ایک تصوراتی انتہائی فلاحی معاشر ہ جہاں انسان پرسکون
زندگی گزار سکے ،جو ہر طرح کے جھگڑوں سے پاک اور جہاں انصاف کا صحیح انداز
میں بول بالا ہو یو ٹوپیا کہلاتا ہے۔جب کہ ہمارے جیسا معاشرہ ، جہاں کوئی
محفوظ نہ ہو، جہاں انصاف ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نام ہو، جہاں کی
جمہوریت بھی انسانوں کے لئے آسانیوں کی بجائے مشکلات کا باعث ہو، ڈس ٹوپیا
کہلاتا ہے۔دنیا کا پہلاشخص جس نے یوٹوپیا کا تصور پیش کیا ، وہ یونان کا
مشہور فلسفی افلاطون تھا۔جس کی سب سے اہم اور مشہور کتاب ریپبلک Republic)
(اسی موضوع پر ہے ۔ افلاطون کا عہد 400 سے450 قبل مسیح کا ہے ۔ وہ ایتھنز
کا رہائشی ، سقراط کا شاگرد اور مقدونیا کے ارسطو کا استاد تھا۔وہ سوشلسٹ
نظریے کا علم بردار تھا اس کے پسندیدہ موضوع ا نسان کی اچھائی،حسن، انسانی
مساوات اور معاشرے میں انصاف ہیں۔افلاطون کا عقیدہ تھا کہ خدا پر اعتقاد نہ
ہو تو کوئی قوم مضبوط نہیں ہو سکتی۔ کوئی دوسری قوت انسانوں میں قربانی
کاجذبہ، مستقل کی امید اور عقیدت مندی پیدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی دکھے
ہوئے دلوں کو سکون دے سکتی ہے، یہ صرف خدا ہے جو سب کچھ کر سکتا ہے۔ انسان
جتنا بھی مفاد پرست ہو جائے ، خدا کا خوف اسے اعتدال میں رکھتا اور اس کے
جذبات بے قابو نہیں ہونے دیتا۔
افلاطون نے دو طرح کی کتابیں لکھی ہیں۔ ایک اپنی اکیڈمی کے طلبہ کے لئے جن
کی زبان اصلاحی ہے۔ دوسری وہ کتابیں ہیں جن میں مکالمات اکٹھے کئے گئے ہیں۔
ان مکالمات کے ذریعے افلاطون اپنا پیغام عام پڑھے لکھے لوگوں تک بڑے
خوبصورت اور مسحور کن انداز میں پہنچاتا ہے۔سوفطائی اس دور کے پیشہ ور بحث
کار تھے۔ افلاطون کے استاد سقراط کے ساتھ بحث کے دوران ایک سوفسطائی مشتعل
ہو کر کہتا ہے،’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس، میں کہتا ہوں طاقت صداقت ہے اور
انصاف میں طاقتور کا مفاد چھپا ہوتا ہے۔مختلف قسموں کے جو لوگ حکومت کرتے
ہیں وہ یہ سوچ کر قانون بناتے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ ہو۔اور یہ
قوانین وہ عام آدمی کے گلے منڈھ دیتے ہیں کہ یہ رہا انصاف۔ جو عام آدمی اس
کی خلاف ورزی کرتا ہے اس پر وہ قانون لاگو کرکے اسے سزا دیتے ہیں۔ یہ ارباب
اقتدار اس قانون کی مدد سے لوگوں کو فریب دے کر ان کا سب کچھ ہتھیا لیتے
ہیں اور یہ نا انصافی وسیع پیمانے پر تھوک کے حساب سے ہوتی ہے۔ اس قانون کی
رو سے جو شہریوں سے سب کچھ چھین لیتا ہے ، انہیں غلام بنا لیتا ہے اسے
بجائے فریب کار اور چور کہنے کے معزز اور قانون کا سعادت مند جانا جاتا
ہے‘‘۔
ایک اور مکالمے میں ایک سوفسطائی کہتا ہے،’’اخلاق کو بھاڑ میں جھونکو۔ یہ
چیز تو کمزوروں نے طاقت والوں کی طاقت کو کم کرنے کے لئے وضع کی ہوئی ہے۔یہ
لوگ کہتے ہیں بد دیانتی شرمناک ہے اور نا انصافی پر مبنی ہے۔ مگر ان میں سے
کوئی شخص طاقت حاصل کر لے تو وہ ایک جھر جھری لے کر سب زنجیریں توڑ ڈالے
گا۔ وہ سب ٹونوں، ٹوٹکوں، منتروں اور قوانین کو پاؤں تلے روند دے گا کہ
خلاف فطرت ہیں۔ جو شخص چاہتا ہے کہ صحیح معنوں میں زندہ رہے اس کے لئے
