دریائے گلوان کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین 1956ء
تک گلوان دریا پر حق نہیں جتاتا تھا اور چین کا دعویٰ اقصائے چین میں واقع
لائن پر دریا کے دوسرے کنارے پر تھا لیکن 1962ء میں چین نے اس پر قبضہ
کرلیا تھا۔ جنگ بندی معاہدے کے بعد دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئی تھیں اور
گلوان وادی خالی پڑی تھی۔ دونوں ملکوں نے جنگ بندی کے بعد نقشوں کا تبادلہ
نہیں کیا تھا اور علاقے کے بارے میں تمام سمجھوتے مقامی فوجی کمانڈرز کی حد
تک تھے۔
کرگل جنگ کے بعد بھارت نے لداخ میں اپنی فوجوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ
کیا۔ کئی فوجی ہیڈ کوارٹرز قائم کئے۔ مقبوضہ ریاست بھارتی فوج کی ناردرن
کمانڈ کے کنٹرول میں ہے۔یہاں تک کہ 14ویں کور فوج بھی لداخ میں مورچہ زن کر
دی۔ اس سے پہلے مقبوضہ ریاست میں بھارت کی دو کور فوج یعنی 15ویں کور
سرینگر میں اور 16ویں کور جموں میں موچہ زن تھی۔ علاوہ ازیں بھارت نے
راشٹریہ رائفلز کے نام سے بھی ایک کور سے بھی زیادہ فوج مقبوضہ ریاست میں
داخل کر دی ۔ نیم فوجی دستوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ گلوان وادی کا
علاقہ بھارتی فوج کی طرف سے سب سیکٹر نارتھ کہلائے جانے والے علاقے میں آتا
ہے اور سیاچن گلیشیئر کے مشرق میں واقع ہے، یعنی گلوان وادی ہی اقصائے چین
تک رسائی کا واحد راستہ ہے۔گلوان وادی میں کشیدگی یہاں بھارت کی طرف سے سڑک
کی تعمیر پر شروع ہوئی۔بھارت آزاد کشمیر کے ساتھ لگنے والی جنگ بندی الائن
پر بھی نئی سڑکیں اور مورچے تعمیر کر چکا ہے۔تا ہم لداخ میں گلوان نالہ پر
بھارت نے ایک پل بھی بنایا جس پر چین کو تشویش ہوئی۔ یہ پل دریائے شیوک اور
دولت بیگ اولڈی کے درمیان بنائی گئی سڑک کا حصہ ہے۔ اس سڑک کا افتتاح پچھلے
سال بھارتی وزیرِ دفاع نے کیا تھا۔بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ پل ایل اے سی سے
ساڑھے سات کلومیٹر اندر اس کے اپنے علاقے میں ہے۔ چین کو تشویش ہے کہ بھارت
علاقے میں سڑکیں اور پل بناکر اقصائے چین پر حملے یا کسی ایڈونچر کے لیے
فوجی نقل و حرکت کو تیز تر اور آسان بنا رہا ہے۔بھارت گلگت بلتستان اور
آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔ اقصائے چین 1962ء سے چین کے
مکمل کنٹرول میں ہے۔ اقصائے چین کا علاقہ تبت اور سنکیانگ کو ملانے کے لیے
اہم ہے اور چین نے یہاں ہائی وے بنا رکھی ہے۔ چین کو شبہ ہے کہ بھارت 1950ء
کے اسٹیٹس کو بحال کرنے کے لیے مستقبل میں کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے اور
نیشنل ہائی وے اور اقصائے چین پر قبضے کی کوشش کرسکتا ہے۔ بھارت اس وقت
امریکا کا اتحادی ہے، جبکہ تبت کے دلائی لامہ بھارت میں خود ساختہ جلاوطنی
اختیار کیے ہوئے ہیں۔کیوں کہ بھارت جارحیت پر یقین رکھتا ہے ۔ اس کے توسیع
پسندانہ عزائم ہیں۔گو کہ گلوان وادی میں چین کی حالیہ سرگرمیوں کو بھارت
