کرونا وائرس کی وبا کے باعث زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق
رکھنے والے افراد متاثر ہوئے ہیں مگر معذور افراد کو دیگر طبقات کی نسبت
زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔خاص کر ایسے معذور افراد جن پر خاندان کی ذمہ
داریاں ہیں اور وہ گھر کے کفیل ہیں اورسفید پوشی کے باعث اپنی بھوک اور
ضرورتوں کا ڈھول بجانے سے بھی قاصر ہیں۔معذور افراد میں ایسے لوگ بھی شامل
ہیں جن کے خاندان میں ایک سے زیادہ افراد باہم معذوری ہیں ۔جیسے میاں بیوی
دونوں معذور ہیں ۔ریاست کی جانب سے سفاکانہ نظراندازی کے باعث معذور افراد
کی اکثریت بے روزگار ہے اور جو تھوڑا بہت روزگار کر رہے تھے آج وہ بھی
اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں معذور افراد اپنے شب روز کیسے گزار رہے ہیں
یہ ان کا رب جانتا ہے یا وہ خود جانتے ہیں کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔ستم
بلائے ستم کہ حکومت نے معذور افراد کو مکمل نظر انداز کردیا ہے ۔معذور
افراد کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس پالیسی سامنے آئی
ہے کہ معذور افراد کی بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کیا جائے۔حکومت کا
رویہ ایسے ہے جیسے معذور افراد پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں یا وہ سانس
لیتے زندہ انسان نہ ہوں۔
پاکستان کی کل ٓبادی کا معذور افراد دس فیصد ہیں جس کا حکومت کو قطعی ادراک
نہیں ہے۔حالانکہ دس فیصد آبادی حکومت کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے
مگر حکومت نے کروناسپورٹ فنڈز سمیت وفاقی اور صوبائی بجٹ میں بھی معذور
افراد کو سوفیصد نظر انداز کردیا ہے۔
معذور افراد کمیونٹی میں پایا جانے والا یہ خیال بھی درست ہے کہ معذور
افراد سیاسی طورفعال نہیں ہیں اور کمیونٹی میں اتحاد اور یکجہتی نہیں ہے
۔جس کے باعث معذور افراد ہمیشہ نظر انداز ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ڈس ایبلڈ این جی اوز ہیں جو معذور افراد کے نام پر کاروبار کر
رہی ہیں ۔جو نہیں چاہتی ہیں کہ معذور افراد میں اتحاد اور یکجہتی پیدا ہو۔
معذور افراد کے نام پر بنائی گئی این جی اوز کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں
پروگرام اور سمینارزدیکھ کر ہر معذور فرد نے این جی او بنانے کی مشق شروع
کر رکھی ہے۔جس کے باعث یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کا کوئی
مسلہ نہیں ہے۔
این جی اوز نے ایسا رجحان پیدا کردیا ہے کہ معذور افراد حقیقت کی دنیا سے
نکل کر خوابوں خیالوں میں کھو چکے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمیں پراجیکٹ
،گرانٹ مل جائے گی اور ہم بھی امیر ہو جائیں گے۔یہ بہت المیہ ہے اور خطرناک
رجحان ہے۔اس کی بنیادی وجہ بھی حکومت کی عدم سرپرستی ہے ۔ حکومت سے معذور
افراد کی ناامیدی ہے۔
عمران خان سے معذور افراد کو باقی لوگوں کی طرح کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ
تھیں مگر عمران خان نے معذور افراد کو کچھ زیادہ ہی منہ کے بل دے مارا
ہے۔تحریک انصاف کے منشور میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔کوئی پالیسی نہیں ہے۔حکومت
میںا ٓنے کے بعد معذور افراد کو جو مراعات حاصل تھیں وہ بھی چھین لی گئی
ہیں ۔معذور افراد کے دو فیصد کوٹے سمیت ریل اور بسوں میں کرایے کی رعایت
بھی ختم کردی گئی ہے۔معذور طالب علموں کو تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے
لئے فراہم کردہ ٹرانسپورٹ بھی واپس لے لی گئی ہے۔سابق صدرآصف زرداری کی
معذور افراد پر خصوصی توجہ سے بنائے گئے پروگرام اور شہباز شریف کی جانب سے
دی گئی معذور افراد بحالی سکیم بھی بند کردی گئی ہے۔
کرونا وائرس کی وبا کے دوران معذور افراد کو امید تھی کہ حکومت نادرا کے
اعداد وشمار کے مطابق معذور افراد کو معاضہ دے گی مگر حکومت نے بے نظیر
انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا کے مطابق معاوضہ دیا شاید کسی معذور فرد کو ملا
بھی ہو مگر کوئی خصوصی توجہ نہیں دی گئی ۔
پاکستان سٹیزن پورٹل پر بھی اپیلیں کیں گئی اور خطوط بھی لکھے گئے کہ معذور
افراد خصوصی توجہ کے مستحق ہیں ۔جس طریقے سے حکومت معاوضہ جات دے رہی ہے
معذور افراد کے اگر نام شامل بھی ہیں تو وہ معاوضہ نہیں لے سکتے ہیںمگر
حکومت نے بالکل توجہ نہیں دی ہے۔
معذور افراد کی سیاسی جماعت مساوات پارٹی نے ایک بار پھر کمپین شروع کی ہے
کہ ،،ہمیں بھی الاونس دو،، شوشل میڈیا پر اپیل کی جارہی ہے اور آن لائن
پٹیشن بھی لانچ کی ہے
کمپین کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ حکومت کو یاد دلایا جائے کہ معذور افراد
پاکستان میں بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔انہیں بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے
اور جناب وزیراعظم معذور افراد کو بھی مالی امداد کی ضرورت ہے۔ہمیں امید ہے
کہ حکومت معذور افراد کیلئے جامع اور ٹھوس قومی پالیسی بنائے گی اور معذور
افراد کو بے یارومدد گار نہیں چھوڑا جائے گا کیوں کہ معذورافراد بھی
پاکستانی ہیں اور ان کے پاس بھی دیگر شہریوں کی طرح قومی شناختی کارڈ ہے جس
پر وہ ووٹ بھی ڈالتے ہیں اور اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ |