اردو اور پنجابی کی ممتاز افسانہ نگار ہ فرخندہ لودھی کی یاد میں

فرخندہ لودھی کا شما ر برصغیر پاک و ہند کے صف اول کے افسانہ نگاروں، ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔ان کا پیدائشی نام فرخندہ اختر تھا۔وہ 21 مارچ 1937ء کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئیں ۔فرخندہ بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھیں ۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہوشیارپور سے ہجرت کرکے ساہیوال میں آبسا جہاں فرخندہ کے بھائی پولیس میں ملازم تھے ۔فرخندہ نے 1951ء میں مڈل اوربعد ازاں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کرلیا ۔اردو ادب کی جانب ان کا رجحان فطری تھا ۔ایف اے کا امتحان 1957ء میں پاس کیا۔ بی اے تک پہنچتے پہنچتے فرخندہ کو دو عظیم صدموں سے گزرنا پڑا ۔پہلے والد کا انتقال ہوا تو پھر ماں بھی اﷲ کو پیاری ہو گئی ۔ فرخندہ نے لائبریری سائنس کا ڈپلومہ لے کر لائبریرین بننے کا فیصلہ کرلیا ۔ فرخندہ کے امتحان کا نتیجہ آنے سے پہلے انہیں 1958ء میں کوئین میری کالج لاہور میں بطور لائبریرین چودھویں سکیل میں ملازمت مل گئی ۔جس کی بنیادی تنخواہ اس وقت 170 روپے ماہوارتھی ۔ 1963ء میں ایم اے ارود اور1974ء میں ایم اے لائبریری سائنس کے امتحان بھی کامیابی حاصل کی۔ بعدازاں فرخندہ لودھی نے گورنمنٹ کالج لاہور کو بطور لائبریرین جائن کرلیا۔فرخندہ لودھی60 سال کی عمر پر پہنچنے پر ریٹائر ہوئیں ۔فرخندہ کی شادی پروفیسر صابر لودھی کے ساتھ 15اگست 1961ء میں نہایت سادگی سے انجام پائی ۔اس کے ساتھ ہی فرخندہ اختر ، فرخندہ لودھی کہلانے لگیں ۔ کہانی تخلیق کرنے کی صلاحیت فرخندہ لودھی کو اﷲ کی طرف سے ودیعت ہو ئی۔ فرخندہ نے ایک افسانہ " شکستہ شاخ "کے عنوان سے 1953ء میں لکھا۔ بعد ازاں پریم چند،سعادت حسن منٹو،راجندرسنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے افسانوں کے مطالعے نے افسانہ لکھنے کے شوق کو مزید جلا بخشی۔بہرکیف فرخندہ لودھی کی ادبی زندگی میں 1966ء کا سال بہت اہم ہے اس سال جنوری کے شمارے میں ڈاکٹر وزیرآغا کا نیا رسالہ "اوراق" منصۂ شہود پر آیا تو اس میں فرخندہ لودھی کا ایک افسانہ "پاربتی"بھی شامل تھا ۔ اس وقت تک وہ غیر معروف تھیں لیکن "پاربتی "کی اشاعت نے پوری ادبی دنیا کو ان کی طرف متوجہ کر دیا۔"پاربتی "کی اشاعت نے فرخندہ لودھی کو جو شہرت عطا کی وہ دیدنی تھی وہ اس ایک افسانے سے ہی فن کی بلندیوں پر پہنچ گئیں اور اول درجے کے افسانہ نگاروں کی صف میں نمایاں مقام پر نظر آنے لگیں ۔فرخندہ لودھی کے افسانوں کی پہلی کتاب "شہر کے لوگ" شائع ہوئی تو اس کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیرآغا نے لکھا ۔اس کتا ب میں 1965ء سے 1968ء تک کے افسانے تاریخ وار شامل ہیں ۔اب تک فرخندہ لودھی کے افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں "شہرکے لوگ"،"آرسی"،"خوابوں کے کھیت"،" رومان کی موت"،"جب کٹورا بجا" چھپ چکے ہیں ۔ایک ناول "حسرتِ عرض تمنا" کے نام سے شائع ہوچکاہے۔فرخندہ لودھی نے بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ "پیارکا پنچھی"بھی لکھا ۔ اس مجموعے میں شامل کہانیاں بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے تخلیق کی گئیں۔