ایک اور کارگل کی طرح دیکھ رہا ہو گا لیکن اس بار بھارت کے سامنے پاکستان
نہیں بلکہ چین ہے۔ چین نے دریائے گلوان اور پینگانگ جھیل کے گرد مضبوط حصار
بنا لیا ہے۔ گلوان وادی میں بھارتی کنٹرول کے علاقے میں چین 3 کلومیٹر اندر
تک گھس چکا ہے۔اس نے ہیلی پیڈ بھی تعمیر کر لئے ہیں۔ کرگل جنگ کے دوران
پاکستان نے سرینگر۔زوجیلا اور کارگل۔لیہہ ہائی وے کو شمال کی جانب سے لداخ
سے کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ہو سکتا ہے کہ دریائے سورو کے آر پار پاکستان قبضہ
جما لیتا جو کہ بھارت کے لئے تباہ کن ہو سکتا تھا مگر امریکہ کے دباؤ پر
پاکستان کا پیچھے ہٹ جانا بھارت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا۔ اب چین گلوان
وادی میں دریا کے دونوں اطراف اونچی چوٹیوں پر بیٹھا ہے اور داربک، شیوک،
دولت بیگ اولڈی ہائی وے کے عین اوپر چین کی چوکیاں بن چکی ہیں، جس کے بعد
بھارتی فوج کو سب سیکٹر نارتھ سے جوڑنے والی یہ سڑک اب خطرے میں پڑ چکی ہے
اور یہ سیکٹر چین کے رحم و کرم پر آچکا ہے۔اگر پاکستان بھی کرگل جنگ کی
منصوبہ بندی کو پھر سے زیر غور لاتا ہے تو بھارت پاک چین کے درمیان پھنس
سکتا ہے۔ چین کی فوج دریائے گلوان اور دریائے شیوک کے ملاپ کے مقام پر پہنچ
چکی ہے اور یہ مقام اس سڑک سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر کی دُوری پر ہے۔ یہ سڑک
شیوک دریا کے ساتھ چلتی ہے اور چین کی فوج اونچائی سے اس سڑک کو آرٹلری اور
میزائلوں کی مدد سے نشانہ بنانے کی پوزیشن میں ہے۔اگر چین اس سڑک پر مستقل
قبضے یا اس پر مسلسل دباؤ کا ارادہ رکھتا ہے۔اور اگر چینی فوج کے انجینئر
علاقے کو چین کی حدود میں بنی سڑکوں سے جوڑنے میں مصروف ہو گئے اور چین کی
فوج علاقے میں کنکریٹ کے بنکر بنانے لگی تو بھارت کے لئے کافی مشکل ہو گی۔
بھارت کا دعوٰی یہ ہے کہ یہ بنکرز ایل اے سی پر اس کی حدود کے اندر بنائے
جا رہے ہیں۔پہاڑ، جھیل اور دریاؤں کی وجہ سے ایل اے سی اس علاقے میں
باضابطہ طے شدہ نہیں اور موسمی حالات کے تحت یہ حدود گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔
بھارت کے سابق جرنیلوں کا خیال ہے کہ چین 60 مربع کلومیٹر کے رقبے پر قبضہ
جما چکا ہے۔ چین نے پینگانگ جھیل اور گلوان دریا کے شمالی کنارے پر رقبے پر
قبضہ جمایا ہے، جس سے بھارتی فوج کی کئی پیٹرولنگ پوسٹوں تک رسائی بند
ہوگئی ہے۔ بند ہونے والی پیٹرولنگ پوسٹوں میں 14، 16، 18 اور 19 شامل
ہیں۔لداخ میں چین کے ہزاروں فوجیوں کے مقابلے میں بھارتی فوج کی تعداد کم
ہے اس لیے وہ بھارتی جرنیلوں کو سوتے میں دبوچنے میں کامیاب ہوگیا۔ بھارت
عام طور پر سال کے ان دنوں میں اودھم پور کی شمالی کمانڈ سے دستے فارمیشن
ایریا میں بھجواتا تھا لیکن اس سال کورونا وائرس کے ڈر سے دستوں کی نقل و
حرکت روک دی گئی اور چین نے بھارتیوں کو گلے سے دبوچ لیا۔ نئی دہلی میں
بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹرز میں اب اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہو گا کہ
