سنہرے دور کے خواب سراب نکلے

میں کئی دن سے مخمصے اور شش و پنج میں مبتلا تھا مگر اب میری اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری ذیادہ تر سیاسی جماعتوں کے قائدین نااہل ہونے کے ساتھ کمال کے خائن اور بد دیانت بھی ہیں، ان کے لئے ملک و قوم گدھوں کی ایک ایسی مفت چراگاہ ہے جہاں سے جتنا کھا سکیں کھا لینا چاہئے ۔ مگر سوال ایک اور بھی ہے کہ اصل مجرم یہ سیاستدان ہیں یا میرے جیسے وہ لوگ جو انہیں اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں یا پھر وہ طاقتور ادارے جن کے نیچے بیٹھ کر یہ لوگ حکومت کرتے ہیں اور جن کی آشیرباد حاصل کئے بغیر یہ لوگ ایک دن بھی حکومت نہیں کرسکتے ؟ ۔ ہلکے یا تیز لیکن مجھے لگتاہے ہمارے ملک پہ حکمرانوں کی صورت میں مسلسل عذاب نازل ہورہے ہیں اور ان میں سب سے بڑا عذاب مشرف تھا پھر زرداری اور نوازشریف اور اب عمران خان ۔

جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے نواز لیگ کا آخری دور حکومت کارکردگی کے لحاظ سے قدرے بہتر تھا مگر آج ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کچھ شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہےکہ میرے جیسے لاکھوں لوگ میاں برادران کے سنہری دور میں بھی اس نام نہاد تبدیلی کو اپنی آخری امید سمجھ بیٹھے تھے ، اور آج اس تبدیلی نے پورے ملک کا ستیاناس کرکے رکھ دیاہے ۔

شائد آج بھی کچھ لوگ موجودہ حکومت کےمتعلق خوش فہمی رکھتے ہوں حالانکہ اب کسی ذی شعور کے لئے ایسا ممکن تو نہیں لگتا ،لیکن کہتے ہیں نا خوش گمانیاں کبھی ختم نہیں ہونی چاہئیں وگرنہ زندگی بڑی پھیکی لگتی ہے ۔

تحریک انصاف حکومت کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ لوگ بڑی جلدی ناکام یا شائد بے نقاب ہوگئے ہیں ، انہوں نے اقتدار میں آکر ہر اس بات سے مکرنا فرض سمجھا جس کا الیکشن سے پہلے انہوں نے وعدہ کیاتھا " ہم بھوکے مر جائیں گے قرض نہیں لیں گے ، پچاس لاکھ گھر بنائیں گے ،ٹیکسزکم کریں گے ، کرپشن اور اقرباء پروری ختم کریں، روزگار کے مواقع پیدا کریں گے ، ملک خوشحال ہوگا، مفت علاج کی بہترین سہولیات مہیا کریں گے ، قانون کی حکمرانی ہوگی ، پولیس کے محکمے میں اصلاحات لائیں گے اور پتہ نہیں کیاکیا"۔

لیکن ہوا کیا ؟ دنیا سے بھیک بھی مانگی اعوام پہ ٹیکسز بھی بڑھائے ، نئے ٹول پلازے بنائے، گھر تو نہیں بنے گھروں والے بے گھر ضرور ہورہے ہیں ، بے روزگاری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مزید تیس لاکھ نوجوان بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے ، چینی اسکینڈل کے ذمہ دار آرام سے لندن فرار ہوچکے ہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات اور عملے کے روئیے کی وجہ سےکوئی جانے کو تیار نہیں، پولیس اور قانون کی تو بات ہی نہ کیجئے، سانحہ ساہیوال کوئی زیادہ پرانا واقعہ تو نہیں ۔

اچھا یہ سب بھی چھوڑ دیجئے صرف پچھلے ایک دو ماہ کا جائزہ لیجئے کیا یہ مایوس کردینے کے لئے کافی نہیں ؟ آٹا ملنا شروع ہوا ہے تو پچھلے تین ہفتوں سے پیٹرول نایاب ہے، ملتا نہیں اگر ملتاہے تو دگنی قیمت پر یا پھر کسی وقت کسی کسی پیٹرول اسٹیشن پر لیکن وہ بھی پوری قیمت میں پوری مقدار سے نہیں ملتا،چینی ستر روپے کلو کرتے ہی مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے ، کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مافیاز ہیں جو ایسا کرتے ہیں، بالکل ٹھیک بات ہے یقینا" ایسا ہی ہوگا مگر ذخیرہ اندوزی میں صرف بڑے مافیاز ہی نہیں بلکہ چھوٹے درجے کے تاجر اور دکاندار بھی ملوث ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پہ ہمارا قومی کردار آج کل یہی ہے اسی وجہ سے تو مسلسل اللہ کے عذاب ہم پر نازل ہورہے ہیں ۔ لیکن یہاں سوال یہ بھی تو اٹھتا ہے کہ معاشرے کے ان ناسوروں کو کون قابو کرے گا ، کون انہیں عبرت کا نشان بنائے گا ، کون انہیں قرار واقعی سزا دےگا ؟ ظاہر ہے یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ بازار اور معاشرے کو توازن پہ قائم رکھے لیکن جب حکومتی کارندے یا ان کے حواری ہی ایسے گھٹیا کاموں میں ملوث ہونگے تو انصاف پھر کون کرے گا؟ فرشتے تو آج کل ان کاموں کے لئے زمین پہ آتے نہیں تو کیا پھر ہمارے سنہرے دور کے خواب ادھورے نکلے ؟ ۔

میں اپنے اداروں کی حب الوطنی پہ شک کرنا گناہ سمجھتا ہوں مگر ان اداروں کو ہمارے معاشرے میں پنپتی نفرت ، بے چینی ، عدم اطمینانی اور مہنگائی کے خوف کی شدید لہر کیوں نظر نہیں آتی یہ سمجھے سے ضرور قاصر ہوں ۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.