فرخندہ لودھی کے فن کا ایک اور زاویہ ان کی ترجمہ نگاری ہے ،انہوں نے دنیا کے بڑے بڑے تخلیق کاروں کے ناول /افسانے اردو میں منتقل کرنے کی بجائے بچوں کے ادب کو ترجیح دی اور چین،ناروے ،ترکی، انگلستان اور شمالی افریقہ کے مصنفین کا انتخاب کیا اور ان کی کہانیوں کے متعدد مجموعے اردو میں پیش کردیئے۔ان میں ایک ناولٹ "Call of the wild " بھی شامل ہے ۔جس کا مصنف جیک لنڈن ہے ۔فرخندہ نے اس کا ترجمہ "ویرانے کی صدا " کے عنوان سے کیا۔اس پر نظرثانی ڈاکٹر سہیل احمد خان نے کی تھی۔اس میں شک نہیں کہ فرخندہ لودھی اردو کی ایک ممتاز افسانہ نگار ہ ہیں تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اپنی ماں بولی "پنجابی"کو بھی اپنی تخلیق کاری میں پوری پوری اہمیت دی ۔ان کی یہ کہانیاں اردو مصنفین کے طبقے میں بھی شوق سے پڑھی گئیں اور بہت جلد انہیں جدید پنجابی افسانہ لکھنے والے ادیبوں میں اعلی مقام مل گیا۔1984ء میں ان کے پنجابی افسانوں کا پہلا مجموعہ "چنے دے اوہلے" چھپا تو اسے ایوارڈ دیا گیا۔دوسرا مجموعہ"ہردے وچ تریڑاں " دسمبر 1995ء اور تیسرا مجموعہ "کیوں" 2006ء میں شائع ہوا۔2002ء میں انہیں "ورلڈ پنجابی ادبی کانگریس ایوارڈ " سے نوازا گیا۔1969ء میں انہوں نے ریڈیو پاکستان کے مشہور پروگرام "پنجابی دربار " کے لیے کہانیاں لکھیں اورخود ہی سنا کر نشر بھی کیں۔انہوں نے ریڈیو کے دو ڈرامے " دو جی آواز" اور "گمنام ستارے" لکھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے فرخندہ لودھی کی اردو اور پنجابی ادب کے فروغ کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان کیا گیا جو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں وصول کیا۔مختلف ادبی کانفرنسوں کے سلسلے میں انہوں نے بطور خا ص بھارت کے کئی سفر کیے اور اردو اور پنجابی ادب کے فروغ میں اپناکردار ادا کیا۔ فرخندہ لودھی چیف لائبریرین کی حیثیت سے 18ویں گریڈ میں ریٹائر ہوئیں۔ 31جنوری 1998ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ان کا دایاں ہاتھ اور ٹانگ شدت سے متاثر ہوئے۔انکی آواز اور سماعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔2005ء میں آنکھوں کے آپریشن کی وجہ سے بینائی بحال ہوگئی اور ادب کا تخلیقی عمل بھی بحال ہو گیا۔ بعد ازاں فرخندہ لودھی پر 2009ء میں فالج کا دوسرا حملہ ہوا۔ یکم مئی 2010ء کو فالج کا تیسرا حملہ ہواجوجان لیوا ثابت ہوا۔ بالاخر5 مئی 2010ء کو شام پانچ بجے فرخندہ لودھی قید حیات سے ہمیشہ کے لیے نجات پاگئیں ۔
بے شک ہم اﷲ کے لئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 661429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.