شمالی کمانڈ نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔جنگیں حکمت عملی سے لڑی اور جیتی جاتی
ہیں۔ پاکستان کے لئے اس میں سیکھنے کے اسباق موجود ہیں۔ گو کہ بھارتی فوج
کے ساتھ کرگل میں بھی یہی کچھ ہوا تھا اور انٹیلی جنس ناکامی کو اس کا ذمہ
دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن کرگل کے بعد کسی بھی بھارتی جنرل کو براہِ راست
الزام دے کر کارروائی نہیں کی گئی تھی۔بھارت کے سابق فوجی عہدیداروں کا
کہنا ہے کہ لداخ میں انٹیلی جنس کے ساتھ آپریشنل ناکامی بھی ان حالات کی
وجہ بنی۔ بھارت کے ان سابق فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جب ہم نے 225
کلومیٹر سڑک بنائی تو ہماری فوج نے شیوک دریا کے ساتھ اس سڑک کی حفاظت کے
لیے دستے کیوں تعینات نہیں کیے؟ اس سے پہلے دولت بیگ اولڈی میں 2013ء میں
جب بھارت نے لینڈنگ گراؤنڈ تیار کیا تھا تو چین نے وہاں بھی مداخلت کی تھی،
لیکن اس کے باوجود بھارتی فوج اس بار چوکنا نہ ہوئی۔ بھارتی فوج کی ناکامی
اپنی جگہ، لیکن بھارت کی سیاسی قیادت بھی اب تک اس معاملے کی نزاکت کو پوری
طرح تسلیم نہیں کر رہی۔حالیہ جھڑپ کے بعد فوجی و سفارتی سطح پر رابطے جاری
ہیں لیکن پیپلز لبریشن آرمی ان مذاکرات کے باوجود سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے
ہے۔ گلوان اور شیوک دریاؤں کے درمیان دیسپانگ کے میدانی علاقے میں چین کی
فوج نے 2 سڑکوں کی تعمیر شروع کردی ہے اور بھارت ان سڑکوں کی تعمیر کو اپنی
حدود میں مداخلت تصور کرتا ہے۔پینگانگ سو سیکٹر میں چین کے فوجیوں نے فنگر
فور کا علاقہ بھی قبضے میں لے لیا ہے جو فنگر ایٹ تک بھارتی دعویداری والے
علاقے میں 8 کلومیٹر پر محیط ہے۔ گلوان دریا کے سیکٹر میں چین کی فوج نہ
صرف پیٹرولنگ پوسٹ 15 سے 17 تک علاقے پر قبضہ کر چکی ہے بلکہ گلوان دریا کے
دونوں اطراف پہاڑی چوٹیوں پر بھی اس کا قبضہ ہے۔گلوان دریا کے شمال میں چین
کی فوج دیپسانگ میں داخل ہوچکی ہے اور یہاں چینی فوج نے پیٹرولنگ پوسٹ 12
سے 13 تک قبضہ کرلیا ہے۔ اترکھنڈ کے ہرسل سیکٹر میں بھی چین نے فوج کی
تعداد بڑھا دی ہے۔ چین نے ایل اے سی پر اپریل کے آخر میں بڑی نقل و حرکت
شروع کی اور انٹیلی جنس اطلاعات بھی ملیں لیکن بھارتی جرنیلوں کو چین کی
پیش قدمی روکنے کے لیے اقدامات کی جرات ہی نہ ہوئی۔چین نے اس پیش قدمی کے
بعد گلوان کو ہمیشہ سے اپنی خودمختاری اور کنٹرول کا علاقہ قرار دیا ہے۔
چین نے حال ہی میں قبضے میں لیے گئے علاقوں میں بنکرز بنانے کے ساتھ ایل اے
سی پر اپنی حدود میں آرٹلری گنز نصب کردی ہیں جو پیش قدمی کرنے والے دستوں
کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ چینی فوج کی یہ پیش قدمی صرف لداخ تک محدود نہیں بلکہ
2 ہزار کلومیٹر سرحدی علاقے میں چین کی فوجوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
