امریکہ نے چین اور بھارت کے درمیان جنگی ماحول میں
جنوبی چین کے سمندر میں اپنے تین بحری جہاز لنگر انداز کر دیئے ہیں۔جب کہ
بھارت ، روس سے ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم، سو۔30، مگ۔29اور فرانس سے رافیل
جنگی طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کررہا ہے۔مگر افغانستان میں جدید اسلحہ
اور جنگی ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ سمیت دنیا کے 50سے زیادہ طاقتور ترین
ممالک اور ان کی فوج کو بدترین شکست نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ
جنگیں محض طاقت ، تعداد اور ٹیکنالوجی کیگھمنڈ میں لڑی یا جیتی نہیں جاتیں۔
مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارت کے زیر قبضہ لداخ میں بھارت اور چین
کے درمیان سرحدی تصادم میں کرنل سمیت 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق
ان اطلاعات کے درمیان کی گئی کہ چین کی فوج نے اس سے کئی گنا زیادہ بھارتی
فوجی ہلاک اور درجنوں گرفتار کر لئے۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد سے
لداخ بارڈر پر یہ پہلی انتہائی پُرتشددجھڑپیں ہیں۔اگر چہ بھارت کی جانب سے
سی پیک کی مخالفت اور مقبوضہ ریاست کو دہلی کے زیر انتظام دو علاقوں میں
ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چین کے لئے ناقابل قبول تھا مگر اس سے بھی زیادہ
بھارت کی جانب سے چین کے بڑے رقبے پر قبضہ دہلی کے توسیع پسندانہ عزائم کو
سامنے لے آیا ہے۔یہ چین کے لئے پیغام تھا۔ بھارت نہ صرف پاکستان اور چین کے
ساتھ محاذ آرائی کر رہا ہے بلکہ وہ نیپال اور پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ
کر رہا ہے۔ کشمیریوں پر جارحیت اور گولہ باری ، فائرنگ اور قتل عام اعلان
جنگ ہی نہیں بلکہ یہ ریاستی دہشتگردی نما باقاعدہ جنگ ہے جو بھارت نے گزشتہ
کئی برسوں سے جاری رکھی ہو ئی ہے۔
پاکستان اس جنگی جارحیت کے ردعمل میں بات چیت پر زور دیتا رہا ہے ۔ مذاکرات
بہترین سفارتی اور سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتے ہیں مگر بھارت کا جنگی
جنون بات چیت سے ختم نہیں ہو سکا ہے۔ دہلی کی ماضی کی منصوبہ بندیوں پر
گہری نگاہ رکھنے والے تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کی عسکری اور معاشی قوت کی
تباہی کے بغیر وہ نتیجہ خیز بات چیت پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔ اب جب کہ
کمیونسٹ بلاک بھی منتشر ہے تو امریکہ اور دیگر ممالک کی سرپرستی اور عربوں
کی مرعوبیت نے بھارت کو سرکش ریاست کے گڑھے میں ڈال دیا ہے۔ لیکن چین نے
پہلی ہی وار میں دہلی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ 1962کے برعکس آج شاید
پاکستان موقع کو غنیمتسمجھنے کی حساسیت جان لے۔ جب کہ اس کے ازالہ کا یہی
وقت ہے۔
اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا لداخ بھی کرگل بن سکتا ہے۔ مبصرین کا خیال
ہے کہ لداخ کی گلوان وادی میں حالیہ کشیدگی کو سمجھنے کے لیے اس کی
اسٹریٹیجک اہمیت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ گلوان وادی کا نام اس میں بہنے والے
دریا کے نام پر ہے۔ یہ دریا برطانوی دور میں اس علاقے کا کھوج لگانے والے
لیہہ کے رہائشی غلام رسول گلوان سے منسوب ہے۔دریائے گلوان اقصائے چین سے
بہتے ہوئے 80کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے دریائے شیوک کے ساتھ مل جاتا ہے۔