ضروری ہے کہ اپنی تمناؤں اور آرزوؤں کو پھلنے پھولنے دے۔ وہ جری اور بہادر
انداز میں اپنی خواہشیں پوری کرے ۔ میں کہتا ہوں فطری انصاف اور شرافت یہی
ہے۔جو لوگ ایسا نہیں کر سکتے وہ جان کر ان جری انسانوں کو ملزم گردانتے
ہیں۔ اصل میں انہیں اپنی نالائقی اور بے طاقتی پر ندامت محسوس ہوتی ہے جسے
وہ چھپانا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ بے اعتدالی کو برا جانتے ہیں‘‘۔
افلاطون اس بات کا بھی شاکی ہے کہ معمولی معاملات میں تو ہم تربیت یافتہ
افراد کے طالب ہوتے ہیں۔جیسے جوتا بنوانا ہو تو اس کے ماہر کے پاس جاتے
ہیں۔ بیمار ہوں تو تربیت یافتہ طبیب کے پاس جاتے ہیں جس کی علمی سند اس بات
کی ضمانت ہوتی ہے کہ وہ مناسب علمی اور فنی استعداد رکھتا ہے ۔ یہ نہیں
ہوتا کہ ہم اپنے تیمار داروں کو کہیں کہ کوئی طبیب لاؤ جو خوبصورت ہو ،
حسین ہو یا بلا کا مقرر ہو۔ لیکن عجیب بات کہ جب کسی شہر یا مملکت کے نظم
ونسق کا تعلق ہوتا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں جسے ووٹ لینے کا فن آتا ہے وہ حکومت
کے فن سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے، وہ قابل انتخاب ہے۔غور کرنے کی ضرورت
ہے کہ جب پوری مملکت بیمار ہو تو ایسے طبیب کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے
کہ سب سے اچھا اور دانا ہو۔ لیکن سیاسی فلسفے کو یہ مشکل درپیش ہے کہ وہ
کونسا طریقہ دریافت کیا جائے کہ نا اہل اور بد معاش لوگ منتخب نہ ہو سکیں
اور جو لوگ واقعی حکمرانی کے اہل ہیں انہیں کا انتخاب ہو سکے۔
افلاطون کے دور میں اس وقت ایتھنز کی آبادی چار لاکھ تھی جن میں ڈھائی لاکھ
غلام تھے جن کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ ہماری آبادی بائیس کروڑ ہے مگر عملاً
ساڑھے اکیس کروڑ سے زیادہ غلام ہی ہیں کیونکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ لگتا
ہے 400 قبل مسیح کے یونان کے حالات بھی موجودہ پاکستان جیسے تھے۔ انصاف اور
قانون ہو یا حکمران لوگ ، کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اس سارے مکالمے کا
بیانیہ ہمارے موجودہ حالات کا عکاس ہے۔ وہ آدمی جو بااثر ہے قانون اس کے
لئے خود گنجائش پیدا کرتا ہے اور عام آدمی اس کے شکنجے سے بچ نہیں پاتا۔
قانون کے محافظوں کی بات کریں تو ان کی سیاہ کاریوں اور جبر سے لوگ ڈرتے
ہیں اور انصاف کے علم بردا ر کہتے تو یہی ہیں کہ وہ اﷲ کو جواب دہ ہیں مگر
ہر شخص کو اپنے بارے سچ کہنے سے روکتے ہیں کہ توہین کا نعرہ ان کا محافظ
ہے۔ آج ایک خبر دیکھ رہا تھا کہ پولیس نے ایک دولہا اور دلہن کو ولیمے کا
اہتمام کرتے گرفتار کر لیا۔ عام لوگ تھے، سزا کے حقدار ہیں۔ تین دن پہلے
میرے گھر اور سفاری پارک رائے ونڈ روڈکے قریب ایک فارم ہاؤس پر کوئی بڑی
تقریب تھی۔ پروٹوکول ڈیوٹی پر ٹریفک پولیس بھی تھی اور رائے ونڈ تھانے کی
مقامی پولیس بھی۔ انہیں تو کسی نے نہیں پوچھا۔اشرافیہ سے تعلق ہو گا۔ یہ
منافقت ، یہ طبقاتی تقسیم ، یہ بد دیانتی تو ہمارے معاشرے کا وہ خاصہ ہے جو
ناقابل علاج ہے۔ شاید یہی منافقت ہماری جمہوریت کا حسن ہے ۔ |