اس طرح اسے مقامی کمانڈرز کی حد تک اشتعال انگیزی کے واقعات بھی نہیں کہا
جاسکتا۔کئی ویڈیو ز میں بھی فوج کی پیش قدمی اور توپوں کی تنصیب کا پتہ
چلتا ہے۔ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے 2 دن کا چپ کا روزہ توڑتے ہوئے
کہا کہ بھارت امن چاہتا ہے لیکن اگر اشتعال دلایا گیا تو بھارت مناسب جواب
دے گا، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ لداخ کی حفاظت پر مامور بھارتی انفینٹری
ڈویژن کے میجر جنرل ابھیجیت چین کے ہم منصب کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے لیے
مذاکرات کر تے رہے اور چین کی عسکری قیادت مذاکرات کے دوران قبضے میں لیے
گئے 60 مربع کلومیٹر علاقے میں پوزیشن مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گئی جس سے
صاف ظاہر ہے کہ چین اس علاقے سے واپسی کا ارادہ نہیں رکھتا۔سب سے دلچسپ بات
یہ ہے کہ بھارتی میجر جنرل ابھیجیت نے چین کے ہم منصب کے ساتھ یہ مذاکرات
بھارتی دعویداری کے علاقے کے 3 کلومیٹر اندر کیے اور اب پینگانگ سو میں چین
کے فوجی جھیل میں موٹربوٹس پر گشت کر رہے ہیں۔
بھارت کو دباؤ میں لانے کے لیے چین نے عام طور پر پُرامن رہنے والے ہماچل
پردیش اور اترکھنڈ بارڈر پر بھی فوجی نقل و حرکت بڑھانا شروع کردی ، جبکہ
گشت میں بھی اضافہ کردیا گیا ۔پینگانگ سو سے 200 کلومیٹر دُوری پر واقع
ایئرپورٹ پر بھی چین فوجی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنا رہا ہے۔ 14 ہزار فٹ کی
بلندی پر واقع یہ ایئرپورٹ تبت میں واقع 4 ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔ 2017ء
میں ڈوکلام میں جھڑپ کے بعد سے چین اس ایئرپورٹ پر جنگی طیارے تعینات کرچکا
ہے۔ چین نے تبت کے علاقے میں کی گئی بڑی فوجی مشقوں کی ویڈیو بھی جاری کی
ہے جس میں جنگی طیاروں، راکٹ فورسز، ایئر ڈیفنس ریڈارز، جیمرز سمیت ہر شعبے
نے حصہ لیا، یہ بھی چین کی طرف سے ایک پیغام ہے۔ بھارتی میڈیا میں یہ
رپورٹس شائع کیگئیں کہ بھارت ایل اے سی پر فوجی ایس او پیز تبدیل کرنے پر
غور کر رہا ہے۔ روایتی طور پر دونوں اطراف کی فوجیں بغیر اسلحہ گشت کرتی
ہیں لیکن اب بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ 20 فوجیوں کی ہلاکت
کے بعد اسلحہ کے بغیر گشت کی روایت ختم کردی جائے گی۔ اگر بھارت اس روایت
کو ترک کرتا ہے تو ایل اے سی پر پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے جو کسی
بھی وقت بڑے تصادم کو جنم دے سکتا ہے۔شاید کرگل جنگ کے بعد اس خطے میں بڑا
تصادم ہو۔ یہ خطہ دنیا کا بلند ترین میدان جنگ بن سکتا ہے۔کشمیری عوام پر
جنگ مسلط کی گئی ہے۔ کشمیر سے بھارتی فوج لداخ کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔
پاکستان کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ بھارت بات چیت نہیں بلکہ طاقت اور توپ
میزائل کی زبان سمجھتا ہے۔ اس لئے اسلام آباد کے لئے بیجنگ کے ساتھ مل کر
حکمت عملی تشکیل دینے کا مناسب وقت آن پہنچا ہے۔
|