکت کو نہ صرف محدود
کیا بلکہ ان پر پابندیاں لگائیں۔
اسی طرح انہوں نے بلیک واٹر اور ڈائن کور وغیرہ جیسی بدنام زمانہ امریکی
خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میں سرگرمیوں کو بے نقاب کیا ان کے ایجنٹوں کو
پاکستان سے بیدخل کیا اور سی آئی اے کے جاسوسوں کی سرگرمیوں پر نظررکھتے
ہوئے انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں سے روکا۔ انہوں نے سی آئی اے کی پاکستان
میں کارروائیوں کو روک کر امریکی اہلکاروں کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام
کرنے کی اجازت دی۔ انہوں نے اس بات کی انہیں ہر گز اجازت نہیں دی کہ وہ
بلاروک ٹوک اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، جنرل پاشا نے یہ جرات تمندانہ اقدام
کرکے ثابت کردیا کہ وہ حقیقی محب وطن ہیں اور دنیا کی کسی طاقت کو پاکستان
کے مفادات کے خلاف سرگرمی کی اجازت نہیں دینگے۔
جنرل احمد شجاع پاشا نے اس بات کو یقینی بنایا کہ امریکی، سی آئی اے اور
اقوام متحدہ کے پاکستان میں آنے والے حکام امیگریشن کے طے شدہ ضوابط کے تحت
آئیں۔ اسی طرح انہوں نے پولیس کالج سہالہ میں کہوٹہ نیوکلیئر پلانٹ کے قریب
انتہائی حساس علاقے میں تربیت دینے والے سی آئی اے جاسوسوں کو نکال باہر
کیا اور انہیں واپس امریکا بھجوایا۔ جنرل پاشا نے سی آئی اے اور ایف بی آئی
کے ایجنٹوں کی پاکستان میں داخلے کے وقت مکمل مانیٹرنگ کو یقینی بنایا اور
انہوں نے ایک باقاعدہ سکیورٹی میکنزم قائم کیا جو ان ایجنٹوں کی پاکستان
آمد کو چیک کرتا ہے۔ وہ تمام امریکی جنہیں بلیک لسٹ کیا گیا انہیں دوبارہ
پاکستان میں داخل ہونے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔ جنرل احمد شجاع پاشا نے
امریکی سی آئی اے کے سربراہ کے ساتھ پاکستان میں سی آئی اے کے ایجنٹوں کی
تعداد کے بارے میں کبھی بھی اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے سی آئی اے کے سربراہ
سے کہا کہ پاکستان میں موجود 438 سی آئی اے کے جاسوسوں کی مکمل معلومات دی
جائیں۔ ان کے نام، پتے اور وہ کن امور پر کام کررہے ہیں تمام تفصیلات
مانگیں۔ جنرل احمد شجاع پاشا نے اسی طرح امریکی حکام کو پاکستانی ویزہ جاری
کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض کیا اور پاکستان میں فری لانس ویزہ انٹری پر
چیک لگائے۔ انہوں نے امریکیوں کے لئے ویزہ جاری کرنے کے طریقہ کار کو چیلنج
کیا کیونکہ ویزہ جاری کرنے کا یہ طریقہ کار امریکیوں کو آسانی فراہم کرتا
تھا۔ جنرل احمد شجاع پاشا نے ملاقات کرنے والے اپنے مدمقابل کے ساتھ ہمیشہ
عقلمندی، حاضر جوابی اور ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس وقت کے سی آئی
اے کے سربراہ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا پر واضح کردیا کہ اگر سی آئی اے
آئی ایس آئی پر اعتماد نہیں کرتی تو پھر آئی ایس آئی بھی سی آئی کے ساتھ
تعلقات رکھنے اور تعاون کرنے کی پابند نہیں ہے۔
امریکی لیون پنیٹا آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے ان
ریمارکس پر ششدر رہ گئے۔ انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ ایک ترقی پذیر
ملک کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ اس طرح کا دو ٹوک جواب دے گا لیکن شاید انہیں
معلوم نہیں تھا کہ ان کا واسطہ دنیا کی نمبر ایک انٹیلی جنس ایجنسی ایس آئی
ایس کے بہادر، جرات تمند، ذہین سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ ہے۔ اسی
وجہ سے دونوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور بات چیت میں تلخی آ
گئی جس کے بعد جنرل احمد شجاع پاشا نے اپنا دورہ واشنگٹن مختصر کرکے وطن
واپس آ گئے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ایک باہمت، ذہین اور حالات کو
سمجھنے اور پرکھنے والا سربراہ ہو اور اپنی اس ہمت، ذہانت کو جنرل احمد
شجاع پاشا نے ثابت کردکھایا۔
جنرل احمد شجاع پاشا کی دلیری اور ذہانت امریکا کو بہت کھٹکتی تھی اسی وجہ
سے اس نے بعض ایسے عناصر بھی پیدا کر دیئے تھے جو جنرل احمد شجاع پاشا پر
تنقید کرتے ہیں۔ ان عناصر کا مقصد صرف اور صرف غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل ہے
کیونکہ جنرل احمد شجاع پاشا کے ٹھوس اقدامات امریکا کو ہضم نہیں ہو رہےتھے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بھی جنرل احمد شجاع پاشا پر
بعض عناصر تنقید کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن جنرل احمد شجاع پاشا نے صرف اور صرف
اپنے وطن کے مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے ہر قدم اٹھایا لہٰذا ان عناصر کی
پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکی ایجنٹوں کو نکال باہر کیا اور پاکستان کو دہشت
گردی سے پاک کیا۔
سی آئی اے کی پاکستان میں سرگرمیوں کو روکنا کوئی معمولی بات نہیں لہٰذا ہم
سب جنرل احمد شجاع کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔وہ ہمارے گمنام
ہیرو ہیں۔
پاک فوج زندہ باد
آئی ایس آئی زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
فوجی#ڈانڈا
|