دریائے شیوک بعد ازاں اسکردو کے قریب دریائے سند ھ میں آ گرتا ہے۔ بھارت
اور چین کے درمیان اب تک متنازع سرحد لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)
پر واقع یہ گلوان وادی اقصائے چین کے پاس واقع ہے اور دریا بھی اقصائے چین
سے نکلتا ہے۔ اقصائے چین کا علاقہ چین کے کنٹرول میں ہے اور 60 کی دہائی
میں پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی معاہدے میں پاکستان نے اقصائے چین سے
ملحق ایک حصہ چین کو دے دیا تھا۔ اس کے بالکل ساتھ سیاچن گلیشیئر ہے جس پر
پاکستان اور بھارت دونوں کا دعویٰ ہے لیکن سیاچن گلیشیئر پر اس وقت بھارت
قابض ہے۔اسے غیر فوجی علاقہ قرار نہیں دیا جا سکا۔ بھارت کے زیرِ قبضہ لداخ
کا علاقہ 59 ہزار 146 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اقصائے چین کا رقبہ 37 ہزار
550 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ پاکستان نے سیاچن گلیشیئر سے ملحق 5 ہزار 180
مربع کلومیٹر کا علاقہ سرحدوں کے تعین کے وقت چین کے حوالے کیا تھا۔لداخ کے
شمال میں سیاچن گلیشیئر بھارت نے 80 کی دہائی میں قبضے میں لیا۔ سیاچن
گلیشیئر پر بھارتی قبضہ چین اور پاکستان کو الگ کرتا ہے۔اگر سیاچن کو
پاکستان واپس حاصل کر لیتا ہے اور اسے بھارت سے آزاد کرا لیتا ہے تو نوبرا
وادی اور لداخ کی آزادی مزید آسان ہو جائے گی۔ کرگل ایک اور اہم علاقہ ہے
جس پر پاکستان بھارت میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ کرگل لیہہ ہائی وے پر اگر
پاکستان توجہ دیتا ہے اور کبھی قبضہ کرتا ہے تو بھی لداخ بھارت کے ہاتھ سے
نکل سکتا ہے۔ کرگل کی طرف سے کوئی بھی ایڈونچر سیاچن کی نسبت آسان ہے۔مگر
بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ منالی شاہراہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس
نے کرگل جنگ کے بعد دفاعی اعتبار سے کئی کمزور یوں کو دور کیا ہے۔ دریائے
گلوان کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین 1956ء تک گلوان دریا پر حق
نہیں جتاتا تھا اور چین کا دعویٰ اقصائے چین میں واقع لائن پر دریا کے
دوسرے کنارے پر تھا لیکن 1962ء میں چین نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنگ بندی
معاہدے کے بعد دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئی تھیں اور گلوان وادی خالی پڑی تھی۔
دونوں ملکوں نے جنگ بندی کے بعد نقشوں کا تبادلہ نہیں کیا تھا اور علاقے کے
بارے میں تمام سمجھوتے مقامی فوجی کمانڈرز کی حد تک تھے۔
کرگل جنگ کے بعد بھارت نے لداخ میں اپنی فوجوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ
کیا۔ کئی فوجی ہیڈ کوارٹرز قائم کئے۔ مقبوضہ ریاست بھارتی فوج کی ناردرن
کمانڈ کے کنٹرول میں ہے۔یہاں تک کہ 14ویں کور فوج بھی لداخ میں مورچہ زن کر
دی۔ اس سے پہلے مقبوضہ ریاست میں بھارت کی دو کور فوج یعنی 15ویں کور
سرینگر میں اور 16ویں کور جموں میں موچہ زن تھی۔ علاوہ ازیں بھارت نے
راشٹریہ رائفلز کے نام سے بھی ایک کور سے بھی زیادہ فوج مقبوضہ ریاست میں
داخل کر دی ۔ نیم فوجی دستوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ گلوان وادی کا
علاقہ بھارتی فوج کی طرف سے سب سیکٹر نارتھ کہلائے جانے والے علاقے میں آتا
ہے اور سیاچن گلیشیئر کے مشرق میں واقع ہے، یعنی گلوان وادی ہی اقصائے چین
تک رسائی کا واحد راستہ ہے۔جاری۔
|